از قلم: محمد سالم قاسمی سریانوی، استاذ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارکپور اعظم گڑھ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
(قسط ثانی)
زکوٰۃ نہ دینے پر وعید:
جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے کہ زکاۃ ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے، اس کی دین میں کافی اہمیت وفضیلت ہے، ادا کرنے پر مختلف قسم کے فضائل اور ثواب کو بیان کیا گیا ہے، وہیں اس کی عدم ادائیگی پر قرآن وحدیث میں بہت سخت قسم کی دھمکی اور وعید سنائی گئی ہے، اور یہ تو بہت ہی بے غیرتی کی بات ہے کہ ہم اپنی زبان سے تو اسلام پر عمل پیرا ہونے کے دعوے دار ہوں اور اپنے کو عاشق رسول کہتے ہوں لیکن ہماری زندگی میں دین کاایک اہم رکن نہ ہو اور ہم اس پر عمل پیرا ہونے سے کتراتے ہوں۔ قرآن کریم کے اندر اللہ تبارک وتعالی ان لوگوں کو دھمکی دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں جو اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے: ”وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۔ یَوْمَ یُحْمَی عَلَیْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوَی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوْبُہُمْ وَظُہُورُہُمْ ہٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ۔“(التوبہ:34-35) ”اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کے راستے میں خرث نہیں کرتے ہیں تو آپ ان کو ایک درد ناک عذاب کی خوش خبری سنا دیجیے،جو اس روز (واقع) ہوگا جب کہ اس(سونے اور چاندی) کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان کی پیشانیوں کو اور ان کے پہلوؤں کو اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا، (اور ان سے کہا جائے گا) یہی ہے وہ (مال) جس کو تم اپنے واسطے جمع کرکے رکھتے تھے، سو اب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو“۔اس آیت مبارکہ میں بہت ہی وضاحت کے ساتھ ان حضرات کو دھمکی دی گئی ہے جو اپنے مالوں کو جمع کرکے رکھتے ہیں اور ان کو شرعی احکام جیسے زکاۃ وغیرہ میں خرچ نہیں کرتے ہیں، اور جو سزا سنائی گئی وہ بہت خطرناک ہے، صرف اس کا صحیح تصور کرلینے سے ہی ایک مسلمان کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے، اللہم احفظنا منہ۔
ایک دوسرے موقع پر اللہ تعالی بخل کرنے والوں اور اللہ کے دیے ہوئے مالوں کو اس کے راستے میں نہ خرچ کرنے والوں کو دھمکاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ”وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا اٰتَاہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہِ ہُوَ خَیْرًا لَہُمْ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَہُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔“ (آل عمران:180) ”اوروہ لوگ جو ان مالوں میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عنایت فرمایا ہے وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ مال ان کے لیے بہتر ہے، بل کہ یہ ان کے لیے بہت بدتر ہے، عنقریب قیامت کے دن ان کے بخل کیے ہوئے مالوں کا طوق بنا کر ان کو پہنایا جائے گا۔“ اس آیت میں بھی اللہ تبارک وتعالی نے بخل کی شدید مذمت کی ہے، اور انسان اللہ کے عطا کردہ مال کے بارے جو یہ تصور کرتا ہے کہ وہ اس کا اپنا ہے، اس پر تنبیہ کی گئی کہ وہ اس کا نہیں؛ بل کہ اللہ رب العزت کا ہے؛ اس لیے وہ اسے اس کی مرضیات میں خرچ کرتا رہے، اگر مال کے انفاق میں بخل کرتا ہے اور ظاہری طور پر اس کو اپنے لیے نفع بخش سمجھتا ہے تواس پر پھٹکار لگائی ہے کہ یہ اس کی ناسمجھی اور بے وقوفی ہے، وہ مال اس کے حق میں بالکل مفید اور کار آمد نہیں ہے؛ بل کہ اس کے لیے بدرجہا بدتر ہے، اور بدتر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہی مال کل قیامت کے دن ایک سانپ کی صورت میں بنایا جائے گا(جیسا کہ عنقریب حدیث میں اس کی صراحت آرہی ہے) اور اس سانپ کو اس کی گردن کا طوق بنا کے پہنا دیا جائے گا جو اس کو مسلسل ڈستا اور کاٹتا رہے گا، ظاہر ہے کہ یہ کتنی بڑی وعید ہے، اس وعید سے بھی اگر ہمیں ڈر نہ ہو تو پھر خود اپنے اوپر افسوس کے علاوہ اور کیا کیا جاسکتا ہے۔
بخاری شریف کی روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روای ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”من آتاہ اللہ مالا فلم یؤد زکوتہ مثل لہ یوم القیامۃ شجاعا اقرع لہ زبیبتان یطوقہ یوم القیامۃ، ثم یأخذ بلہزمتیہ(یعني شدقیہ)ثم یقول انا مالک انا کنزک ثم تلا: ولایحسن الذین الآیۃ“ (رواہ البخاری) ”جس آدمی کو اللہ رب العزت نے دولت عطا فرمائی پھر اس نے اس کی زکاۃ نہیں ادا کی تو وہ دولت قیامت کے دن اس آدمی کے سامنے ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گی جس کے انتہائی زہریلے پن سے اس کے سر کے بال جھڑ گئے ہوں اس کی آنکھوں پر دو سفید نقطے ہوں (جس سانپ میں یہ دو باتیں پائی جائیں وہ انتہائی زہریلا سمجھا جاتا ہے) پھر وہ سانپ اس (زکاۃ نہ ادا کرنے والے بخیل) کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا (یعنی اس کے گلے میں لپیٹ دیا جائے گا) پھر وہ اس کی دونوں بانچھیں پکڑے گا(اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیری دولت ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔۔۔یہ فرمانے کے بعد آپ ﷺ نے قرآن کی آیت ”ولا یحسبن الذین“ آخر تک تلاوت فرمائی۔“ (مذکورہ آیت اوپر مع ترجمہ کے ذکر کی جاچکی ہے)
ان دونوں آیات اور حدیث میں نہایت ہی وضاحت وصراحت کے ساتھ زکاۃ نہ دینے والوں کو دھمکایا گیا ہے،اور ان کو وعید سنائی گئی ہے، اس لیے زکاۃ دینے کا مکمل اہتمام کرنا چاہیے، دنیاوی منافع اور فانی فوائد کے چکر میں آخرت کے عظیم نفع کو چھوڑ کر وہاں کے نقصانات اور عذاب کو مول لینا کوئی عقل مندی، دانش مندی اور کمال کی بات نہیں ہے؛بل کہ نہایت ہی بے وقوفی اور گھٹیا قسم کی حرکت ہے جس کی ایک ذی شعور مسلمان سے توقع نہیں کی جاسکتی۔
یہاں رک کر ایک شبہ کا ازالہ کردینا بھی مفید ہوگا کہ زکاۃ ادا کرنے میں بظاہر مال کی کمی معلوم ہوتی ہے، جس سے بعض مرتبہ کم دین دار مسلمان تردد میں ہوجاتا ہے کہ پھر زکاۃ اد اکرنے سے فائدہ کیا ہوا، تو اس سلسلہ میں یہ بات رکھنے کی ہے زکاۃ ادا کرنا اللہ کا ایک حکم اور اس کی طرف سے عائد کردہ ایک فریضہ ہے؛ لہذا ظاہری منافع کی توقع کرنا یہ عبادت کے منافی ہے، دوسری بات یہ ہے یہ کمی اور نقصان صرف ظاہری ہوتا ہے، ورنہ حقیقت میں زکاۃ کے منافع میں ایک نفع یہ بھی ہے اس سے مال میں اضافہ ہوتا ہے اور اللہ کی جانب سے موجودہ مال میں برکات کا نزول ہوتا رہتا ہے، جو ہر شخص کے لیے فائدہ مند ہے، جیسا کہ قرآن وحدیث میں اس مضمون کو بیان فرمایا گیا ہے۔ قرآن میں فرمان باری ہے: ”وَمَا اٰتَیْتُمْ مِنْ رِبًا لِیَرْبُوَ فِیْ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْ عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا اٰتَیْتُمْ مِنْ زَکَاۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓ ءِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْن“۔ (الروم: 39) ”کہ جوسود کا مال تم دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مال میں شامل ہوکر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے نزدیک بڑھتا نہیں، اور جو زکاۃ کا مال دیتے ہو اس حال میں کہ اللہ کی خوش نودی کے طالب ہوتے ہوتو ایسے ہی افراد اپنے مالوں کو دوگنا کرنے والے ہیں“۔ حدیث کے اندر ارشاد فرمایا گیا ہے: ”ما نقصت صدقۃ من مال“ (رواہ الترمذي) ”کہ صدقے سے مال کم نہیں ہوتا ہے“۔اس لیے یہ خیال کہ صدقہ اور زکاۃ سے مال میں کمی آتی ہے اور مال گھٹتا ہے یہ دین اسلام کی روح کے خلاف ہے، اور جیسا کہ قرآن وحدیث سے معلوم ہوا کہ اس میں صرف ظاہرمیں کم ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے لیکن وہ حقیقت میں بڑھتا ہے اور اس میں برکت ہوتی ہے۔واللہ اعلم