تحریر: محمد سالم قاسمی سریانوی، استاذ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور اعظم گڑھ
salimmubarakpuri@gmail.com
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جب سے یہ خبر پڑھی ہے کہ سعودی عرب سمیت کل سات خلیجی ریاستوں نے اسلامی ملک ”قطر“ سے سفارتی تعلقات ختم کر لیے ہیں تب سے یہ نہیں سمجھ میں آرہا ہے کہ اسلامی ممالک کے سربراہان کو کیا ہوگیا ہے؟آخر اسلامی نظام حکومت کا دم بھرنے والے اپنے ہی مسلمان ملک کے دشمن کیوں ہوگئے؟ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ممالک سے ان کی یاری آخر اتنی مضبوط کیوں ہوگئی؟ جو نظام وسیاست اسلام نے پیش کیا تھا اس کو بالائے طاق کرکے غیر اسلامی سیاست کو دامن سے کیوں وابستہ کرلیا؟
لیکن یہ سوالات کوئی معمہ نہیں ہیں جو حل نہ کیے جا سکیں؛ کیوں یہ بات تقریبا طے کے درجہ میں ہے کہ اس وقت دنیا ”دجالی نظام“ کی گرفت میں ہے، اور قرب قیامت میں جس نظا م کو احادیث طیبہ میں پیش کیا گیا ہے وہ ہماری کوتاہ نگاہوں کے سامنے ہے، اور ہر ممکن پوری دنیا کوبالخصوص اسلامی ممالک کو اسی دجالی نظام سے مربوط کرنے کی بھر پورکوششیں جاری ہیں، لیکن بہر حال یہ ہونا ہے، کیوں کہ یہ تو نوشتہئ تقدیر ہے جس کو کوئی ٹال نہیں سکتا ہے۔
البتہ موجودہ واقعہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے، کوئی ایسا جرم نہیں جس کی وجہ سے قطر سے سفارتی تعلقات کو ایک دم منقطع کردیا جائے، صرف یہ الزام لگا دینا کہ قطر کے دہشت گردوں سے روابط وضوابط ہیں، یہ ان جیسے گروپوں کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے، اسلام پسند تنظیموں کا حامی ہے،مذکورہ الزامات کی کتنی حقیقت ہے یہ تو ماہرین بتائیں گے، لیکن اسلام پسند تنظیمیں جیسے ”الاخوان المسلمون“ وغیرہ کو دہشت گردی سے جوڑنا کہاں کا انصاف ہے، جب کہ یہ اسلام پسند ہے اور قوانین اسلام کے نفاذ کے لیے کوشاں ہے،اور کسی اسلام پسند کو دہشت گرد کہنا اور اس سے پلہ جھاڑنا کتنا افسوس ناک ہے۔ مذکورہ اساسوں پر تعلقات کا انقطاع باعث صد حیرت ہے، ذرا شاہ سلمان ایک نظر ڈالیں ان ممالک پر جن کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے، جنہوں نے اسلام کی بیخ کنی کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے؛ بل کہ ہمہ تن اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے منصوبے بنائے اور اس کے مطابق عمل درآمد کررہے ہیں، کیا ان ممالک نے کبھی اسرائیل جیسے ظالم وغاصب ملک کے تئیں اتنا بڑا فیصلہ لیا، ایران جیسے اسلام مخالف ملک کے حوالے سے کچھ فکر کی، امریکہ جیسے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کا خون بہانے والے ملک کے سلسلہ میں کبھی سختی برتی؟ ظاہر ہے کہ ان سوالات کے جوابات نفی ہی میں مل سکتے ہیں، لیکن ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے سعودی سمیت خلیجی ممالک کی دوہری پالیسی بالکل عیاں ہوجاتی ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ان کے اندرسے اسلام کی روح ختم ہوچکی ہے، وہ فکر فنا ہوچکی جس پر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو چھوڑا تھا، صحابہ کی شان بے نیازی ختم ہوچکی ہے، وہ مسلم امہ کو جس کو خاتم الانبیاءﷺ نے ایک جسم سے تعبیر کیا تھا آج اس کی وحدت پارہ پارہ ہوچکی ہے اور نا معلوم ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے اور اپنے ہی اپنوں کے دشمن بنے بیٹھے ہیں اور غیروں سے دوستی گانٹھے ہوئے ہیں، فالی اللہ المشتکی واللہ المستعان.