اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: کیا بلریاگنج کے نگر پنچایت الیکشن میں علماء کونسل کی شرکت انتشار کا سبب بنے گی؟

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday, 3 June 2017

کیا بلریاگنج کے نگر پنچایت الیکشن میں علماء کونسل کی شرکت انتشار کا سبب بنے گی؟


تحریر: آفتاب عالم آزاد نگر بلریا گنج
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فیس بوک پر بعض تبصروں پر نظر ڈالنے کے بعد اور کچھ دوستوں سے بات کرکے ایسا لگتا ہے کہ لوگ علماء کونسل کی شرکت سے ناخوش ہیں ۔وہ یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ علماء کونسل کے آنے سے ووٹ منتشر ہوجائے گا جس کے نتیجے میں یہاں کی سیٹ مسلمانوں سے چھین سکتی ہے ۔اس لئے اتحاد کے مدنظر اس الیکشن سے علماء دور ہی رہے تو زیادہ بہتر ہے وغیرہ ۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اتحاد کس طرح بنتا ہے اور اس کے لئے لازمی چیز کیا ہے۔ جب لوگوں کی ایک جماعت عوامی مفادات کی خاطر کسی بات پر متحد ہونے کی خواہش رکھتی ہے تو سب سے پہلے اس جماعت کے افراد اپنے ذاتی مفادات کو با لائے طاق رکھ دیتے ہیں کیونکہ اتحاد میں ایک شخص کے بجائے کئی لوگ بلکہ بعض اوقات ایک بڑی تعداد شامل ہوتی ہے ۔اس لئے اگر ہر شخص اپنے اپنے فائدہ کے بارے میں سوچنے لگے تو عوامی مفاد ات کی تکمیل کبھی ممکن نہیں ہوگی اور اتحاد ٹوٹ جائے گا ۔لہذا کسی بھی اتحاد کی پہلی شرط ہے قربانی کا جذبہ اور اپنے مفاد پر عوامی مفادات کو فوقیت ۔ آئیے اب اس کسوٹی پر پرکھتے ہیں کہ ممکنہ امیدواروں میں کون کون اپنے ذاتی مفادات پر قصبہ کی عوام کے مفادات کو فوقیت دیں گے۔
1 سفیان پیٹی والے۔۔۔۔
تقریبا سبھی کو معلوم ہے کہ جناب بیس سالوں سے انتخاب لڑ رہے ہیں اور آج تک جیت کی خوشبو نصیب نہیں ہوئی ہمیشہ نو سو سے بارہ سو کے درمیان ووٹ حاصل کرکے دوسرے یا تیسرے نمبر پر رہتے ہیں آپ چار مرتبہ عوام کے سامنے خود کو پیش کرچکے ہیں مگر آج تک عوام کے پسندیدہ امیدوار نہیں بن پائے بلکہ ایک دو بار ہارنے کے بعد بھی جب یہ الیکشن لڑنے سے بازنہیں آئے تو عوام کا ایک بڑا طبقہ آپ کے اس رویہ سے مزید نفرت کرنے لگا جس کا انجام ہر دفعہ شکست پر ختم ہوتا ہے۔اگر جناب سفیان صاحب اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر عوام کی پسند و ناپسند کا ذرا بھی خیال رکھتے تو وہ دوبارہ کبھی الیکشن نہیں لڑتے مگر وہ ہٹ دھرمی پر قائم ہیں کہ چاہے لوگوں میں کتنا ہی انتشار ہوجائے وہ پیچھے نہیں ہٹنے والے ۔غیر مسلم سیٹ پر قبضہ کرلے مگر وہ اپنی امیدواری سے باز نہیں آئیں گے۔ان کے اس رویہ سے دو بات واضح ہوتی ہے۔ایک تو عوامی مفادات کا بالکل بھی خیال نہ رکھنا دوسرے بیس سالوں سے انتخاب لڑنے کے باوجود ان کے اندر سیاسی سمجھ بوجھ کی کمی۔ اگر ان کو اقتدار پہ قبضے کا اتنا ہی جنون ہے اوراگر وہ سیاسی بصیرت والے ہوتے تو چار مرتبہ ہارنے کے بعد عوام کی نفرت کو بھانپ لیتے اور ٹرین کی ڈرائیونگ سیٹ اپنے کسی بندے کو دے کر ٹرین کا کنٹرول خود رکھتے ۔ یعنی ٹرین اور اس کے مسافر وہی رہتے اور اس کی قیادت بھی اپنے کنڑول میں ہوتی فرق صرف اتنا ہوتا کہ ڈرائیور کی سیٹ پر کوئی اور بیٹھتا۔مگر آ ج تک نہ ہی وہ عوام کا دل جیتنے میں کامیاب ہوئے اور نہ ہی ان میں سیاسی سمجھ بوجھ پیدا ہوسکی ۔
اب اگر جناب یا ان کے حواری یہ کہیں کہ علماء انتشار کا سبب بنے گی تو ان کا یہ دعوی بالکل کھوکھلا ہے کیونکہ جو شخص نہ عوام کا خیال رکھتا ہو اور نہ ہی سیاسی سمجھ بوجھ رکھتا ہو تو وہ خود کو دوسروں سے بہتر اور دوسرے پر انتشار کا الزام کیسے لگا سکتا ہے۔
2۔ موجودہ چیئرمین حاجی محمد عارف خان۔۔۔
جناب موجودہ چیرمین ہیں ۔اور عوام کی ایک بڑی تعداد کے بقول علماء کونسل کی بدولت وہ زمین سے اٹھ کر چیرمین کی کرسی پر بیٹھے ہیں ۔ آپ گذشتہ الیکشن میں علماء کونسل کے ٹکٹ پر انتخاب لڑے تھے اور جیت حاصل کرنے کے بعد علماء کونسل سے جو عہد و پیمان انھوں نے کیا تھا اسے توڑ کر سماج وادی کا دامن تھام لیاتھا۔ ان کی دلیل یہ رہی کہ چونکہ سپا کی حکومت تھی اس لئے علماء میں رہنے کی وجہ سے ان کو کام نہیں ملتا اس لئے قصبہ کی ترقی کی خاطر انھوں نے ایسا فیصلہ لیا تھا۔الیکشن سے پہلے انھوں نے ایک بات اور کہی تھی کہ وہ صرف ایک مرتبہ عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اس کے بعد وہ دوبارہ الیکشن نہیں لڑیں گے لہذا انھیں ایک بار کامیاب بنایا جائے۔
آئیے موجودہ چیئرمین کے ان دو نقاط کا جائزہ لیتے ہیں۔پہلا یہ کہ وہ دوبارہ الیکشن نہیں لڑیں گے۔آپ کی خواہش کے مطابق آپ ایک مرتبہ چیئرمین کی کرسی پر بیٹھ چکے ہیں تو آخر وہ کیا چیز ہے جو آپ کو اپنے وعدوں کو توڑنے پر مجبور کررہی ہے اور آپ دوبارہ الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے مذکورہ بالا امیدوار کی طرح آپ کو بھی اقتدار سے محبت ہو چکی ہے جس کی وجہ سے آپ اپنے ہی وعدوں کی پاسداری نہیں کررہے ہیں ۔ دوسرا علماء کونسل سے نکل کر سپا میں شامل ہوتے وقت آپ کا یہ جواز پیش کرنا کہ ریاستی سرکار کے ساتھ ہونے ہی میں قصبہ کی ترقی ممکن تھی۔ یہ فارمولہ تو مزید دلچسپ ہے بلکہ یہ آپ کو مزید کھوکھلا کر دیتا ہے ۔ کیونکہ اول تو آپ کو گذشتہ الیکشن میں علماء کونسل سے ٹکٹ کی درخواست دینے سے پہلے ہی یہ بات سوچنی چاہئے تھی کہ ہر حال میں ریاست میں سرکار کونسل کی نہیں ہوگی جس کی وجہ سے کونسل کا امیدوار جیت کر بھی قصبہ کی ترقی نہیں کرپائے گا لہذا بہتر یہی ہوگا کہ علماء سے ٹکٹ کی درخواست ہی نہ دی جائے مگر آپ نے اس وقت اپنے ارادوں کو دل میں پوشیدہ رکھا اور جیت حاصل کرنے کے بعد اپنے مفادات کی خاطر اس نقطہ کو جواز بناکر علماء سے نکل کر سپا میں شامل ہوگئے۔دوسرے ایک منٹ کے لئے چلیے آپ ہی کے فارمولے پر عمل کرتے ہیں کہ ترقی کے لئے ریاستی سرکار کے ساتھ ہونا ضروری ہے ۔اس مرتبہ تو ریاست میں سرکار بی جے پی کی ہے۔لہذا آپ کے فارمولے کے حساب سے اس مرتبہ آپ جیت کر بی جے پی کا دامن تھام لیں گے اور قصبہ کی عوام ہرگز ایسے امیدوار کو پسند نہیں کرے گی جس کی منزل بی جے پی ہو۔اور اگر آپ عوام کو اس مرتبہ یہ یقین دلاتے ہیں کہ آپ بی جے پی میں نہیں جائیں گے تو اس کا مطلب آپ نے واقعی ذاتی مفادات کی خاطر علماء سے دغا کی تھی اور علماء کونسل کے حامیوں کی طرف سے آپ پر جو الزامات لگ رہے تھے وہ بالکل درست تھے۔ اب جو امیدوار نہ تو اپنا وعدہ پورا کرتا ہو اور نہ ہی کسی پارٹی سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرتا ہو تو وہ یا اس کے حواری اتحاد ، وفاداری یا پاسداری کا سبق لوگوں کو کیسے سیکھا سکتے ہیں ۔وہ یہ دعویٰ کیسے کرسکتے ہیں کہ علماء اتحاد کے بجائے انتشار کا سبب بنے گی۔
یہاں موجودہ چیئرمین کے قریبی لوگوں کے ان بیانات کا ذکر کرنا بھی مناسب رہے گا جوانھوں نے چیئرمین کی تائید میں دیا تھا۔یعنی جب علماء سے نکلنے کے بعد عوام کی بڑی تعداد انھیں دھوکہ باز یا ٖغدار کے لقب سے پکارنے لگی تو چیئرمین کے حامیوں کا جواب تھا کہ آپ لوگ بے وقوف ہیں ۔یہی تو سیاست ہے کہ موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پارٹی بدل دی جائے ۔ اسی طرح یہ کہنا کہ سیاست میں وفاداری ، وپاسداری کی کوئی جگہ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ لوگو ں کی ڈکشنری میں وفاداری ،پاسداری،اتحاد کی کوئی جگہ نہیں ہے تو آپ عوام کو اس کا سبق کیوں پڑھا رہے ہیں اور یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ علماء کے آنے سے ووٹ منتشر ہوجائے گا لہذا قصبہ کے مفادات کا لحاظ رکھتے ہوئے علماء کو اس انتخاب سے دور رہنا چاہئے۔
ان تمام باتو ں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں امیدوار اپنے مفادات کو قصبہ کے مفادات پر فوقیت دینے والے ہیں ۔عوام خود فیصلہ کرسکتی ہے کہ یہ لوگ اپنے مفادات کے پیچھے بھاگنے والے ہیں یا عوامی مفادات ان کے نزدیک مقدم شئی ہے۔
3۔ بابو جاوید خاں ۔۔۔۔۔۔
تیسرے ممکنہ امیدوار بابوجاوید خان ہیں ۔یہ چونکہ پہلی مرتبہ انتخاب لڑ یں گے اس لئے ان کی تائید یا مخالفت میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔اس کے علاوہ نہ ہی ذاتی طور پر ان کے ساتھ بہت زیادہ ربط رہا ہے کہ ان کے بارے میں کچھ کہا جائے ۔ بس اتنی درخواست ہے کہ عوام اگر ان پر بھروسہ کرے تو اس پر وہ کھرے اتریں اور زندگی میں کچھ اچھے اصول بنائیں جن پر ہر حال میں اور ہمیشہ اس پر عمل کرتے رہیں تبھی ان کا سیاسی کیرئیر لمبا ہوگا ورنہ بہتر یہی ہے کہ سیاست سے ہی دور رہیں کیونکہ اس کے علاوہ بھی سماج کی خدمت کرنے کے بہت سے طریقے ہیں ۔
ان تینوں کے علاوہ باقی امیدوار یا تو پہلی دفعہ لڑیں گے یا وہ بلریاگنج کے سیاسی منظرنامہ پر اتنی جگہ نہیں بنا پائے ہیں کہ ان پر تبصرہ کیا جاسکے.
4۔ علماء کونسل
میں علماء کونسل کے اغراض و مقاصد یا اس کی تاریخ پر تبصرہ کرکے اپنی تحریر کو طویل کرنا نہیں چاہوں گا ۔ہاں علماء کونسل کی صرف ایک خصوصیت کا میں ذکر کرنا چاہوں گا کہ لاکھ برائیوں کے باوجود وہ آج بھی چاہے وہ علماء کونسل کا حامی ہو یا نہ ہو اس کی مدد کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے ۔اس کا امیدوار ہارے یا جیتے یا کسی اور پارٹی میں چلا جائے مگر پارٹی کی اعلی قیادت اپنے مرکزی ہدف سے پیچھے نہیں ہٹتی اور اعظم گڑھ میں پولیس یا اے ٹی ایس وغیرہ کی جانب سے کسی بھی مسلمان کے اٹھائے جانے پر فورا حرکت میں آجاتی ہے۔ علماء انتشار کے بجائے اتحاد کی ضامن ہے اس کی مثال ہم گذشتہ انتخاب میں دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح اایک عام سا بندہ بلریا گنج کی تاریخ میں علماء کے بینر تلے سب سے بڑی جیت درج کرتا ہے ۔ ہندوستان جیسا ملک جس میں آر ایس ایس اور سنگھ جیسی فکر کے حامل افراد بستے ہوں وہاں اس طرح کی پارٹی کا ہونا بہت ضروری ہے جس کا پہلا ہدف مسلمانوں کی سیکورٹی ہو۔اس طرح کی سبھی پارٹی کو مضبوط کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ جان کی ضمانت سب سے مقدم شئی ہے اس کے بعد ہی آپ ترقی و خوشحالی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔
نوٹ : علماء کونسل کی قیادت سے یہ درخواست ضرور ہے کہ وہ امیدواروں کے انتخاب کے وقت گذشتہ فارمولہ پر عمل نہ کرے بلکہ جو پارٹی کے ساتھ ابتدائی دنوں سے ساتھ رہا ہو اور ساتھ ہی عوام میں اس کی شبیہ اچھی ہو اسی کو ٹکٹ دے اور اگر اسے کوئی ایسا امیدوار نہ ملے تو انتخاب میں حصہ ہی نہ لے کیونکہ نااہل امیدوار کو ٹکٹ دینے کے بعد اگر وہ کوئی بھی غلط کام کرتا ہے یا پارٹی سے فرار ہوجاتا ہے تو اس سے پارٹی کا نقصان تو ہوتا ہی ہے ساتھ ہی کارکنان میں مایوسی اور احساس کمتری کا احساس پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس لئے قیادت بہت زیادہ سمجھ بوجھ اور سیاسی بصیرت کا مظاہر ہ کرے ورنہ وہ دن دور نہیں جب بچے کچے کارکنان بھی مایوسی کی وجہ سے پارٹی سے الگ ہوجائیں گے۔