اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: برکۃ العصر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری رحمہ اللہ کا انتقال ملت اسلامیہ کے لئے عظیم علمی و روحانی خسارہ، اس خلا کا قریب میں پر ہونا نا ممکن!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday, 13 July 2017

برکۃ العصر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری رحمہ اللہ کا انتقال ملت اسلامیہ کے لئے عظیم علمی و روحانی خسارہ، اس خلا کا قریب میں پر ہونا نا ممکن!


تحریر: مفتی محفوظ الرحمٰن عثمانی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
علوم نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے شارح ، پیکر کتاب و سنت ، عالم اسلام کے داعی ،امام المحدثین، شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی قدس سرہ کے علمی جانشین، عالم انسانی کے مبلغ ،امیر المومنین فی الحدیث ،محمد بن اسماعیل البخاری کی جامع صحیح بخاری کے عملی ترجمان اور دنیا کے مقبول ترین استاذ و مربی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری نوراللہ مرقدہ کی رحلت علمی دنیا کیلئے ایک عظیم خسارہ اور میرے لئے سوہان روح ہے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
مخدوم استاذ گرامی کا انتقال ایک عظیم دینی و ملی خسارہ اور ایک باکمال مربی کا خاتمہ ہے، مخدوم گرامی کا درس بخاری و مسلم شریف پوری دنیا میں یکتائے روزگار اور لاثانی تھا ،حدیث پر کلام اور اسما الرجال پر بحث کی مثال اقصائے عالم میں بے نظیر تھی ،جب آپ پڑھاتے تھے تو ایسا محسوس ہوتاتھا کہ اپنے سینے سے علوم نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کو شاگردوں کے سینے میں منتقل فرمارہے ہیں،آپ نے چھ دہائی تک سہارنپور میں علمی حدیث کی گتھیاں سلجھائی ہیں ،شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ علیہ کے حقیقی علمی جانشیں ہونے کا بین ثبوت پیش فرمایا ہے۔شاید ایسے ہی عظیم شاگرد اور یکتائے روزگا ر محدث کے بارے میں کسی شاعر نے کہاہے
مت سہل انہیں جانوں پھرتا فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
حضرت شیخ کا وطن اصلی جونپور تھا، وہیں آپ کی پیدائش 25 رجب المرجب 1355 ہجری مطاق 2 اکتوبر 1937 میں ہوئی ،جب آپ کی عمر پانچ سال دس ماہ کی ہوئی تو والد ہ محترمہ کا سایہ سرسے اٹھ گیا ، ابتدائی تعلیم آپ نے گاؤں کے مکتب میں حاصل کی اور 13 سال کی عمر میں آپ عربی تعلیم کے حصول کیلئے ضلع جونپور میں واقع مدرسہ ضیاء العلوم مانی کلاں میں داخل ہوئے ،فارسی سے لیکر نورالانوار تک تعلیم آپ نے یہاں حاصل کی، مانی کلاں میں دوران تعلیم وہاں کے استاذمحترم مولانا محمد ضیاء مرحوم نے آپ کی خصوصی تعلیم وتربیت کی اور انہیں کے مشورہ سے 1377 ہجری مطابق 1958 عیسوی میں ہندوستان کی عظیم علمی درس گاہ جامعہ مظاہر علوم میں داخل ہوئے، حضرت شیخ مولانا ضیاء کا تذکرہ بخاری کے سبق میں بارہا فرمایا کرتے تھے اور یہ کہتے تھے میں نے انہیں کی وجہ سے تعلیم حاصل کی ہے، وہ میرے عظیم محسن ہیں۔ 1380 ہجری مطابق 1961 میں آپ نے یہاں سے فراغت حاصل کی ،اگلے سال یہیں معین مدرس کی حیثیت سے آپ کی بحالی ہوگئی اور پھر یہیں آخری دم تک درس وتدریس میں مصروف رہے ،آٹھ سالوں بعد 1388 میں استاذ محترم شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی کے انتقال پرملال کے بعد آپ شیخ الحدیث کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے اور بلا انقطاع تقریبا پچاس سالوں تک آپ نے بخاری شریف کا درس دیا ۔
مناظر اسلام حضرت مولانا اسعداللہ صاحب رامپوری سابق ناظم جامعہ مظاہر علوم سہارنپور،فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب ناظم جامعہ مظاہر علوم ،حضرت مولانا منظور احمدخان صاحب رحمہم اللہ آپ کے کبار اساتدہ تھے اور ان سے خاص قلبی لگاؤ رکھتے تھے، آپ کے رفقاء میں حضرت مولانا اطہر حسین صاحب ابن مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی سعید اجراڑوی ،حضرت مولانا مفتی عبد العزیز صاحب رائپوری سابق ناظم جامعہ مظاہر علوم اور حضرت مولانا محمد اللہ ابن حضرت مولانا اسعداللہ صاحب رامپوری سابق ناظم جامعہ مظاہر علوم، حضرت مولانا عبد الحفیظ عبد الحق مکی مکہ مکرمہ ،حضرت مولانا اسماعیل بدات مقیم مدینہ منورہ، شیح الحدیث حضرت مولانا نسیم احمد صاحب غازی خلیفہ ومجاز حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب ، حضرت مولانا عبد الرحیم متالا رحمہم اللہ، حضرت مولانا حبیب اللہ مدنی مسجد نبوی شریف، شیخ الحدیث حضرت مولانا یوسف متالا مدظلہ العالی دارالعلوم بری ایگلینڈ، کے اسماء گرامی سرفہرست ہیں جن سے آپ خصوصی تعلق رکھتے تھے اور موقع بہ موقع ان کے بکارے میں اظہار خیال بھی فرماتے تھے۔
حضرت اقدس اپنے اسلاف کی عظیم یادگار،بخاری شریف کے بے مثال شارح اور عصر حاضر کے امیر المومنین فی الحدیث تھے ،آپ کی ذات سراپا مربی و محسن کی تھی، زہد و تقوی کے امام تھے، آپ کی حیثیت عظیم نورانی وروحانی پیشوا کی تھی ، آج پوری دنیا میں آپ کے پھیلے ہوئے لاکھوں شاگرد،مرید و متوسلین، عقیدمت مند ،مدارس و مساجد اور خانقاہوں کے ذمہ دارن شدید صدمے سے دوچار ہیں ، خود کو یتیم محسوس کررہے ہیں اور ایسا لگ رہاہے کہ ان سے بہت بڑی قیمتی شی فوت ہوگئی ہے۔
رنج وغم کی اس اندوہناک گھڑی میں استاذ گرامی گرامی قدر حضرت اقدس مولانا محمد عاقل صاحب مظاہری محدث و صدر المدرسین جامعہ مظاہر علوم سہارنپور، برکۃ العصر استاذگرامی قدرحضرت اقدس مولانا محمد سلمان مظاہری دامت برکاتہم ناظم جامعہ مظاہر علوم سہارنپور، خلف الرشید حضرت اقدس مولانا محمد طلہ کاندھلوی جانشیں شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا کاندھلوی اور حضرت شیخ زکریا کے علوم ومعارف کے امین وپاسبان ،مخدوم گرامی حضرت اقدس مولانا سید محمد شاہد الحسینی سہارنپوری امین عام جامعہ مظاہر علوم سہارنپور سے اظہار تعزیت کرتے ہیں، اس غم میں ہم برابرکے شریک ہیں اور حضرت الاستاذ کی بلندی درجات کیلئے دعا گو ہیں۔
17 شوال مطابق 11 جولائی کو میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے سفر پر تھا، وہاں مر شدالامت مدبر اسلام حضرت اقدس مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم العالیہ ناظم ندوۃ العلماء لکھنوو صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ ،عالم ربانی حضرت اقدس مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن الاعظمی حفظہ اللہ مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنوسے ملاقات میں مصروف تھا اسی دوران برادرگرامی قدر مولانا عبد اللہ مخدومی ندوی اور مولانا جمیل احمد مظاہری نے انتہائی افسردگی کے عالم میں یہ اندوہناک خبر سنائی کہ شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد یونس صاحب کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ہے ،یہ خبر سنتے ہی میری آنکھوں سے آنسو بہ پڑے ،حضرت کی شاگردی کے ایام یاد آگئے ،ان کی محبت وشفقت کا منظر میری نگاہوں کے سامنے آگیا ،ماضی کے دریچوں میں کھوگیا ۔
فورا میں نے حضرت اقدس مولانا سید محمد شاہد الحسینی صاحب سہارنپوری مدظلہ العالی کو فون کیا تو موبائل ان کا گجراتی بول رہاتھا،بڑی جدوجہد کے بعد مولانا سے رابطہ ہواتو مولانانے بتایاکہ آپ کوجو خبر ملی ہے وہ صحیح ہے ،میں احمد آباد سے تقریبا تین سو کیلومیٹر دور ہوں، کل صبح سات بجے دہلی ہوتے ہوئے سہارنپور پہونچ رہاہوں،پھر اس کے بعد سہارنپور میں اخی الکریم مفتی محمد صالح مظاہری استاذ مظاہر علوم اورعزیزی مولانامحمد یاسرمظاہری معتمد مرکز الشیخ لتحفیظ القرآن الکریم سہارنپورسے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں کے اژدحام اور بھیڑ میرے ربط کے درمیان حائل بن گئی ،پھر میں نے تجہیز وتکفین کا وقت معلوم کرنے کیلئے مخدوم گرامی قدر حضرت الاستاذ مولانا محمد سلمان مظاہری عمت فیوضہم ناظم مظاہر علوم سہارنپور سے فون پررابطہ کیا تو ان سے بات چیت ہوئی اور جنازہ کا وقت معلوم ہواکہ شام چِھ بجے نماز جنازہ ہوگی ،چناں چہ میں نے فورا لکھنوء سے دہلی کیلئے انڈیگو فلائٹ کا ٹکٹ بک کیا ،پرواز کا وقت 10:40 (دس چالیس) کا تھا،ڈھائی گھنٹہ قبل ندوہ سے نکل گیا ،لیکن سو ئے اتفاق راستے میں شدید اژدحام تھا ،عالمی یوم آبادی کی مناسبت سے نکلنے والی ریلی نے پورا راستہ بند کررکھاتھا،اس ریلی میں اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو بھی شرکت کی کرنی تھی جس کی وجہ ٹریفک کی صورت حال اور زیادہ خراب تھی چناں چہ ریلی کی وجہ سے میں بروقت ایئر پورٹ نہیں پہونچ سکا اور یوں یہ فلائٹ چھوٹ گئی ،تاہم اللہ تعالی کے فضل سے میں نے ہمت نہیں ہاری اور مختلف ایئر لائنز کی آفس کا چکر لگانے لگا اسی دوران میرے بیٹے عزیزم حافظ ظفر اقبال مدنی سلمہ کا فون آیا کہ ابھی ڈیڑھ بجے کی ایک فلائٹ ہے اس سے ابو آپ نکل جائیں،ہم نے اپنے ٹروایل ایجنٹ سولوشن پوائنٹ کے چیرمین آفتاب عالم سے کو بتایاکہ ڈیرھ بجے کی فلائٹ ہے اس سے فوری ایک ٹکٹ بک کرلیں اور یوں گوایئر کی فلائٹ سے میں دہلی کیلئے روانہ ہوگیا ،2:15 پر اسے دہلی پہونچنا تھا لیکن سوئے اتفاق موسلہ دھار بارش اور شدید طوفان کی وجہ سے یہ فلائٹ بھی ایک گھنٹہ لیٹ ہوگئی اورمیری زباں پر اچانک یہ شعر آگیا کہ
قسمت کی خوبی دیکھیئے ٹوٹی کہاں کمند
دوچار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا
بہرحال ساڑھے تین بجے دہلی ایئر پورٹ پر فلائٹ لینڈ ہوئی ،باہر نکلتے نکلتے چار بج گئے اور وہیں سے فورا سہارنپور کیلئے روانہ ہوگیا ،اس موقع پر اپنے دوست محترم جناب قاری محمود الحسن صاحب زیدمجدہ مہتمم مدرسہ تجوید القرآن آزاد مارکیٹ دہلی کا تذکرہ ضروری ہے جنہوں نے اپنی گاڑی ایئر پورٹ پر بھیج دی اور یوں جلدی سہارنپور پہونچے میں ان کی اعانت خاص طور پر شامل حال رہی ،اس سفر میں میرے ساتھ برادرگرامی مولانا یوسف انور قاسمی ،مولانا شمس تبریز قاسمی ،حافظ محمد اکبرعلی بھی شریک تھے جن کے ساتھ ہم ایئر پورٹ سے براہ راست براہ پانی پت ،کرنال،یمنا نگر ہوتے سہارنپور کیلئے روانہ ہوگئے،وہاں پہونچنے کے بعد مرکز الشیخ زکریا لتحفیظ القرآن الکریم سہارنپور میں نماز ادا کی اور اس کے بعد حاجی شاہ کمال قبرستان پہونچ کر نمازہ جنازہ پڑھی ،بھیڑ کا یہ عالم تھاکہ ساڑھے دس بجے مٹی دینے کا موقع ملا ،واپسی پر مادر علمی جامعہ مظاہر علوم پہونچا جہاں سناٹا اور اداسی تھی ،درودیوار غمزدہ تھے ،پورا شہر خاموش اور سوگ میں ڈوبا ہوانظر آرہاتھا،پھر میں نے حضرت الاستاذ مولانا محمد سلمان مظاہری زیدہ مجدہ ناظم جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کی خدمت میں باریابی کا شرف حاصل کیا اور تعزیت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ،اس کے بعد مفتی محمد صالح اورمولانامحمد یاسر ،گرامی قدر بھائی محمد راشد سہارنپوری کے ہمراہ ان کے گھر گیا جہاں ہمارے تمام رفقاء کی خدمت میں انہوں نے ماحضر پیش کیا۔ فجزاکم اللہ خیروخیرا کثیرا ۔
سہارنپور میں بھیڑ تھی ،ہرطرف ہجوم تھا،افر اتفری کا عالم تھا اس لئے میں مخدوم گرامی مولانا سید محمد شاہد صاحب سہارنپوری سے رخصت ہونے کی اجازت لیکر دیوبند کیلئے روانہ ہوگیا ،راستے میں گرامی قدر حضرت اقدس مولانا محمد سفیان قاسمی مہتمم دارالعلوم دیوبند وقف سے فون پر بات ہوئی تو انہوں ں نے کہاکہ آپ کہیں اور جانے کے بجائے آستانہ قاسمی پر تشریف لائیں ،یہ آپ کا اپنا گھر ہے یہیں آپ کا قیام رہے گا ،الحمد اللہ بندہ نے اپنے تمام رفقاء کے ساتھ یہیں شب گزارا ،صبح ناشتے کے بعد مخدوم گرامی ،ہندوستان میں سرمایہ ملت کے پاسبان ،حضرت اقدس مولانا محمد سالم قاسمی دامت برکاتہم جانشین شیخ العرب والعجم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قدس سرہ مہتمم دارالعلوم دیوبند سے ملاقات اور شرف نیاز حاصل ہوا،تقریبا تین ماہ کے بعد حضرت سے ملاقات ہوئی تھی ،حضرت نے ڈھیڑ ساری دعائیں دی ،نیک خواہشات سے نوازااور وعدہ کرایاکہ اب کب آئیں گے ،میں نے کہاکہ رواں ماہ کے اخیر میں پھر حاضری ہوگی انشاء اللہ تعالی ۔بعد ہ استاذگرامی قدر حضرت مولانا محمد اسلم قاسمی دامت برکاتہم ناظم تعلیمات دارالعلوم وقف دیوبند سے ملاقات اور عیادت کرنے کی خواہش ظاہر کی لیکن حضرت کے شدید علیل ہونے کے باعث ملاقات کی کوئی شکل نہیں نکل سکی۔آستانہ قاسمی سے نکل کر ہم لوگ دارالعلوم دیوبند(وقف)پہونچے جہاں حجۃ الاسلام اکیڈمی اور دارالقرآن کی نئی عمارت کو دیکھا،بلامبالغہ یہ دونوں عمارت پرکشش ،دیدہ زیب اور منفر د ہے ،ان دوعمارتوں نے دارالعلوم وقف کی خوبصورتی کو دوبالا کردیاہے۔
حضرت شیخ کے انتقال کی خبرملنے کے فورا بعد جامعہ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول بہار میں تعزیتی پروگرام اور ایصال ثواب کی مجلس منعقد ہوئی جس میں اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی جن میں مولانا مفتی محمد انصارقاسمی ،مولانا حمید الدین مظاہری ،مفتی عقیل مظاہری ،مفتی نبی حسن مظاہری ،مولانا عقیل قاسمی ،مولانا فیاض قاسمی ،قاری شمشیر عالم جامعی ،مظفر حسین رحمانی،مظہر حسین رحمانی کے علاوہ دیگر اساتذہ اور بہی خواہان ملت نے اپنے شدید رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے حضرت کیلئے بلندی درجات کی دعا کا اہتمام کیا۔
حضرت شیخ کی نمازہ جنازہ 11 جولائی کی شام کو ساڑھ چھ بجے مولانا محمد طلحہ صاحب نے پڑھائی اور شاہ کمال قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ،محتاط اندازہ اور میڈیار پوٹس کے مطابق نمازہ جنازہ میں 10 لاکھ سے زائد فرزندان توحید کا مجمع تھا۔
اس موقع پر دنیا کے مختلف ممالک میں موجود میرے دوستوں،بہی خواہوں ،حضرت شیخ کے شاگردوں اور عقیدت مندوں نے اس خبر کے ملتے ہی فون کرکے صورت حال سے آگاہی حاصل کی ،اپنے شدید رنج وغم کا اظہار کیا ،مسجد نبوی شریف سے مخدوم ومکرم حضرت مولانا حکیم محمد عثمان مدنی مدظلہ العالی نے بھی فون کرکے اپنے رنج وغم کا اظہارکرتے ہوئے بتایاکہ انہوں نے وہاں اپنے دوست واحباب کو جمع کرکے ایصال ثواب کی مجلس منعقد کی، پناما،سینٹرل امریکہ سے محترم حاجی ادریس بھائی تالیہ،بریڈ فورٹ ایگلینڈکی مسجد قبا کے صدر حافظ احمد پٹیل وغیرہم نے بھی فون کرکے اپنے قلبی لگاؤ کا اظہار کیا اور حضرت کی وفات کو ملت اسلامیہ کیلئے شدید نقصان بتایا ۔
رفتہ رفتہ اٹھ رہی ہیں ہستیان بے نظیر
دل کا شاد بڑھتا جارہاہے پیہم اضطراب
خلاصہ کلام یہ کہ حضرت اقدس عصر حاضر کے محدث کبیر ،امیر المومنین فی الحدیث اور علمی دنیا کے ایک عظیم سرمایہ تھے ،وہ اسلاف کی یادگار اور بزرگان دین کی شان تھے ،ان کے وجود سے صرف مظاہر علوم نہیں بلکہ پورے علم حدیث کی دنیا میں چہل پہل اور رونق سی تھی ،آپ سے سند حدیث لینے کیلئے دنیا بھر کے معروف علماء اور محدثین تشریف لاتے تھے،آپ کی وفات سے ایک عظیم خلاپیدا ہوا ہے ،مظاہر علوم نے ایک باکمال محدث کھودیا ہے ۔بارگاہ ایزدی میں ہم دعاء گو ہیں کہ پروردگار عالم حضرت الاستاذ کی قبر کو نور سے منور فرمائے ،جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے ،آپ کی خدمات جلیلہ کو شرف قبولیت ملے ،آپ کا فیض پوری کائنات اور اقصائے عالم میں جابجا اور کو بکو باقی رکھے ۔
غزالاں! تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا آخر تو ویرانے پہ کیا گزری
والسلام
محتاج دعاء
بندہ مفتی محفوظ الرحمن عثمانی
بانی ومہتمم جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول بہار الہند
سجاد ہ نشیں خانقاہ امدادیہ اشرفیہ
سکریٹر ی جنرل امام قاسم اسلامک ایجوکیشنل ویلفیئر ٹرسٹ انڈیا
18 شوال المکرم 1438 ہجری مطابق 12 جولائی 2017 عیسوی