اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: حکومتوں اور رفاہی تنظیموں سے درد مندانہ اپیل!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday, 18 August 2017

حکومتوں اور رفاہی تنظیموں سے درد مندانہ اپیل!


تحریر: فضیل احمد ناصری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ان دنوں بہار سیلاب کی زد میں ہے، بل کھاتی موجوں اور گھومتے ناچتے تھپیڑوں نے حالات تباہ کر دیے ہیں، اس کنارے سے اس کنارے تک پانی ہی پانی، معلوم ہوتا ہے کہ سطحِ زمین کہیں غائب ہو چکی ہے، راستے، گلیاں، مکانات سب زیرِ آب ہیں، باہمی رابطے مسدود ہو گئے، کون کدھر گیا، نہیں معلوم۔ سیکڑوں جانیں تلف ہو گئیں، لاپتوں کی تعداد تو اللہ ہی جانتا ہے۔۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ بہار کا سیلاب عجیب وحشت ناک اور دہشت انگیز ہوتا ہے، پانی بجلی کی مانند دوڑتا، پاگل ہاتھی کی طرح چنگھاڑتا اور بپھرے ہوے شیر کی طرح دھاڑتا ہے، میرا وطنی تعلق بہار سے ہی ہے، میں ضلع مدھوبنی کے بسفی بلاک سے تعلق رکھتا ہوں، پانی یہاں بھی آبادیوں کے چاروں طرف پہلے صف بندی کرتا، پھر چڑھائی کرتا اور گھروں میں گھس جاتا ہے، لوگ اپنے گھروں سے نکل کر چھتوں پر پناہ لے لیتے ہیں، گزر اوقات سب سے بڑا مسئلہ بن جاتی ہے، بہار کے دیگر خطوں کی طرح میرا علاقہ بھی بری طرح متاثر ہے، 1987 سے یہ آبی طوفان میری نگاہوں سے گزر رہے ہیں، میں نے اپنے ہوش میں سب سے بڑا سیلاب 1987 میں دیکھا، 2004 میں بھی اسی سے ملتا جلتا آیا تھا، لیکن بڑے بوڑھے بتا رہے ہیں کہ یہ سیلاب ان کے دیکھے ہوے سیلابوں میں سب سے بڑا اور تباہ کن ہے، "دریا ندیدہ بود" قسم کے لوگ تو اسے دیکھتے ہی حواس کھو دیں گے، ہمیں ایسے سیلاب دیکھنے کی عادت پڑ چکی ہے، ہلکا پھلکا سیلاب ہو تو جھیلا جا سکتا ہے، مگر پانی کی وہ کثرت کہ مکانوں کو بہا لے جاے، پلوں اور سڑکوں کو جھاگ کی طرح اڑا دے، آدم خور جانوروں کی طرح انسانوں کو نگلتی جاے، یہ دردناک ہے، حالیہ طوفان تباہی و بربادی کی بھیانک تاریخ رقم کر چکا، بالخصوص سیمانچل کے اکثر علاقے کھنڈرات سے بھی گئی گزری حالت میں پہونچ گئے، رابطے کی ساری سبیلیں بند، وہ افراد جو روزگار کے سلسلے میں بہار سے باہر ہیں، مرغِ بسمل کی طرح تڑپ رہے ہیں، میں خود اپنے وطن سے دور ہوں اور اپنے آپ سے کہتا ہوں:

کوئی نہیں جو یار کی لادے خبر مجھے
اے سیلِ اشک تو ہی بہادے ادھر مجھے

خبریں پڑھ پڑھ کر اور سن سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے، لوگ لٹتے رہے، برباد ہوتے رہے، لقمہ اجل بنتے رہے، مگر امدادی ٹیمیں ساحل پر کھڑی تلاطم خیزیوں کا نظارہ کرتی رہیں، خرابئ بسیار کے بعد ہی سہی، حکومت اور مسلم تنظیمیں حرکت میں آچکی ہیں، اللہ انہیں صلہ دے، مگر نقصان اس قدر اور اتنا دور رس ہوا ہے کہ یہ امداد اونٹ کے منہ میں زیرا ثابت ہو رہی ہے، صوبائی اور مرکزی دونوں حکومتوں سے میری اپیل ہے کہ اس سیلاب کو قومی آفت قرار دے کر باز آبادکاری کی مہم سر انجام دے، مرنے والوں کے وارثین کو مناسب معاوضہ دے، لاپتوں کا سراغ لگا کر اہلِ خانہ کی مدد کرے، سیلاب کی بندش پر اپنی توجہ مرکوز کرے، جن پہ نہیں بیتی وہ کیا جانیں! انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مسلم جماعتیں بھی اس جانب بھر پور توجہ دیں، یہ ایک خدائی عذاب ہے اور اس کی زد کسی پر بھی پڑ سکتی ہے۔