ازقلم: فضیل احمد ناصری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
★تمہید★
اسلام نے خود کو ماں جب کہ مسلمانوں کو اس کی اولاد کہا ہے، چناں چہ ارشاد ہے: انما المؤمنون اخوۃ۔ یعنی مسلمانوں ایک دوسرے کے بھائی ہیں، ایک دوسرے مقام پر اہلِ اسلام کو جسمِ واحد قرار دیا ہے، جس کے بے شمار اعضا ہیں، چنانچہ فرمانِ رسالت ہے: المؤمن کرجل واحد ان اشتکیٰ عینہ اشتکیٰ کلہ وان اشتکیٰ راسہ اشتکیٰ کلہ۔۔ اس حدیث میں صاف ہے کہ مسلمان کہیں کا بھی ہو، ایرانی ہو کہ تورانی، شامی ہو کہ عراقی، جب وہ دردمند ہو تو دنیا کے دوسرے مسلمانوں کو یہ درد اسی طرح محسوس کرنا چاہیے، جس طرح ہاتھ میں درد میں درد ہو تو سارا جسم شریکِ درد ہوجاتا ہے۔۔۔
★لگے ہے آگ اک گھر میں، تو ہمسایہ ہوا دے ہے★
یہ اسلام کی تعلیم ہے، اتحادِ امت ایک ایسا مضبوط لائحہ عمل ہے جسے اپنا کر مسلمان "سیسہ پلائی دیوار" بن سکتا ہے، بے شک دنیا سرحدوں میں بٹ گئی ہے، مگر ہمارے نزدیک دنیا کے دیگر صحیح العقیدہ مسلمان بھی اسی طرح پیارے ہیں، جس طرح ہمارا حقیقی بھائی پیارا ہے، بھائی ہونے کا مطلب ہمدردی و خیرخواہی ہے، مگر ایسا ہوتا نہیں ہے، انتشار، 'خلفشار'، ناچاقیاں اور دل شکنیاں اس قدر ہیں کہ ایک کی تکلیف دوسرے کو درد تو کیا دلاے گی، ہنسنے کا خوب صورت موقع ہی فراہم کرتی ہے، شعروسخن میں میرے استاذ ڈاکٹر کلیم عاجز کہہ گئے ہیں:
اب انسانوں کی بستی کا یہ عالم ہے کہ مت پوچھو
لگے ہے آگ اک گھر میں تو ہمسایہ ہوا دے ہے
★اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی★
قدرتی آفت اور تکلیف میں تو دوسروں کا ہنسنا اور مسکرانا عام بات ہے، اس سے بھی بڑھ کر مسئلہ یہاں یہ بھی ہے کہ جو جتنا زیادہ قریب ہوتا ہے، اسی قدر رنج دیتا ہے، باہمی ملاقات کتنی ہی گرم جوشانہ اور کرم گسترانہ کیوں نہ ہو، موقع پاتے ہی ایسی ستم ظریفی کا سامنا ہوتا ہے کہ آدمی بلبلا کر رہ جاے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ناگ ہے، جو گھات لگاے بیٹھا ہے اور "حسین موقع" پاتے ہی اپنا کام کر جاتا ہے، کہنے والے نے صرف اپنا خیال ہی پیش نہیں کیا، بلکہ انسانی مزاج کی ایک قدیم کمزوری کو شعر کا پیکر دے دیا ہے:
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
★کوئی درد سے پریشاں، کوئی ڈفلیاں بجاے★
اس سے بھی خطرناک شماتتِ اعدا ہے، یہود سامری کے مایا جال میں پھنسے تو طور سے واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کا سر اور داڑھی پکڑ کر گھسیٹ رہے تھے، حضرت ہارون نے اپنے بھائی سے التجا کی: لاتشمت بی الاعداء۔۔ میرے دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دیجیے! اپنے دشمن کی تکلیف پر چین کی بانسری بجانا "شماتتِ اعدا" کہلاتا ہے، پیغمبرﷺ کی دعاؤں میں شماتتِ اعدا سے پناہ مانگنا بھی منقول ہے: اللہم انی اعوذ بک من سوء القضاء۔۔۔ وشماتۃ الاعداء۔۔۔یہ انتہائی قبیح عمل ہے، جو شخص آج کسی پر ہنس رہا ہے، کل اسکی کھلیاں بھی اڑائی جائیں گی، عربی کا مقولہ ہے: من ضحک ضحک، شیخ سعدی نے لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کو کسی نے خوش خبری سنائی کہ آپ کا فلاں دشمن انتقال کر گیا ہے تو بجاے اظہار مسرت کے اس نے یہ کہا:
مرا بمرگِ عدو جاے شادمانی نیست
کہ زندگانیِ ما، نیز جاودانی نیست
یعنی میں بھی ایک دن مر جاؤں گا،پھر اس کی موت پر جشن کیسا?
★شماتتِ اعدا کی ایک شکل یہ بھی ہے:★
دشمن پر مصیبت دیکھ کر مزہ لینا تو شماتت ہے ہی، شماتت کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اپنوں کو برے حالات میں دیکھ کر اس طرح ان کی مدد کی جاے کہ دیکھنے والا اسے ریاکاری پر محمول کرے، قیامت کے دن جن سات خوش نصیبوں کو عرش کے ساے میں جگہ ملے گی، ان میں سے ایک وہ بھی ہے: رجل انفق فی سبیل اللہ لا تعلم شمالہ ماتنفق یمینہ۔۔۔یعنی دائیں ہاتھ سے اس طرح دیا کہ بائیں ہاتھ کو پتہ ہی نہیں چلا، اس طرح کی امداد کے جہاں اور بہت سے فائدے ہیں، ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ لینے والا احساسِ کمتری میں مبتلا نہیں ہوتا اور دنیا کے سامنے ذلت سے بچ جاتا ہے، ترغیب کے لیے معمولی اظہار اور بات ہے اور ریاکاری کارِ دیگر، آپ اسے نماز کی نظیر سمجھیے، جو عملِ قلیل سے متاثر تو نہیں ہوتی، مگر عملِ کثیر سے فاسد ہو جاتی ہے۔۔۔
★ہماری تنظیموں کا حال★
اسلام کی تعلیم جو بھی ہو، ہمارا عمل اس پر عدم ہی کے درجے میں ہے، کہیں کوئی حادثہ رونما ہو جاے تو تعزیت و تسلی اور عیادت کی بجاے ایک طرح سے خوشی منائی جاتی ہے، یقین نہ آے تو ہماری تنظیموں کو دیکھ لیجیے، کہیں فساد ہو جاے، زلزلہ آ جاے، سیلاب کا عفریت دہشت زدہ کردے تو یہ تنظیمیں اخبارات میں اس طرح اشتہار دیتی ہیں کہ خدا کی پناہ! صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان کی چاندی کا وقت جاگ گیا ہے، چندے کی زبردست اپیلیں، گویا آمدنی کا زریں موقع ہاتھ آ گیا ہو، پھر اس کے بعد امداد کی تقسیم اس انداز میں، جیسے عیدالفطر کا نمازی صدقہ فطر نکال رہا ہو، ایک ایک لمحے کی تصویر، وہ بھی مختلف زاویے سے، لینے والا شرمسار اور دینے والا موج مستی میں، پھر ان تصویروں کی ایسی نمائش کہ شیطان بھی شرما جاے، دل کش عنوان اور پرفریب اعلان کے ساتھ۔۔۔
★دل خون کے آنسو روتا ہے★
یہ مناظر دیکھ کر سیاست داں یاد آجاتے ہیں، جن کے خوابوں کا محل لاشوں کے ڈھیر پر شرمندہ تعمیر ہوتا ہے، کوئی بے چارہ تو درد سے پریشان ہے، قدرتی آفت نے اسے مجبور کر دیا ہے اور کوئی وہ ہے جو اسے امداد دے کر تصویریں بنوا رہا ہے، میرے نزدیک یہ عمل بہر طور حرام ہے، میں اسے عزتِ نفس پر حملہ مانتا ہوں، آپ ضرور امداد کریں، مگر انداز وہی ہو کہ بایاں ہاتھ بے خبر رہے، یہی ایک مقام نہیں، کوئی حادثے میں مارا گیا تو اس کے اہلِ خانہ پر قیامت ٹوٹی پڑی ہے، مگر یہ تصویر مافیا وہاں بھی پہونچ کر اپنا محبوب شغل سر انجام دے رہا ہے، سیلفیاں بنوا رہا ہے، نمائشیں کر رہا ہے، یہ سب مناظر خون کھولانے والے اور پتہ پانی کرنے والے ہیں، کاش کوئی سمجھے!!!