رپورٹ: وسیم شیخ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
نئی دہلی(آئی این اے نیوز 24/اگست 2017)جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی دفتر نئی دہلی میں سپریم کورٹ کے ذریعہ طلاق ثلثہ کو کالعدم قرار دینے کے تناظر میں مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری صدر جمعیۃ علماء ہند کے زیر صدارت ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی، میٹنگ میں مولانا محمود مدنی جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند، مولانا مفتی سلمان منصورپوری، مولانا حسیب صدیقی، مولانا سلمان بجنوری دارالعلوم دیوبند، مولانا قاری شوکت علی ویٹ، مولانا راشد اعظمی دارالعلوم دیوبند، ایڈوکیٹ شکیل احمد سید، ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی، مولانا معزالدین احمد اور مولانا مفتی عفان منصورپوری بھی شریک ہوئے ۔
فیصلے کے عواقب و مضمرات کا جائزہ لیتے ہوئے متفقہ طور سے اسے شریعت کے خلاف اور ملت اسلامیہ کے لیے سخت قابل تشویش قراردیا گیا، میٹنگ کے بعد ایک اہم پریس کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں یہ جمعیۃ علماء ہند کا چار نکاتی تحریری موقف سنایا گیا جو حسب ذیل ہے ۔
(۱) اس سلسلے میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ سپریم کورٹ نے 3-2 کی ا کثریت سے ایک مجلس کی تین طلاق کو کالعدم قرار دے دیا ہے ۔یہ فیصلہ شریعت کے خلاف اور ملت اسلامیہ کے لیے سخت قابل تشویش ہے ۔
(۲) سپریم کورٹ کے فیصلے نے اگر چہ سردست واضح کردیا ہے کہ مسلم پرسنل لاء دستور کے تحت بنیادی حقوق میں شامل ہے اور دستور اس کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ، بایں معنی طلاق کی دیگر شکلیں، قانون ازدواج ، وراثت ودیگر موضوعات جو شریعت ایکٹ 1937کے تحت آتے ہیں، محفوظ ہیں ۔ لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تعدد ازدواج، حلالہ اور دیگر امور سے متعلق الگ سے غور کیا جائے گا، اس سے شریعت کے دیگر امور میں مداخلت کا صاف اشارہ ملتا ہے ۔
(۳) بریں بنا فیصلہ کے بین السطور مخفی خدشات کے حوالے سے جمعیۃ علماء ہند یہ واضح کر دینا چاہتی ہے کہ ہمارے مذہبی حقوق جن کی دستور نے ضمانت دی ہے اور جو ہمارے بنیادی حقوق کا حصہ ہیں، ان پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا اور ہماری یہ جدوجہد ہر سطح پر جاری رہے گی ۔
(۴) جمعیۃ علماء ہند تمام مسلمانوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ناگزیر حالات کے بغیر ہر گز طلاق کا اقدام نہ کریں، کیوں کہ شریعت کی نظر میں طلاق مبغوض ترین چیز ہے اور خاص کر ایک مجلس کی تین طلاق سے بہرحال اجتناب کیا جائے تاکہ غیروں کو مداخلت کا موقع نہ ملے.