اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday, 18 August 2017

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت!


ازقلم: ریان احمد ریان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خاندان بنی امیہ سے تعلق رکھتے تھے، آپ کی تاریخ پیدائش 576ع ہے آغاز بعثت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی صاحبزادی رقیہ رض کا نکاح آپ سے کر دیے تھے، آپ رض غزوہ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شریک رہے کیونکہ غزوہ بدر کے موقع پر حضرت رقیہ رض کی طبیعت مضمحل تھی اس لیے آپ شریک ہونے سے قاصر رہے اسی اثناء میں حضرت رقیہ رض کا انتقال ہوگیا آپ صلی اللہ نے اپنی دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم کا آپ کے ساتھ نکاح کردیا چنانچہ اسی بنیاد پر آپ کو ذوالنورین بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت عثمان رض اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر بے دریغ مال خرچ کرتے تھے۔ غزوات کے موقع پر اپنے مال کا دہانہ کھول دیا کرتے تھے ۔ مدینہ میں اس وقت پانی کی بڑی قلت تھی اسی وجہ سے آپ نے اس وقت ایک کنواں اپنے پیسے سے خرید کر مسلمانوں کیلۓ وقف کردیا تھا جسے رومہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق رض ان کے بعد حضرت عمر فاروق رض اور ان کے بعد حضرت عثمان رض کا انتخاب ہوا آپ کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلی آپ داماد رسول خلیفئہ ثالث اور کاتب وحی بھی رہے۔آپ کی مدت خلافت بارہ سال ہےیعنی 24ھ تا35 ھ آپ کے زمانےمیں رفاہ عامہ کے کام بھی ہوۓ بیشتر فتوحات بھی ان میں سے طرابلس کی فتح۔قبرص کی. فتح اور فارس پر قبضہ ہے۔
لیکن کچھ حاسدوں اور فتنہ پرورں نے حضرت عثمان رض کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور مطالبہ کرنے لگے کہ آپ خلافت سے دست بردار ہوجائیے۔ در اصل اس فتنہ کو بھڑکانے والا ایک نو مسلم یہودی عبد اللہ بن سبا تھا اور نوجان مسلمانوں سے کہتا پھرتا کہ خلافت فی الحقیقت بنی ہاشم کا حق ہے لیکن حضرت عثمان نے اس کو جبرا لیا ہے اور دوسری چیز یہ تھی کہ نوجوان جب مدینہ سے باہر نکلتے تو لوگ ان کو بڑی عزت دے تے تھے اور بہترین ضیافت کرتے جس کی وجہ سے انھیں دنیا کا جاہ و مرتبہ اور اسکی زیب و زینت راس آنے لگی اسی لیے وہ بے چوں چرا عبد اللہ بن سبا کے بات کے گرویدہ ہوگئے اور اس کے جال میں آگۓ حتی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے شیدائی کی جان لینے کی کوشش کرنے لگے ۔ اسی لیے ان بد بختوں نے دریا دل کے گھر کا محاصرہ اور انکے گھر کا پانی تک بھی بند کردیا جنھوں نے پورا کنواں انکے لیے وقف کردیا تھا۔ اس موقع پر صحابہ نے چاہا بلکہ اجازت بھی مانگی کہ وہ فتنہ پروروں سے لڑیں گے ۔ لیکن آپ نے فرمایا میں کسی کا خون نہیں بہانا چاہتا اور اجازت نہ دی۔ محاصرہ طول پکڑتا گیا۔28 روز تک کھانا پانی بند تھا، دروازہ پر حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنھما جیسے صحابیوں اور صحابی زادوں کا پہرہ تھا۔وہ فتنہ پرور بالآخر 18  ذی الحجہ بروز جمعہ 35 ھ کو گھر میں داخل ہوگۓ اور آپ روزے سے تھے تلاوت میں مشغول تھے اسی حالت میں آپ کو شہید کردیا گیا خون کے قطرات قرآن مجید پر گر پڑے۔ اللہ اکبر اللہ اکبر۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اس پر تمام مسلمان کو سوچنا چاہیے اور یہ بات ہمارے جوانوں کے دل سے نکل جانی چاہیے کہ ان باتوں کو جاننا صرف مولانا یا مدارس میں پڑھنے والے کیلے  ضروی ہے بلکہ یہ چیز تمام مسلمان کا لازمی جز ۔
یہاں پر قابل غور چیز یہ ہے کہ صدر اول میں ایک یہودی مسلمانوں کا بھڑکا کر اتنا دردناک کام لیا ہے آج پورے یہود و نصاری اسلام و مسلم کو مٹانے کیلۓ کھڑے ہوۓ ہیں۔ اے دوستو اگر ہم بیدار نہیں ہونگے اور یہود کی چال کو سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے بعید نہیں آنے والی ہماری نسل عبد اللہ ابن سبا بن جائے.