اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: قربانی اور اس کی قبولیت!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday, 3 September 2017

قربانی اور اس کی قبولیت!


محمد سالم قاسمی سریانوی، استاذ جامعہ عربیہ احیاءالعلوم مبارکپور اعظم گڑھ یوپی
salimmubarakpuri@gmail.com
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس وقت پوری دنیا میں "عید الاضحی" کا اسلامی تہوار جاری ہے، لاتعداد مسلمانوں نے اپنے رب کے حضور اپنے قیمتی جانوروں کی قربانی پیش کی ہے، اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان کی قربانیوں کو شرف قبولیت سے نوازے۔آمین
"قربانی"ایک بہت بڑی عبادت ہے جو اللہ تبارک وتعالی نے امت محمدیہ کو عطا فرمائی ہے، یہ قربانی در حقیقت حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کی قربانی کی یادگار ہے، جو انھوں نے اپنے رب کی خاطر کی تھی، اس قربانی کے فلسفہ میں اپنی ذات کو اللہ کے لیے فنا کرنے اور فدا کرنے کا جذبہ پنہاں ہوتا ہے، اور یہی درحقیقت اس سے مقصود ومطلوب ہے۔
مسلمان بالعموم قربانی کرنے کے بعد اس حوالے سے بے فکر ہوجاتے ہیں کہ ان کی قربانی قبول ہوئی کہ نہیں، جب کہ اعمال وافعال کی ادائیگی کے بعد سب سے زیادہ اسی کی فکر ہونی چاہیے کہ ہمارا کیا ہوا عمل اللہ کے یہاں قبول ہوا کہ نہیں؟ بل کہ عمل کرنے کے بعد اللہ سے دعا  مانگنی چاہیے ، اور اس تئیں قربانی سے پہلے اور بعد میں اپنے دل کو ٹٹولنا چاہیے ؛ تاکہ اخلاص کے ساتھ یہ عمل انجام پاسکے، کہیں ایسا نہ ہوکہ معمولی بے توجہی اور لاپرواہی سے قربانی جیسا عظیم عمل اکارت نہ جائے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہ جائیں۔
قرآن کریم نے "قربانی" کے تعلق سے ایک ضابطہ بیان کیا ہے( یہ ضابطہ صرف قربانی کے لیے نہیں ہے؛ بل کہ سارے ہی عمل کے لیے ہے، البتہ یہاں پر صراحۃ بیان قربانی ہی کا ہے) کہ اللہ کے یہاں قربانی کی  روح دل کا تقوی اور اخلاص ہے، نہ کہ ظاہری کوئی اور چیز! ارشاد ربانی ہے: "لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ" (سورہ حج آیت نمبر:37) ''کہ اللہ رب العزت کے یہاں تمہاری قربانیون کا نہ ہی گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی ان کا خون پہنچتا ہے؛ بل کہ اس کے یہاں تمہارے دل کا تقوی پہنچتا ہے۔" علامہ بغوی ؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "ولكن ترفع إليه منكم الأعمال الصالحة والتقوى، والإخلاص وما أريد به وجه الله"(تفسیر البغوي)  "کہ اللہ کے یہاں تمہارے نیک اعمال، تقوی، اخلاص اور وہی چیزیں پہنچتی ہیں جن سے مقصود اللہ کی رضا وخوش نودی ہوگی۔"
اس لیے قربانی کے موقع پر پہلے بھی اور بعد میں بھی اپنے دل کو ٹٹولتے رہنا چاہیے کہ اس عمل سے ہمارا مقصود کیا ہے؟ اللہ کی رضا ہے کہ نہیں؟ کہیں اور کوئی دنیاوی غرض تو اس میں  شامل نہیں ہے! قربانی جیسے عظیم عمل میں ہر موڑ پر ریاکاری اور نام ونمود کا خطرہ رہتا ہے،اور شیطان بھی ہمہ وقت اسی فکر میں لگا رہتا ہے کہ کسی طرح مسلمان کے اس عمل کو اکارت کیا جاسکے، اس لیے وہ نیت ورادے ہی پر حملہ کرتا ہے اور اس میں اخلاص وتقوی کے علاوہ دیگر چیزوں کی آمیزش کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اگر ہم نے اس طرف توجہ دی تو ان شاء اللہ ہماری قربانی اللہ کے حضور قبول ہوگی اور اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔ واللہ الموفق وھو المستعان