از: محمد امداد اللہ قاسمی مدرسہ اصلاح المومنین راگھونگر بہوارہ مدھوبنی (بہار)
اسلام دین رحمت ہے، اس کے ہر حکم میں تمام انسانیت کے لئے خیر ہی خیر اور اچھائی ہی اچھائی ہے، اسلام نے زندگی جینے کا جو نرالا انداز بتلایا ہے اس میں بڑی معنویت ہے، اسلام اپنی صالح اور پاکیزہ تعلیمات کی بدولت دنیا کے سارے مذاہب میں امتیازی مقام رکھتا ہے، معاشرتی زندگی کی پاکیزگی کے لئے اس نے وہ تمام احکامات دیئے ہیں جن سے معاشرے کے ہر انسان کا دل و دماغ پاکیزہ رہے اور ان تمام کاموں سے روکا ہے جس سے معاشرے میں گندگی پھیلے.
اس سلسلے میں اسلام کی ایک اہم تعلیم "حیا و شرم" ہے، جسے اس قدر اہمیت دی ہے کہ اسے جزء ایمان قرار دیا، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”الحیاء شعبة من الایمان“ (صحیح مسلم:۷۵) یعنی حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے ۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
”اذا لم تستحیی فافعل ما شئت“ (ابوداؤد:۴۷۹۷)یعنی اگر تم میں حیا نہیں تو جو جی میں آئے کرو۔
ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:" ہر دین کا ایک مخصوص شعار ہوتا ہے اور اسلام کا شعار ”حیا“ ہے"۔ سورة النور اور سورة الاحزاب میں اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو اپنی نظروں اور عزتوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیتا ہے، جب کہ مؤمن عورتوں کو صاف انداز میں ان کا ڈریس کوڈ (Dress Code) بتایاگیا ہے اور کس حلیہ میں ان کو اپنے گھروں سے باہر نکلنا چاہئے۔ سورة الاحزاب میں بے پردگی کو جاہلیت کے اس زمانہ سے جوڑا گیا ہے جب عورتیں بناؤ سنگھار کرکے باہر نکلتی تھیں۔
دوسری طرف قرآن کریم میں جابجا ”فحاشی“ کی مذمت اور اسے شیطان کا عمل قراردیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
”ان الله یأمرکم بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربی وینہی عن الفحشاء والمنکر والبغی…“ (النحل:۹۰)
ترجمہ:”اللہ تعالی تمہیں انصاف کرنے کااوربھلائی کرنے کا اورقرابت داروں کے ساتھ مالی اعانت کا حکم دیتے ہیں اور بے حیائی سے،نامعقول کام سےاور سرکشی سے منع کرتے ہیں۔“
دوسری جگہ ارشاد باری ہے:
”الشیطٰن یعدکم الفقر ویأمرکم بالفحشاء“ ۔ (البقرہ:۲۶۸)
ترجمہ:…”شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے“۔
ایک اور جگہ ارشاد باری ہے:
”ومن یتبع خطوات الشیطان فانہ یأمر بالفحشاء والمنکر“۔ (النور:۲۱)
ترجمہ:…”جو شخص شیطان کے پیچھے چلے تو شیطان تو ہمیشہ بے حیائی اور ناجائز کاموں کی تلقین کرے گا“۔
لفظ منکر کے تحت فحشاء کے داخل ہونے کے باوجود قرآن کریم کی مختلف آیات میں فحشاء کو الگ ذکر کرکے اور دوسری منہیات سے مقدم ذکر فرماکر لطیف اشارہ ہے کہ فحشاء اور بے حیائی بہت سے منکرات اور معصیتوں کا ذریعہ بنتی ہے، جب کسی معاشرے میں فحشاء کا رواج ہو وہاں بے غیرتی عام ہوجاتی ہے، دینی جذبہ اور ایمانی حمیت ماند پڑ جاتی ہے، اسلامی وایمانی فکر وقوت کمزور ہوجاتی ہے اور کئی گناہوں اور معصتیوں کی شناعت و قباحت دل سے اٹھ جاتی ہے۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی جو علامات بتائی ہیں، ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ بہت سے گناہوں اور برائیوں کا ارتکاب مہذب اور اچھے ناموں سے کریں گے، شراب نوشی کریں گے مگر نام بدل دیں گے، سود خوری کریں گے اور اس کو کچھ اور نام دے دیں گے۔ غور کیا جائے تو یہ برائی کی سب سے بدترین صورت ہوتی ہے، کیوں کہ ا سمیں بھلائی کے نام پر برائی، تہذیب کے نام پر بد تہذیبی اور آزادی کے نام پر نفس کی غلامی کی راہ ہموار کی جاتی ہے، اسلام جس وقت دنیا میں آیا اس وقت بھی تقریبا یہی صورت حال تھی،چھٹی صدی عیسوی کی جاہلیت سے بھی خطرناک جاہلیت ایک بار پھر جدید فیشن کے نام پر آگئی ہے۔ مغربی تہذیب نے آج یہی صورت اختیار کررکھی ہے، آج بہت سی مسلمہ اخلاقی برائیاں، تہذیب وثقافت کے نام سے رائج ہوگئی ہیں، جو لوگ اسے براجانتے ہوں، ان کو تہذیب جدید سے نا آشنا اور قدامت پسند کا لیبل دے دیا جاتا ہے۔ پوری قوت کے ساتھ اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ طوعاً یا کرہاً مغربی تہذیب تمدن کو پوری دنیا پر مسلط کر دیاجائے۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی ”فحاشی اور بے حیائی“ کا فتنہ ہے جو ”روشن خیالی اور جدید فیشن“ کے نام سے پروان چڑھایاجارہا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے فحاشی اور بے حیائی کا سیلاب جس تیزی سے ہمارے نوجوانوں میں پروان چڑھ رہا ہے؛ یہ ایک افسوس ناک اور خطرناک صورت حال ہے، جس کا سد باب ضروری ہے، ورنہ فحاشی اور بے حیائی کا یہ سیلاب ہمارے مسلم معاشرے کو بھی لے ڈوبے گا۔ کسی غیر اسلامی معاشرہ میں فحاشی اور بے حیائی کا ہونا کوئی نئی بات نہیں، مگر کسی اسلامی معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کا ابھرنا ایک لمحہ فکریہ ہے! جنسی اشتعال انگیزی پر مشتمل حیا باختہ عورتوں کی تصاویر اس قدر عام ہوگئی ہیں کہ گھریلو استعمال کی عام اشیاء کو بھی ان سے آلودہ کردیا گیا، اخبارات ورسائل کے سر ورق پر فلمی اور ماڈلنگ کی دنیا کی نیم عریاں تصویروں کا چھپنا ایک عام معمول ہے، جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی، وہ ٹی وی چینلوں پوری کردی، فحاشی اور بے حیائی پھیلانے والے برقی آلات" موبائل و انٹرنیٹ" گھر گھر عام کردیئے گئے ہیں، انٹرنیٹ اور موبائل کمپنیوں کی نت نئی اسکیمیں اس وبا کو عام کرنے میں" آگ میں پٹرول" کا کردار ادا کررہی ہیں، یہ مغربی قوتوں کا ایک خاص منصوبہ ہے جس کے تحت یہ سب کچھ بڑھایاجارہا ہے،اسلام دشمن قوتوں کا یہ سوچا سمجھا منصوبہ ہے کہ مسلم نوجوانوں کو تن پرستی کا رسیا اور بے حیائی کا اس قدر عادی بنادیا جائے کہ وہ اسلام اور اس کے کسی تعمیری خدمت کے لائق نہ رہ سکیں۔
اسلئے ہم میں سے ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ ہم دشمنان اسلام کی سازشوں کو سمجھیں،اپنے معاشرے اور اپنے زیر اثر نوجوان بچے،بچیوں کو بے حیائی کی وبا سے بچانے کے لئے صدائیں لگائیں، ان نالوں کا زیادہ نہ سہی مگر اثر ضرور پڑے گا،
ورنہ اگر ہم خواب غفلت میں مست رہے تو یہ حقیقت یاد رکھنی چاہئے کہ جس معاشرے میں برائی کے خلاف آواز اٹھانے والے نہ رہیں، قدرت کی طرف سے اس کی تباہی میں پھر زیادہ دیر نہیں لگتی۔
اللہ تعالی ہم سب کو تمام فحاشی و بے حیائی سے اور اس کے نتائج بد سے محفوظ فرمائے۔ آمیـــــن