اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تقاضے!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday, 17 October 2017

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تقاضے!


از قلم: مفتی محمد ثاقب قاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لئے انبیاء کرام اور رسولوں کو مبعوث فرمایا جو شرک و بدعت میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو صراطِ مستقیم سے ہمکنار کرتے، اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بندوں تک پہنچاتے، اس سلسلہ نبوت کی آخری کڑی خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ ہیں، آپﷺ ایک داعی، معلم، محسن و مربی بن کر آئے، جس طرح آپﷺ کے فضائل و مناقب سب سے اعلیٰ اور اولیٰ ہیں اسی طرح آپ ﷺ کی امت کو بھی اللہ رب العزت نے اپنے کلام پاک میں"امت وسط" کے لقب سے نوازہ ہے، اسلام نے اپنی دعوت و تبلیغ اور امت کے قیام و بقاء کے لئے اساس اولین ایک اصول کو قرار دیا ہے جو "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے، دعوت الی الخیر، برائی سے روکنا اس امت کا خاصہ اور دینی فریضہ ہے، جب ہر فرد اپنے حقیقی مشن"امر با لمعروف و نہی عن المنکر" کو پہچانتے ہوئے عملی جامہ پہنائے گا تو ایک پر امن، باہمی اخوت اور مودّدت کا مثالی معاشرہ تشکیل پائے گا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلامی قوانین میں سے دو اہم قانون ہیں، قرآن کریم نے اس فریضہ کے بارے میں کافی تاکید کی ہے، صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دوسرے ادیان آسمانی نے بھی اپنے تربیتی احکام کو جاری کرنے کے لئے ان کا سہارا لیا ہے، لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاریخ بہت پرانی ہے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انبیاء کی روش اور نیک کردار افراد کا شیوہ اور طریقۂ کار ہے.

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا معنی:
امر یعنی فرمان اور حکم دینا، نہی یعنی روکنا اور منع کرنا،
معروف یعنی پہچانا ہوا، نیک، اچھا، منکر یعنی ناپسند، ناروا اوربد.

اصطلاح میں معروف ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو اطاعت پروردگار اور اس سے تقرب اور لوگوں کے ساتھ نیکی کے عنوان سے پہچانی جائے، اور ہر وہ کام جسے اللہ سبحانہ وتعالی نے برا جانا ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے اسے منکر کہتے ہیں.

اس وقت دنیا میں مسلمان کس قدر بے راہ روی کا شکار ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، خود گناہوں کی طرف دعوت دے رہے ہیں، بہت سے مسلمان شیطان کے ایجنٹ بنے ہوئے ہیں، سودی کاروبار کو فروغ دیا جارہا ہے، کھیل کود کے ایسے آلات ایجاد کرلئے گئے جو سراسر اسلام کے خلاف اور اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے والے ہیں، جگہ جگہ سینما گھر، فلمی اڈے، جوئے کے اڈے، ہیروئن منشیات کے اڈے، شراب خانے، گلی، محلوں اور بازاروں میں ٹی وی، وی سی آر اور کیبل کے ذریعہ فحاشی پھیلانے کی کوششیں، اب نت نئے ڈیزائینوں کے کیمرہ والے موبائل، بڑے بڑے سائن بورڈوں میں خواتین کی ننگی تصویریں، شادی بیاہ ودیگر پروگراموں میں مرد وعورتوں کا مخلوط ماحول، اسی طرح کالج یونیورسٹیوں میں لڑکے اور لڑکیوں کا بے تحاشا اختلاط، اس جیسے سینکڑوں اعلانیہ گناہوں میں مسلمان معاشرہ مبتلا ہوگیا ہے، نیز خلاف شرع رسم ورواج کی پابندی، آپس میں ظلم وستم، چوری، ڈاکہ، جھوٹ، غیبت، بہتان باندھنا، الزام تراشی، خود غرضی، بداخلاقی، بدگمانی، بدزبانی، زناکاری، گانا سننا سنانا وغیرہ دیگر بہت ظاہری وباطنی گناہوں میں انفرادی واجتماعی طور پر ابتلائے عام ہے،
ہر مومن بندے کی دوطرح کی ذمہ داریاں بنتی ہیں:
امر باالمعروف کا فریضہ
(1) ایک توخود اعمال صالحہ کا ارتکاب کرے، اور دوسروں کو بھی نیک کام کے کرنے کا حکم دے، ہر قسم کے گناہوں سے اجتناب کرنے کی کوشش کرے، جہاں کہیں گناہ کا کام ہوجائے تو فوری طور پر توبہ استغفار کرے اور گناہوں سے پاک وصاف ہونے کی کوشش کرے،

نہی عن المنکر کا فریضہ
(2) اس کے ساتھ ہر مسلمان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ دوسرے مسلمان کو گناہوں سے روکنے کی کوشش کرے.

یہ کام انفرادی واجتماعی دونوں طرح انجام دیا جانا ضروری ہے،

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُون. (آل عمران :104)
ترجمہ: تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو نیکی کی طرف لوگوں کو بلائے اور ان کو بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے، وہی فلاح پانے والے ہیں.

دوسروں کو برے کاموں سے روکنے کے درجات میں ہر شخص پر اپنی استطاعت وقدرت کے مطابق یہ ذمہ داری ادا کرنا لازم ہے.

قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم: من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ، فان لم یستطع فبلسانہ، فان لم یستطع فبقلبہ، وذلک اضعف الایمان․(مسلم:177)

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص تم میں سے کسی منکر ناجائز کام کو اپنے سامنے ہوتا ہوا دیکھے تو چاہیے کہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل ڈالے (یعنی بزور طاقت برے کام کو روک دے) پس اگر اتنی طاقت نہ رکھے تو زبان سے منع کرے (کہ غلط اور گناہ کے کام ہیں، باز آجاؤ) اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو (بلکہ زبان سے روکنے میں فتنے کا بھی اندیشہ ہو تو پھر) اپنے دل سے (اس کو برا جانے) اور یہ کمزور ایمان ہے. یعنی ایمان کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ بری بات کو صرف دل سے برا جانتا رہے اور اگر دل سے بھی اس کو برا نہ سمجھا تو پھر ایمان کہاں رہا؟(مسلم شریف)

نہی عن المنکر نہ کرنے والے علماء کی مذمت
قال اللہ تبارک وتعالیٰ :﴿لَوْلاَ یَنْہَاہُمُ الرَّبَّانِیُّونَ وَالأَحْبَارُ عَن قَوْلِہِمُ الإِثْمَ وَأَکْلِہِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا کَانُواْ یَصْنَعُون﴾․(المائدة:63)

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ان کو مشائخ اور علماء گناہوں کی بابت کہنے سے (یعنی جھوٹ بولنے سے) اور حرام مال کھانے سے کیوں منع نہیں کرتے، واقعی ان کی یہ عادت بری ہے کہ اپنا فرض منصبی امربالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ بیٹھے، قوم کو ہلاکت کی طرف جاتا ہوا دیکھتے ہیں اور ان کو نہیں روکتے، اس آیت کے آخری جملہ بہت ہی قابل غور ہے "لبئس ما کانو ا یصنعون".

ان علماء ومشائخ کا برائیوں سے نہ روکنا بہت بری حرکت ہے، ان بدکاروں کے اعمال بد سے بھی زیادہ سخت گناہ ہے.

مفسر قرآن شیخ عماد الدین ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اس آیت کا حاصل یہ ہوا کہ جس قوم کے لوگ جرائم اور گناہوں میں مبتلا ہوں گے اور ان کے علماء اور مشائخ کو یہ بھی اندازہ ہو کہ ہم روکیں گے تو یہ باز آجائیں گے، ایسے حالات میں اگر کسی لالچ یا خوف کی وجہ سے ان جرائم اور گناہوں سے نہیں روکتے تو ان کا جرم اصل مجرموں ،بدکاروں کے جرم سے بھی زیادہ سخت ہے.

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مشائخ اور علماء کے لئے پورے قرآن میں اس آیت سے زیادہ سخت تنبیہ کہیں نہیں ہے، اور امام تفسیر حضرت ضحاک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ برے علماء اور مشائخ کے لیے یہ آیت سب سے زیادہ خوف ناک ہے (تفسیر ابن کثیر وابن جریر)

اللہ سبحانہ وتعالی فرماتا ہے:
وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ يَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ وَيُقيمونَ الصَّلوٰةَ وَيُؤتونَ الزَّكوٰةَ وَيُطيعونَ اللَّـهَ وَرَسولَهُ أُولـٰئِكَ سَيَرحَمُهُمُ اللَّـهُ إِنَّ اللَّـهَ عَزيزٌ حَكيمٌ ﴿٧١﴾... (سورةالتوبة)

''مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق اور مددگار ہیں کہ نیک کام کرنے کی ہدایت کرتے ہیں اور برے کام کرنے سے روکتے ہیں، اور نمازیں پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے حال پر عنقریب اللہ رحم کرے گا.

معروف اور منکر صرف جزئی امور ہی میں محدود نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ بہت وسیع ہے معروف ہر اچھے اور پسندیدہ کام اور منکر ہر برے اور ناپسند کام کو شامل ہے،
دین اور عقل کی نظر میں بہت سے کام معروف اور پسندیدہ ہیں جیسے نماز اور دوسرے فروع دین، سچ بولنا، وعدہ کو وفا کرنا، صبر و استقامت، فقراء اور ناداروں کی مدد، عفو و درگزر، امید و رجاء ، راہ خدا میں انفاق، صلہ رحمی، والدین کا احترام، سلام کرنا، حسن خلق اور اچھا برتاؤ، علم کو اہمیت دینا، پڑ وسیوں اور دوستوں کے حقوق کی رعایت، حجاب اسلامی کی رعایت، طہارت و پاکیزگی، ہر کام میں اعتدال اور میانہ روی اوردیگر سیکڑ وں نمونے،
اس کے مقابلہ میں بہت سے ایسے امور پائے جاتے ہیں جنہیں دین اور عقل نے منکر اور ناپسند شمار کیا ہے، جیسے ترک نماز، روزہ نا رکھنا، حسد، کینہ، بغض، کنجوسی، جھوٹ، تکبر، غرور، منافقت، عیب جوئی، افواہ پھیلانا، چغلخوری، ہوا پرستی، برا بھلا کہنا، جھگڑا کرنا، بد امنی پھیلنا، اندھی تقلید، یتیم کا مال کھا جانا، ظلم اور ظالم کی حمایت کرنا، مہنگا بیچنا، سود خوری ، رشوت لینا، انفرادی اور اجتماعی حقوق کو پامال کرنا وغیرہ وغیرہ.
ہم سب امر باالمعروف کو انجام دیں، اعمال صالحہ کا ارتکاب کریں، اعمال سیئہ سے اجتناب کریں اور نہی عن المنکر پر بھی مکمل طور پر عمل پیرا ہوں.