تحریر: عبدالغفار سلفی بنارس
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سورہ حج قرآن حکیم کی بائیس نمبر کی سورہ ہے، یہ سورہ کریمہ بہت سارے اسرار و عجائب پر مشتمل ہے، یہ قرآن کی وہ واحد سورہ ہے جس میں دو جگہ سجدہ تلاوت وارد ہے، اس سورہ کریمہ کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
سُورَةُ الْحَجِّ فِيهَا مَكِّيٌّ وَمَدَنِيٌّ، وَلَيْلِيٌّ وَنَهَارِيٌّ، وَسَفَرِيٌّ وَحَضَرِيٌّ، وَشِتَائِيٌّ وَصَيْفِيٌّ، وَتَضَمَّنَتْ مَنَازِلَ الْمَسِيرِ إلَى اللَّهِ بِحَيْثُ لَا يَكُونُ مَنْزِلَةٌ وَلَا قَاطِعٌ يَقْطَعُ عَنْهَا. وَيُوجَدُ فِيهَا ذِكْرُ الْقُلُوبِ الْأَرْبَعَةِ: الْأَعْمَى وَالْمَرِيضُ وَالْقَاسِي وَالْمُخْبِتُ الْحَيُّ الْمُطْمَئِنُّ إلَى اللَّهِ.
"سورہ حج کی کچھ آیات مکی ہیں، کچھ مدنی ہیں، کچھ رات میں نازل ہوئیں کچھ دن میں، کچھ سفر میں اتریں کچھ حضر میں، کچھ کا نزول سردیوں میں ہوا تو کچھ کا گرمیوں میں، یہ سورت ان راستوں کی نشاندہی کرتی ہے جو اللہ کی طرف لے کر جاتے ہیں اس طرح کہ پھر ان راہوں میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے. اس سورت میں چار قسم کے دلوں کا بھی ذکر ہے، اندھا دل، بیمار دل ، سخت دل اور وہ زندہ دل جو اللہ کی بارگاہ میں جھکنے والا اور سکون حاصل کرنے والا ہوتا ہے. "
(مجموع الفتاوی: 266/15)
آئیے ذرا دل کی ان چاروں قسموں کا جائزہ لیتے ہیں جن کا ذکر اس سورہ کریمہ میں اللہ تعالٰی نے کیا ہے
1- اندھا دل، اس کا ذکر اللہ تعالٰی نے اس آیت میں کیا ہے :
اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَتَکُوۡنَ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ یَّعۡقِلُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ اٰذَانٌ یَّسۡمَعُوۡنَ بِہَا ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ
ترجمہ: کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت نہیں کی جو ان کے دل ان باتوں کے سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان ( واقعات ) کو سن لیتے، بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں. (الحج:46)
انسان کی آنکھیں کام کرنا بند کر دیں تو وہ بصارت سے محروم ہوتا ہے لیکن جب دل قبول حق سے انحراف کرنے لگے، جب دل اللہ کی نشانیاں دیکھ کر بھی سوچنے سمجھنے کی طرف مائل نہ ہو، جب دل سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی صلاحیت سلب ہو جائے تو پھر یہ دل کے اندھے پن کی علامت ہے اور جب دل اندھا ہو جاتا ہے تو پھر انسان اس بصیرت سے محروم ہو جاتا ہے جو ایمان کا جزو لا ینفک ہوتی ہے. مذکورہ آیت میں اسی بصیرت سے محرومی کو دل کے اندھے پن سے تعبیر کیا گیا ہے.
2 اور 3- بیمار دل اور سخت دل، ان دونوں کا ذکر اللہ تعالٰی نے مذکورہ آیات میں کیا ہے :
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤی اَلۡقَی الشَّیۡطٰنُ فِیۡۤ اُمۡنِیَّتِہٖ ۚ فَیَنۡسَخُ اللّٰہُ مَا یُلۡقِی الشَّیۡطٰنُ ثُمَّ یُحۡکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ. لِّیَجۡعَلَ مَا یُلۡقِی الشَّیۡطٰنُ فِتۡنَۃً لِّلَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ وَّ الۡقَاسِیَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ لَفِیۡ شِقَاقٍۭ بَعِیۡدٍ.
ترجمہ: ہم نے آپ سے پہلے جس رسول اور نبی کو بھیجا اس کے ساتھ یہ ہوا کہ جب وہ اپنے دل میں کوئی آرزو کرنے لگا شیطان نے اس کی آرزو میں کچھ ملا دیا ، پس شیطان کی ملاوٹ کو اللہ تعالٰی دور کر دیتا ہے پھر اپنی باتیں پکی کر دیتا ہے اللہ تعالٰی دانا اور باحکمت ہے، یہ اس لیدر ے کہ شیطانی ملاوٹ کو اللہ تعالٰی ان لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ بنا دے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل سخت ہیں بیشک ظالم لوگ گہری مخالفت میں ہیں. (الحج:52،53)
دل کی یہ دونوں قسمیں (بیمار اور سخت) انتہائی خطرناک ہیں، بیمار دل وہ ہے جس پر شیطان بڑی آسانی سے اپنا تسلط قائم کر لیتا ہے، جو کفر و نفاق کی آماجگاہ ہوتا ہے، جسے اللہ کی اطاعت سے تکلیف ہوتی ہے اور اس کی معصیت میں لطف آتا ہے، بیمار دل والا انسان ایمان کی حلاوت اور اس کے نور سے محروم ہوتا ہے، سخت دل وہ ہے جو اللہ کی آیتیں سن کر بھی نہ پگھلے، جس میں پتھروں کی سی صلابت اور سختی پائی جائے، جس میں خوف الہی کا کوئی گذر نہ ہو.
4- اللہ کے آگے جھکنے والا دل، اس کا ذکر اللہ تعالٰی نے اس آیت میں کیا ہے :
وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا لِّیَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ؕ فَاِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗۤ اَسۡلِمُوۡا ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُخۡبِتِیۡنَ. الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ الصّٰبِرِیۡنَ عَلٰی مَاۤ اَصَابَہُمۡ وَ الۡمُقِیۡمِی الصَّلٰوۃِ ۙ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ.
ترجمہ: اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ اِن چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے!، انہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے ان کے دل تھرا جاتے ہیں، انہیں جو برائی پہنچے اس پر صبر کرتے ہیں ، نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ اس میں سے بھی دیتے رہتے ہیں ۔ (الحج:33،34)
ان آیات میں اللہ کے سامنے عاجزی کرنے والے اور اس کی بارگاہ میں جھکنے والے دل کا ذکر ہے، دل کی یہی وہ قسم ہے جو کامیاب لوگوں کے پاس ہوتی ہے، دل کی اسی قسم پر سعادت ابدی کی نوید سنائی گئی ہے. جس دل میں "اخبات" اور رجوع الی اللہ کی صفت پیدا ہو جائے وہ دل اللہ کی اطاعت کے کاموں میں لذت اور خوشی محسوس کرتا ہے، معصیت کے کاموں سے انقباض محسوس کرتا ہے، اللہ کا ذکر ہونے پر لرز اٹھتا ہے.
آئیے ہم اللہ سے دعا کریں کہ ہمارے دلوں کو بھی اپنی بارگاہ میں جھکنے اور عاجزی کرنے والا بنا دے، دل کی قساوت، اندھے پن اور بیماریوں سے ہماری حفاظت فرمائے. آمیــــن
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سورہ حج قرآن حکیم کی بائیس نمبر کی سورہ ہے، یہ سورہ کریمہ بہت سارے اسرار و عجائب پر مشتمل ہے، یہ قرآن کی وہ واحد سورہ ہے جس میں دو جگہ سجدہ تلاوت وارد ہے، اس سورہ کریمہ کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
سُورَةُ الْحَجِّ فِيهَا مَكِّيٌّ وَمَدَنِيٌّ، وَلَيْلِيٌّ وَنَهَارِيٌّ، وَسَفَرِيٌّ وَحَضَرِيٌّ، وَشِتَائِيٌّ وَصَيْفِيٌّ، وَتَضَمَّنَتْ مَنَازِلَ الْمَسِيرِ إلَى اللَّهِ بِحَيْثُ لَا يَكُونُ مَنْزِلَةٌ وَلَا قَاطِعٌ يَقْطَعُ عَنْهَا. وَيُوجَدُ فِيهَا ذِكْرُ الْقُلُوبِ الْأَرْبَعَةِ: الْأَعْمَى وَالْمَرِيضُ وَالْقَاسِي وَالْمُخْبِتُ الْحَيُّ الْمُطْمَئِنُّ إلَى اللَّهِ.
"سورہ حج کی کچھ آیات مکی ہیں، کچھ مدنی ہیں، کچھ رات میں نازل ہوئیں کچھ دن میں، کچھ سفر میں اتریں کچھ حضر میں، کچھ کا نزول سردیوں میں ہوا تو کچھ کا گرمیوں میں، یہ سورت ان راستوں کی نشاندہی کرتی ہے جو اللہ کی طرف لے کر جاتے ہیں اس طرح کہ پھر ان راہوں میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے. اس سورت میں چار قسم کے دلوں کا بھی ذکر ہے، اندھا دل، بیمار دل ، سخت دل اور وہ زندہ دل جو اللہ کی بارگاہ میں جھکنے والا اور سکون حاصل کرنے والا ہوتا ہے. "
(مجموع الفتاوی: 266/15)
آئیے ذرا دل کی ان چاروں قسموں کا جائزہ لیتے ہیں جن کا ذکر اس سورہ کریمہ میں اللہ تعالٰی نے کیا ہے
1- اندھا دل، اس کا ذکر اللہ تعالٰی نے اس آیت میں کیا ہے :
اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَتَکُوۡنَ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ یَّعۡقِلُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ اٰذَانٌ یَّسۡمَعُوۡنَ بِہَا ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ
ترجمہ: کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت نہیں کی جو ان کے دل ان باتوں کے سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان ( واقعات ) کو سن لیتے، بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں. (الحج:46)
انسان کی آنکھیں کام کرنا بند کر دیں تو وہ بصارت سے محروم ہوتا ہے لیکن جب دل قبول حق سے انحراف کرنے لگے، جب دل اللہ کی نشانیاں دیکھ کر بھی سوچنے سمجھنے کی طرف مائل نہ ہو، جب دل سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی صلاحیت سلب ہو جائے تو پھر یہ دل کے اندھے پن کی علامت ہے اور جب دل اندھا ہو جاتا ہے تو پھر انسان اس بصیرت سے محروم ہو جاتا ہے جو ایمان کا جزو لا ینفک ہوتی ہے. مذکورہ آیت میں اسی بصیرت سے محرومی کو دل کے اندھے پن سے تعبیر کیا گیا ہے.
2 اور 3- بیمار دل اور سخت دل، ان دونوں کا ذکر اللہ تعالٰی نے مذکورہ آیات میں کیا ہے :
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤی اَلۡقَی الشَّیۡطٰنُ فِیۡۤ اُمۡنِیَّتِہٖ ۚ فَیَنۡسَخُ اللّٰہُ مَا یُلۡقِی الشَّیۡطٰنُ ثُمَّ یُحۡکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ. لِّیَجۡعَلَ مَا یُلۡقِی الشَّیۡطٰنُ فِتۡنَۃً لِّلَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ وَّ الۡقَاسِیَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ لَفِیۡ شِقَاقٍۭ بَعِیۡدٍ.
ترجمہ: ہم نے آپ سے پہلے جس رسول اور نبی کو بھیجا اس کے ساتھ یہ ہوا کہ جب وہ اپنے دل میں کوئی آرزو کرنے لگا شیطان نے اس کی آرزو میں کچھ ملا دیا ، پس شیطان کی ملاوٹ کو اللہ تعالٰی دور کر دیتا ہے پھر اپنی باتیں پکی کر دیتا ہے اللہ تعالٰی دانا اور باحکمت ہے، یہ اس لیدر ے کہ شیطانی ملاوٹ کو اللہ تعالٰی ان لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ بنا دے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل سخت ہیں بیشک ظالم لوگ گہری مخالفت میں ہیں. (الحج:52،53)
دل کی یہ دونوں قسمیں (بیمار اور سخت) انتہائی خطرناک ہیں، بیمار دل وہ ہے جس پر شیطان بڑی آسانی سے اپنا تسلط قائم کر لیتا ہے، جو کفر و نفاق کی آماجگاہ ہوتا ہے، جسے اللہ کی اطاعت سے تکلیف ہوتی ہے اور اس کی معصیت میں لطف آتا ہے، بیمار دل والا انسان ایمان کی حلاوت اور اس کے نور سے محروم ہوتا ہے، سخت دل وہ ہے جو اللہ کی آیتیں سن کر بھی نہ پگھلے، جس میں پتھروں کی سی صلابت اور سختی پائی جائے، جس میں خوف الہی کا کوئی گذر نہ ہو.
4- اللہ کے آگے جھکنے والا دل، اس کا ذکر اللہ تعالٰی نے اس آیت میں کیا ہے :
وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا لِّیَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ؕ فَاِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗۤ اَسۡلِمُوۡا ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُخۡبِتِیۡنَ. الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ الصّٰبِرِیۡنَ عَلٰی مَاۤ اَصَابَہُمۡ وَ الۡمُقِیۡمِی الصَّلٰوۃِ ۙ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ.
ترجمہ: اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ اِن چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے!، انہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے ان کے دل تھرا جاتے ہیں، انہیں جو برائی پہنچے اس پر صبر کرتے ہیں ، نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ اس میں سے بھی دیتے رہتے ہیں ۔ (الحج:33،34)
ان آیات میں اللہ کے سامنے عاجزی کرنے والے اور اس کی بارگاہ میں جھکنے والے دل کا ذکر ہے، دل کی یہی وہ قسم ہے جو کامیاب لوگوں کے پاس ہوتی ہے، دل کی اسی قسم پر سعادت ابدی کی نوید سنائی گئی ہے. جس دل میں "اخبات" اور رجوع الی اللہ کی صفت پیدا ہو جائے وہ دل اللہ کی اطاعت کے کاموں میں لذت اور خوشی محسوس کرتا ہے، معصیت کے کاموں سے انقباض محسوس کرتا ہے، اللہ کا ذکر ہونے پر لرز اٹھتا ہے.
آئیے ہم اللہ سے دعا کریں کہ ہمارے دلوں کو بھی اپنی بارگاہ میں جھکنے اور عاجزی کرنے والا بنا دے، دل کی قساوت، اندھے پن اور بیماریوں سے ہماری حفاظت فرمائے. آمیــــن