مفتی شہزاد أحمد اعظمی قاسمی
متعلم: مركز إسلامی ايجوكيشن اينڈ ريسرچ سينٹر انكليشور گجرات
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج کل بعض کم سمجھ مُدَّعیانِ محبت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ذکر مبارک کو بھی آپ کی ولادت کے زمانہ کے ساتھ خاص کردیا ہے اور وہ بطور رسم کے ماہ ربیع الاول میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یوم ولادت منانے لگے ہیں جیسا کہ بعض مدعیانِ محبت ِحضرت حسین رضی اللہ عنہ نے یومِ حسین رضی اللہ عنہ منانے کے لیے ماہ محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو خاص کر رکھا ہے،
حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر مبارک ایسی بابرکت چیز ہے کہ اس کو ہر وقت مسلمانوں کے رگ و ریشہ میں سرایت کر جانا چاہیے تھا اور کوئی وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذکر مبارک سے خالی نہیں ہونا چاہیے تھا، پھر نہ صرف یہ کہ آپ کی ولادت شریفہ اور معراج شریف ہی کا ذکر قابلِ بیان ہے بلکہ آپ کی ہر بات یہاں تک کہ آپ کی نشست و برخاست، طعام و لباس، اخلاق و عبادات، مجاہدات و ریاضات، افعال و احکام اور اوامر و نواہی سب کا ہی تذکرہ کرنا مسلمان کے لیے نیکی اور باعث ِثواب ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا حتی کہ حوائجِ ضروریہ میں مشغول ہونا سب ہی عبادت ہے اور نماز روزہ وغیرہ احکامات کی تبلیغ و تعلیم کرنا بھی عبادت میں شامل ہے اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ان سب حالات کا بیان اور ذکر کرنا ذکرِ رسول میں داخل اور موجب برکت ہے ـ
حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مرادآبادی کا ارشاد ہے کہ ہم تو ہر وقت ذکرِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ و سلم کرتے ہیں کیونکہ لا إله إلا الله محمدُ رَّسول الله(صلی اللہ علیہ و سلم) پڑھتے رہتے ہیں، اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پیدا نہ ہوتے تو ہم یہ کیوں پڑھتے؟ تو کلمہ طیبہ پڑھنا بھی آپ صل اللہ علیہ و سلم کی ولادت با سعادت کا ذکر کرنا ہے غرضیکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر مبارک تو ہر آن ہی ہونا چاہیے اور آپ کی ہر ادا کا ذکر ہونا چاہیے، کیونکہ محِبّ کو محبوب کی ہر ادا پسند ہوتی ہے اور چونکہ احکامِ شرعی اور اوامر و نواہی بھی سب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطہ سے اور آپ کے ہی طفیل اُمّت کو عطا کیے گئے ہیں اس لیے احکام شرعیہ کا تذکرہ کرنا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ہی تذکرہ کرنا ہے صرف ولادتِ شریفہ ہی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا تذکرہ سمجھنا بہت بڑی غلَطی اور محبَّت کی حقیقت سے ناواقفیت کی دلیل ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت ہے تو سمجھنا چاہیے کہ ذکر ولادت جس طرح آپ کا ذکر ہے ایسا ہی احکامِ شرعیہ اور اوامر و نواہی کا ذکر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کا ذکر ہے ـ
اب دیکھنا چاہیے کہ ولادت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پر اظہارِ خوشی کے جو بھی طریقے آج کل رائج ہیں جس کو {عیدِ میلادالنبی} کہا جاتا ہے کیا یہ طریقہ اسی شرعی طریقے کے موافق ہے جس کی تعلیم ہم کو دی گئی ہے، اللہ تبارک و تعالٰی ہم سب کو تمام بدعات و خرافات سے بچائے اور فہم سلیم عطا فرمائے ـ آمیــــن
متعلم: مركز إسلامی ايجوكيشن اينڈ ريسرچ سينٹر انكليشور گجرات
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج کل بعض کم سمجھ مُدَّعیانِ محبت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ذکر مبارک کو بھی آپ کی ولادت کے زمانہ کے ساتھ خاص کردیا ہے اور وہ بطور رسم کے ماہ ربیع الاول میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یوم ولادت منانے لگے ہیں جیسا کہ بعض مدعیانِ محبت ِحضرت حسین رضی اللہ عنہ نے یومِ حسین رضی اللہ عنہ منانے کے لیے ماہ محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو خاص کر رکھا ہے،
حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر مبارک ایسی بابرکت چیز ہے کہ اس کو ہر وقت مسلمانوں کے رگ و ریشہ میں سرایت کر جانا چاہیے تھا اور کوئی وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذکر مبارک سے خالی نہیں ہونا چاہیے تھا، پھر نہ صرف یہ کہ آپ کی ولادت شریفہ اور معراج شریف ہی کا ذکر قابلِ بیان ہے بلکہ آپ کی ہر بات یہاں تک کہ آپ کی نشست و برخاست، طعام و لباس، اخلاق و عبادات، مجاہدات و ریاضات، افعال و احکام اور اوامر و نواہی سب کا ہی تذکرہ کرنا مسلمان کے لیے نیکی اور باعث ِثواب ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا حتی کہ حوائجِ ضروریہ میں مشغول ہونا سب ہی عبادت ہے اور نماز روزہ وغیرہ احکامات کی تبلیغ و تعلیم کرنا بھی عبادت میں شامل ہے اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ان سب حالات کا بیان اور ذکر کرنا ذکرِ رسول میں داخل اور موجب برکت ہے ـ
حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مرادآبادی کا ارشاد ہے کہ ہم تو ہر وقت ذکرِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ و سلم کرتے ہیں کیونکہ لا إله إلا الله محمدُ رَّسول الله(صلی اللہ علیہ و سلم) پڑھتے رہتے ہیں، اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پیدا نہ ہوتے تو ہم یہ کیوں پڑھتے؟ تو کلمہ طیبہ پڑھنا بھی آپ صل اللہ علیہ و سلم کی ولادت با سعادت کا ذکر کرنا ہے غرضیکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر مبارک تو ہر آن ہی ہونا چاہیے اور آپ کی ہر ادا کا ذکر ہونا چاہیے، کیونکہ محِبّ کو محبوب کی ہر ادا پسند ہوتی ہے اور چونکہ احکامِ شرعی اور اوامر و نواہی بھی سب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطہ سے اور آپ کے ہی طفیل اُمّت کو عطا کیے گئے ہیں اس لیے احکام شرعیہ کا تذکرہ کرنا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ہی تذکرہ کرنا ہے صرف ولادتِ شریفہ ہی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا تذکرہ سمجھنا بہت بڑی غلَطی اور محبَّت کی حقیقت سے ناواقفیت کی دلیل ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت ہے تو سمجھنا چاہیے کہ ذکر ولادت جس طرح آپ کا ذکر ہے ایسا ہی احکامِ شرعیہ اور اوامر و نواہی کا ذکر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کا ذکر ہے ـ
اب دیکھنا چاہیے کہ ولادت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پر اظہارِ خوشی کے جو بھی طریقے آج کل رائج ہیں جس کو {عیدِ میلادالنبی} کہا جاتا ہے کیا یہ طریقہ اسی شرعی طریقے کے موافق ہے جس کی تعلیم ہم کو دی گئی ہے، اللہ تبارک و تعالٰی ہم سب کو تمام بدعات و خرافات سے بچائے اور فہم سلیم عطا فرمائے ـ آمیــــن