تحریر: محمد یاسین قاسمی جہازی
Mob: 9871552408
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قرآنی شہادت کے مطابق اگر کوئی قوم اپنے ماضی کی تاریخی وراثت سے محروم ہوجاتی ہے، تو زندگی کے معمولی سے معمولی کام بھی اس کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن سا ہوجاتا ہے، پھر جب اس کے سامنے کوئی مثال اور نمونہ آجاتا ہے، تو اسے خود اپنی عقل و بصیرت پرحیرت بھی ہوتی ہے اور نادانی کا احساس بھی.
کلام پاک میں ہے کہ ’’آخر کار اس کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کرلیا، چنانچہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کرڈالا، اور نامرادوں میں شامل ہوگیا، پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے۔ ( یہ دیکھ کر) وہ بولا: ہائے افسوس! کیا میں اس کوے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا، اس طرح بعد میں وہ بڑا شرمندہ ہوا۔‘‘ (سورہ المائدہ، آیۃ از ۳۰ تا ۳۱)۔
یہ حضرت آدم علیہ الصلاۃ و التسلیم کے دو بیٹے ہابیل اور قابیل کا واقعہ ہے، شادی کے معاملے کو لے کر لڑائی ہوئی، تو قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا، چوں کہ روئے زمین پر یہ پہلا قتل تھا، لاش کو کیسے چھپایا جائے، یہ معلوم نہ تھا، تو اللہ تعالیٰ نے ایک کوے کو نمونہ بنایا اور قابیل کو لاش دفنانے کا طریقہ سکھلایا، جب اس نے دیکھا کہ یہ تو بالکل معمولی کام ہے، اور اتنا معمولی کام بھی مجھ سے نہیں ہورہا تھا، تو اسے اپنی بصیرت پر افسوس ہوا کہ اور شرمندگی کے ساتھ اپنی بے بسی کا اظہار بھی کیا۔
قرآن حکیم میں اس واقعہ کو بیان کیا گیا ہے، جس سے اس کی اہمیت عیاں ہوتی ہے، اس واقعے کو اس کے پس منظر سے ہٹ کر وسیع تناظر میں دیکھا جائے، تو قوموں کے عروج و زوال کی وجوہات کا پتہ لگانا مشکل نہیں رہ جائے گا، جس وقت یہ واقعہ پیش آیا تھا، اس وقت کوئی دوسرا نمونہ موجود نہیں تھا، لیکن واقعہ کے وقوع پذیر ہونے سے لے کر نزول قرآن تک، اور قرآن کے اسے بیان کرنے سے لے کر تاہنوز بے شمار قومیں عروج و زوال کی شکار ہوئی ہیں اور جن کی تاریخیں موجود ہیں، ان کا گہرائی فکر کے ساتھ مطالعہ کیجیے اور پھر ان کے اسباب تلاش کیجیے، تو یہ وجہ ضرور ملے گی کہ اس قوم نے اپنے اسلاف کی میراث کو گنوا دیا، اس لیے ثریا پر پہنچنے کے باوجود آسماں نے اسے زمین پر دے مارا، اور جب تک وہ اپنی تاریخ کی روشنی میں قدم آگے بڑھاتی رہی، عروج اس کا مقدر بن کر استقبال کرتا رہا، اسی فکر کی عکاسی علامہ اقبال نے اپنے الفاظ میں اس طرح کیا ہے کہ
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
آج ہماری زبوں حالی اور زوال پذیری کا یہی بنیادی سبب ہے۔ اور اس سے باہر نکلنے کا بھی بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ
دو جہاں کی کامیابی گر تجھے منظور ہے
اس کا دامن تھام لے، جس کا محمد نام ہے
Mob: 9871552408
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قرآنی شہادت کے مطابق اگر کوئی قوم اپنے ماضی کی تاریخی وراثت سے محروم ہوجاتی ہے، تو زندگی کے معمولی سے معمولی کام بھی اس کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن سا ہوجاتا ہے، پھر جب اس کے سامنے کوئی مثال اور نمونہ آجاتا ہے، تو اسے خود اپنی عقل و بصیرت پرحیرت بھی ہوتی ہے اور نادانی کا احساس بھی.
کلام پاک میں ہے کہ ’’آخر کار اس کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کرلیا، چنانچہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کرڈالا، اور نامرادوں میں شامل ہوگیا، پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے۔ ( یہ دیکھ کر) وہ بولا: ہائے افسوس! کیا میں اس کوے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا، اس طرح بعد میں وہ بڑا شرمندہ ہوا۔‘‘ (سورہ المائدہ، آیۃ از ۳۰ تا ۳۱)۔
یہ حضرت آدم علیہ الصلاۃ و التسلیم کے دو بیٹے ہابیل اور قابیل کا واقعہ ہے، شادی کے معاملے کو لے کر لڑائی ہوئی، تو قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا، چوں کہ روئے زمین پر یہ پہلا قتل تھا، لاش کو کیسے چھپایا جائے، یہ معلوم نہ تھا، تو اللہ تعالیٰ نے ایک کوے کو نمونہ بنایا اور قابیل کو لاش دفنانے کا طریقہ سکھلایا، جب اس نے دیکھا کہ یہ تو بالکل معمولی کام ہے، اور اتنا معمولی کام بھی مجھ سے نہیں ہورہا تھا، تو اسے اپنی بصیرت پر افسوس ہوا کہ اور شرمندگی کے ساتھ اپنی بے بسی کا اظہار بھی کیا۔
قرآن حکیم میں اس واقعہ کو بیان کیا گیا ہے، جس سے اس کی اہمیت عیاں ہوتی ہے، اس واقعے کو اس کے پس منظر سے ہٹ کر وسیع تناظر میں دیکھا جائے، تو قوموں کے عروج و زوال کی وجوہات کا پتہ لگانا مشکل نہیں رہ جائے گا، جس وقت یہ واقعہ پیش آیا تھا، اس وقت کوئی دوسرا نمونہ موجود نہیں تھا، لیکن واقعہ کے وقوع پذیر ہونے سے لے کر نزول قرآن تک، اور قرآن کے اسے بیان کرنے سے لے کر تاہنوز بے شمار قومیں عروج و زوال کی شکار ہوئی ہیں اور جن کی تاریخیں موجود ہیں، ان کا گہرائی فکر کے ساتھ مطالعہ کیجیے اور پھر ان کے اسباب تلاش کیجیے، تو یہ وجہ ضرور ملے گی کہ اس قوم نے اپنے اسلاف کی میراث کو گنوا دیا، اس لیے ثریا پر پہنچنے کے باوجود آسماں نے اسے زمین پر دے مارا، اور جب تک وہ اپنی تاریخ کی روشنی میں قدم آگے بڑھاتی رہی، عروج اس کا مقدر بن کر استقبال کرتا رہا، اسی فکر کی عکاسی علامہ اقبال نے اپنے الفاظ میں اس طرح کیا ہے کہ
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
آج ہماری زبوں حالی اور زوال پذیری کا یہی بنیادی سبب ہے۔ اور اس سے باہر نکلنے کا بھی بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ
دو جہاں کی کامیابی گر تجھے منظور ہے
اس کا دامن تھام لے، جس کا محمد نام ہے