اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ایک خدا رسیدہ بزرگ، ایک علمی شخصیت "حضرت مولانا سرور صاحب قاسمیؔ رحمہ اللہ علیہ"

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday, 11 January 2018

ایک خدا رسیدہ بزرگ، ایک علمی شخصیت "حضرت مولانا سرور صاحب قاسمیؔ رحمہ اللہ علیہ"

تحریر: شمش پرویز المظاھری (سابق استاد جامعہ فیض عام دیوگاوں اعظم گڑھ)
ــــــــــــــــــــــــــ
                 ضرورت جتنی بڑھ رہی ہے صبح روشن کی
                 اندھیرا  اور   گہرا   اور   گہرا  ہوتا جاتا ہے

یادیں انسانی زندگی کا حسین ترین سرمایہ ہیں، یہ یادیں تلخ بھی ہیں اور شیریں بھی، کھٹی بھی ہیں اور میٹھی بھی، ان یادوں کا تعلق سوز قلب سے بھی ہے اور سوز جگر سے بھی ۔میں جب یادوں کے نہاں خانہ میں جھانک کر دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو چند ایسے چہرے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سامنے ہوتے ہیں جنکی فکری جولانیوں ،علمی سرفرازیوں،اور ادبی بلند پروازیوں کی ایک حسین و خوبصورت تاریخ ہے۔
غالبا ۲۰۰۷ یا ۲۰۰۸ عیسوی کی بات ہے۔جب راقم الحروف اعظم گڑھ کے دینی وعصری امتزاج کی ایک خوبصورت دانشگاہ (جامعہ فیض عام دیوگاوں )میں تدریسی خدمات پر مامور تھا ۔ایک دن بعد نماز مغرب ناظم جامعہ ،استاد محترم حضرت مولانا حبیب الرحمن پروازؔ قاسمی صاحب کے ہمراہ مدرسہ ہی کے چار پہیئے کی گاڑی سے ایک نحیف و ضعیف،سن رسیدہ و کہنہ سال ،سانولا رنگ اور میانہ قد شخصیت جامعہ میں جلوہ افروز ہوئی ۔ ناظم جامعہ نے ان کا تعارف کچھ اس انداز میں کرایا :
یہ مولانا سرور صاحب قاسمیؔ ہیں ۔ازہر ہند دار العلوم دیوبند کے ابنائے قدیم میں سے ہیں۔
    بے پناہ صلاحیت اور علمی استعداد کے مالک ہیں ۔ایک طویل عرصہ تک(بھولے پور ۔امبیڈکر نگر )میں ناظم و ذمہ دار کی حیثیت سے رہ چکے ہیں ۔
    اب ان شاءاللہ جامعہ فیض عام میں ان کی تدریسی خدمات اور تعلیمی ذوق سے علمی و فکری بہار آئے گی ۔
فوری طور پر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ اہتمام و نظامت کو ترک کرکے تدریسی ذمہ داری کو قبول کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ذہن ناقص کا وسوسہ ہے کوئی یقینی فلسفہ نہیں کہ ذہن نے اسے رجوع من الاعلی الی الادنی تصور کیا ۔ذہن کی رسائی اسی حد تک تھی کہ اہتمام کے بعد انسان کی شخصیات میں علمی شور و غلغلہ کا کوئی مقام باقی نہیں رہ جاتا۔ بلکہ اگر انسان راہ ولایت کا شاہسوار ہو تو زندگی کے بقیہ ایام اپنی خانقاہ میں مریدین کی اصلاح اور واردین کے قلوب وافکار کے تطہیر و تزکیہ میں گزار دیتا ہے یا پھر مساجد کے کسی گوشے کو منتخب کرکے ذکر الہی اور فکر آخرت کے لئے خود کو یکسو کر لیتا ہے۔مگر مولانا سرور صاحب قاسمیؔ رحمہ اللہ علیہ کے علمی انہماک اور تدریسی شغف کو دیکھ کر دونوں قسم کے وساوس و خیالات کی           بالکلیہ نفی ہو گئی اور قلب کو استحضار ہوا کہ جس انسان کے دل میں اللہ تبارک و تعالی نے اپنے حبیب و محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات کی محبت ڈال رکھی ہو ۔جس کی جانب وراثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم منتقل ہوئی ہو اور وہ خود کو اسکا امین سمجھتا ہو اور جسے خلیفہ اللہ فی الارض اور نائب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا پورا استحضار ہو وہ زندگی میں آرام و سکون کا طالب کب ہو سکتا ہے؟اسے تو میدان عمل کا راہی اور رزم و بزم کا شہسوار بننا ہی زیادہ پسند ہوتا ہے ۔علم کے سمندر میں غواصی کئے بغیر تو اسکی حیثیت ایک مرغ بسمل اور ماہئ بے آب کی طرح ہوتی ہے ۔
اس ناکارہ نے خوب دیکھا اور اچھی طرح دیکھا کہ اپنے ضعف و پیرانہ سالی کے باوجود مولانا علیہ الرحمہ نہ کبھی مدرسہ کا ناغہ کرتے تھے اور نہ کبھی اسباق کا۔(شرم آتی ہے اعتراف کرتے ہوئے کہ اس معاملے میں ہم جیسوں کی جوانی اور طاقت و قوت ان کے بڑھاپے اور کمزوری کے سامنے بونی سی نظر آتی ہے)۔ پابندی ایسی اور چاق و چوبند  کہ ادھر گھنٹہ لگا اور ادھر درسگاہ میں موجود ۔اور بلا تاخیر درس کی ابتدا ۔۔پڑھاتے تھے اور خوب پڑھاتے تھے ۔ایسا محسوس ہوتا کہ علم کا ایک سمندر ہے جو اپنی گہرائی و گیرائی کو سمیٹے ہوئے روانی کے ساتھ بہتا چلا جا رہا ہے ۔جہاں نہ الفاظ کی اٹھکھیلیاں ہیں نہ انداز کی انگڑائیاں،نہ بادل کی گھن گرج ہے نہ بجلی کی چمک ، نہ دریاوں کا شور ہے نہ طوفانوں کا زور بلکہ ایک آبشار ہے جس کے سوتے سمندر کی گہرائیوں تک پہونچ رہے ہیں ۔ایک لے ہے جسکے الفاظ انتہائی شستہ اورانداز بے پناہ سادہ ہیں۔

گویا
             ــــــــــعـــــــ
 کروٹیں لی ہیں زمانے نے ہر گام قمر
اپنا پہلا سا ہی طرز بیاں ہے کہ جو تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ مولانا علیہ الرحمہ کو خالق عالم نے علم ،عمل،تقوی اور ورع کی ان خصوصیات کا حامل بنایا تھا جو ایک صاحب علم انسان کا امتیاز ہیں۔سادگی کا ایک ایسا پیکر جسے دیکھتے رہئے اور آنکھیں سیراب نہ ہوں ۔سادگی ان کی فطرت اور سادہ زندگی ان کے خمیر میں شامل تھی۔لباس سادہ،گفتگو سادہ،ظاہر سادہ ،باطن سادہ، نہ کر و فر کا شوق نہ ممتاز نظر آنے کا جنون ، استعداد ان کا قابل رشک ،علم ان کا مستحضر ،حافظہ قوی اور مختلف علوم و فنون پر ان کی گہری نظر تھی ۔ درس نظامی کی کون سی ایسی کتاب ہے جو ان کے زیر درس نہ رہی ہو (جامعہ فیض عام  دیوگاؤں ) میں شعبہ نسواں اور شعبہ عربی کی تقریبا تمام بڑی کتابیں آپ ہی سے متعلق تھیں
۔بخاری شریف جلد ثانی،ترمذی شریف جلد اول،مسلم شریف جلد ثانی،نسائی شریف نیز تفسیر و اصول تفسیر اور فقہ و اصول فقہ کی اکثر کتابیں شروع ہی سے پڑھاتے رہے تھے۔آپ جس فن کی بھی کتابیں پڑھاتے محسوس ہوتا کہ اسی فن میں آپ کو اختصاص کامل اور ید طولی حاصل ہے۔
   آپ جسمانی طور پر تو ضعیف تھے لیکن آپ کا عزم جوان تھا۔فولادی ارادہ کے مالک،کوہکن جیسی خصوصیت،اپنے کاموں میں انتہائی چاق و چوبند،امانت دار و دیانت دار،بے نفس و خوددار، نہ خود پرستی و خودبینی کی کوئی طمع اور نہ سستی شہرت کی کوئی حرص (کچھ لوگ ہوتے ہیں جو سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے دوسروں کی عزت و آبرو کی بھی پرواہ نہیں کرتے) اپنے سے چھوٹوں کے کاموں کو سراہنے کا جذبہ اور ان کے حوصلوں کو مہمیز لگانے کا سلیقہ قدرت نے فطری طور پر آپ کو ودیعت فرمایا تھا۔دوسروں کے کاموں میں کبھی آپ کو دخل انداز ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ہاں    البتہ مدرسہ میں جب کبھی اساتذہ کی میٹنگ ہوتی تو اس میں انتظامیہ کے سامنے اپنی رائے کو مثبت انداز میں مضبوط طریقہ پر بے جھجھک کہتے۔ مدرسہ کے جس شعبہ میں کوئی نقص پاتے برملا اسکا اظہار ناظم جامعہ سے کرتے۔راقم نے ناظم جامعہ کو ہمیشہ ان کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کا احترام کرتے ہوئے دیکھا ۔ان کی علمی منزلت اور پیرانہ سالی کی بنا پر انہیں عزت کے اس مقام پر بٹھاتے ہوئے پایا جسکے وہ حقدار تھے

(سچ ہے بڑوں کی بڑی باتیں )

مولانا سے راقم الحروف کا تعلق دوستانہ نہیں بلکہ خادمانہ اور عاجزانہ تھا۔تقریبا ۷ یا ۸ سال کا عرصہ میری اور مولانا کی رفاقت و معیت کا ہے ۔مجال ہے کبھی آپ کی شان میں حاضرانہ یا غائبانہ کوئی گستاخی کے کلمات زبان سے نکلے ہوں۔تحدیث نعمت کے طور پر عرض کرتا چلوں کہ جامعہ فیض عام کے ۱۳ سالہ تدریسی دور میں کسی بھی بڑے یا چھوٹے اور مدرسین یا ملازمین کے ساتھ احقر کی کسی قسم کی چپلقش یا رسہ کشی نہیں رہی۔والحمد للہ علی ھذہ النعمہ والمنہ۔
ہاں اس بات کا خوب احساس ہے کہ مولانا رحمہ اللہ علیہ ہم چھوٹوں کا بہت زیادہ لحاظ کرتے تھے اور شفقت و محبت کی پھوہاریں برسایا کرتے تھے ۔ اگر کبھی میں ان کو "شیخ"کہ دیتا تو فورا کہتے کہ میں تو تو پورے جامعہ میں صرف آپ کو شیخ مانتا اور سمجھتا ہوں۔جامعہ فیض عام سے میرے سبکدوش ہونے پر میرے جن چند مخلص احباب کو بے پناہ قلق ہوا ان میں مولانا علیہ الرحمہ بھی ایک تھے ۔ جسکا اظہار کبھی وہ موبائیل فون پر دوران گفتگو اور کبھی فیض عام پر میری حاضری کے موقع پر کیا کرتے تھے۔جب کبھی فیض عام پر حاضر ہوتا اور آپ کے کمرے میں داخل ہوتا فورا ہنستے ہوئے کھڑے ہو جاتے اور گلے سے لگا لیتے ۔اپنے برابر میں بٹھاتے چائے پانی کراتے ،حال احوال دریافت کرتے ،دعائیں دیتے اور نظام تعلیم پر گفتگو کفتے رہتے۔سچ تو یہ ہے کی مجھے ان کی ذات سے اسلئے بھی پے پناہ محبت تھی کہ وہ اس دانشکدہ علمی (جامعہ فیض عام )کے استاد تھے جس دانشکدہ کے ذرہ ذرہ کی محبت عشق کی حد تک اس ناچیز کے قلب میں پیوستہ ہے اور رہے گی انشاءاللہ ۔
جامعہ فیض عام کے عربی کے طلباء سے میں بارہا کہتا تھا کہ مولانا علیہ الرحمہ کی ذات جامعہ کے لئے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں اس نعمت عظمی سے تملوگ جسقدر بھی استفادہ کر سکتے ہو کر لو۔اور خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ جانے والے کا نعم البدل تو کیا بدل بھی ملنا اس قحط الرجال کے دور میں دشوار ہے ۔واقعہ یہی ہے کہ مولانا کی ذات جامعہ فیض عام کے لئے کسی نعمت کبری سے کم نہیں تھی ۔
آپ کی وفات حسرت آیات جامعہ کے لئے ایک سانحہ عظیمہ سے کم نہیں ہے ۔آپ کے ارتحال نے جامعہ میں ایسا خلا پیدا کر دیا ہےجسکی بھر پائی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
چونکہ آپ عمر کی اس منزل پر پہنچ چکے تھے جہاں سے بظاہر قبر کی کی دوری بہت مختصر رہ جاتی ہے لیکن پھر بھی آپ کا جانا سوہان روح سے کم نہیں ۔خوشی بس اس بات کی ہے کہ پیری و ضعیفی کے باوجود آپ نہ کسی پر بوجھ بنے اور نہ ہی اللہ نے آپ کو کسی کا محتاج بنایا۔بلکہ قال اللہ اور قال الرسول کرتا ہوا یہ دیوانہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور پروانہ رسول سرفروشانہ و مستانہ ،عشق نبوی میں غوطہ زن یہ کہتا ہوا راہی عدم وبقا ہو گیا کہ
          ـــــــــعــــــ
 بھلا سکے نہ زمانہ وہ یادگار ہوں میں
بہار عہد گزشتہ کا   رازدار   ہوں میں

( انا للہ وانا الیہ راجعون )

ناکارہ اسوقت خود تعزیت کا محتاج ہے دوسروں کی تعزیت کیا کرے اور کیونکر کرے ۔پھر بھی اس غم وآلام کی گھڑی میں مولانا علیہ الرحمہ کے اہل خانہ و پسماندگان ،ناظم جامعہ فیض عام واساتذہ و طلباء و طالبات کے ساتھ برابر کا شریک ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی حضرت والا کی مغفرت فرمائے اور ان کی مخلصانہ علمی خدمات کے صلہ میں انہیں اپنے شایان شان اجر عظیم عطا فرمائے ۔
جامعہ فیض عام کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور ہم سب کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔آمین یا رب العالمین