اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: نکاح کی شرعی حیثیت!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday, 23 January 2018

نکاح کی شرعی حیثیت!

تحریر: مفتی فہیم الدین رحمانی چیئرمین شیخ الھند ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ آف انڈیا
ــــــــــــــــــــــــــ
نکاح اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہےاور دین و دنیا کے کام اس سے درست ہوجاتے ہیں اور اس میں بہت سے فائدے اور بےانتہا مصلحتیں ہیں آدمی گناہ سے بچتا ہے دل ٹھکانے ہوجاتا ہے اور برے خیالات وتفکرات سے محفوظ ہوجاتا ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ فائدہ اور ثواب کاثواب کیوں کہ میاں بیوی کا پاس بیٹھ کر پیار و محبت کی باتیں کرنا دل لگی کرنا نفل نمازوں سے بہتر ہے،
مسند بزار کی ایک روایت ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا کہ عورتوں سے نکاح کرو وہ تمہارے لئے مال لائیں گی نکاح کی ایک حیثیت توایک باہمی معاملے اور معاہدے کی ہے جیسے بیع وشراء اور لین دین کےمعاملات ہوتے ہیں دوسری حیثیت سنت اور عبادت کی ہے اس پر تو تمام امت کا اتفاق ہے کہ نکاح عام معاملات ومعاھدات سے بالا ترایک حیثیت شرعی عبادت وسنت کی رکھتا ہے اسی لئے نکاح کے منعقد ہونے کے لئے باجماع امت کچھ ایسی شرائط ضروری ہیں جو عام معاملات بیع وشراء میں نہیں ہیں.
 (۱) اول تو یہ کہ ہر عورت اور ہرمرد سے سے نکاح نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں شریعت کا ایک مستقل نظام اور قانون ہے جس کے تحت بہت سی عورتوں اور مردوں کا آپس میں نکاح نہیں ہوسکتا ہے
 (۲) دوسرے تمام معاملات ومعاہدات کےمنعقد اور مکمّل ہونے کے لئے کوئی گواہی شرط نہیں اور گواہی کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب فریقین میں اختلاف ہوجائے لیکن نکاح ایسا معاملہ نہیں بلکہ یہاں منعقد ہونے کے لئے بھی گواہوں کا سامنے ہوناشرط ہے مثلاً اگر دومرد دوعورت بغیر گواہوں کے آپس میں نکاح کرلیں اور دونوں میں سے کوئی فریق کبھی بھی اختلاف وانکار نہ کرے اس وقت بھی شرعاً وہ نکاح باطل اور کالعدم ہے جب تک کہ گواہوں کے سامنے دونوں کا ایجاب وقبول نہ ہو اور سنت یہ ہے کہ نکاح اعلان عام کے ساتھ کیا جائے اس طرح کی اور بھی بہت سی شرائط وآداب ہیں جو معاملہ نکاح کے لئے ضروری یامسنون ہیں اور اسلامی تعلیمات کا اصل رخ یہ ہےکہ نکاح کا معاملہ اور معاہدہ عمر بھر کےلئے ہو اس کے توڑنے اور ختم کرنے کی کبھی نوبت ہی نہ آئے کیوں کہ اس معاملہ کے انقطاع کا اثر صرف فریقین پرنہیں پڑتا بلکہ نسل واولاد کی تباہی وبربادی اور بعض اوقات خاندانوں اور قبیلوں میں فساد کی نوبت پہنچتی ہے اور پورا معاشرہ بری طرح اس سے متاثر ہوتاہے اسی لئے جو اسباب و وجوہ اس معاملے کے توڑنے کا سبب بن سکتے ہیں تو قرآن وسنت کی تعلیمات نے ان تمام اسباب کو راہ سے ہٹانے کا پورا انتظام کیا ہے، زوجین کے ہر معاملے اور ہرحال کےلئے جو ہدایتیں قرآن و سنت میں مذکور ہیں ان سب کا حاصل یہی ہے کہ یہ رشتہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا جائے اور ٹوٹنے نہ پائے ناموافقت اور نبھاؤ نہ ہونے کی صورت میں اول افہام وتفہیم پھر زجر وتنبیہ کی ہدایتیں دی گئی ہیں اور اگر بات بڑھ جائے اور اس سے کام نہ چلے تو خاندان ہی کے چند لوگوں کو حکم اور ثالث بناکر معاملہ طے کر نےکی تعلیم دی جائے، جیسا کہ آیت ,, حکما من اھلہ وحکما من اھلہا ,, میں خاندان ہی کے افراد کو حکم اور ثالث بنانے کا ارشاد کس قدر حکیمانہ ہے کہ اگر معاملہ خاندان سے باہر گیا تو بات بڑھ جانے اور دلوں میں زیادہ بعد پیدا ہونے کا خطرہ ہے لیکن بعض اوقات ایسی بھی صورت پیش آتی ہیں کہ اصلاح حال کی تمام کوششیں نا کام ہوجاتی ہیں اور تعلق نکاح کے مطلوبہ ثمرات حاصل ہونے کے بجائے طرفین کا آپس میں مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے ایسی حالت میں اس ازدواجی تعلق ختم کر دینا ہی طرفین کیلئے راحت و سلامتی کی راہ ہوجاتی ہے.