تحریر: فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
ـــــــــــــــــــــــــــ
سچر کمیٹی کے رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے مدارس اسلامیہ میں 4%فیصد سے کم مسلمانوں کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں، جبکہ مسلمان بچوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم سے محروم ہے، تقریبا 40% مسلمان بچے اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا، اور جو مسلمان تعلیم یافتہ بھی ہیں وہ بھی ملازمت سے محروم ہیں، یہ بات سچ ہے کہ جب کسی جھوٹ کو عام کیا جائے اور جھوٹ بولنے والوں کی کثرت ہو، تو یقینا اس میں شک ہوجاتا ہے ایا یہ تو سچ تو نہیں اتنی بڑی تعداد تو جھوٹ بول نہیں سکتی، یہی حال موجودہ زمانہ کے مدارس اسلامیہ کے طلباء اور مدارس کے نصاب کے ساتھ معاملہ کیا جارہا ہے، ایک جھوٹ بولا گیا کہ مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران طلباء کی زندگیوں کو برباد کررہے ہیں، پھر اس جھوٹ کی تحقیق کئے بغیر زور و شور سے اس جھوٹ کو فروغ دیا جانے لگا، اغیار تو اغیار اپنے بھی شک میں پڑ گئے، کیا واقعی مدرسوں میں پڑھنے والوں کی زندگیاں تاریک ہے، انہیں جدید تعلیم نہیں دی جاتی، مدارس اسلامیہ کے طلباء کے روشن مستقبل کا جھوٹا نعرہ لگا کر کچھ فاسد اغراض تھے، جو پنھاں تھے، ان مخفی رازوں سے ہمارے مسلمان نادانی کے بناپر نہیں سمجھ پائے، اور ان کی راگ میں راگ ملاکر الاپنے لگے، کہ مدرسوں میں سائنس کمپیوٹر، اور جدید علوم فنون کی تعلیم دی جائے، ذرا ان نادان لوگوں سے جو مدارس کے نصاب کو بدلنے کی بات کرتے ہیں بڑے ادب سے ہم یہ پوچھتے ہیں، رات و دن آپ کو مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والے چار فیصد طلباء کی فکر ستاتی رہتی ہے، کیا کبھی آپ کو فکر ہوئی کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد گلیوں اور ہوٹلوں میں اور دوسری جگہوں میں ننھے منھے مسلم بچے کام کررہے ہیں، تعلیم سے کوسوں دور ہیں، کیا کبھی ان کی بھی فکر ہوئی، اغیار کے گمراہ کن مشوروں میں آکر کیا آپ مدرسوں کو اصلی شکل ہٹاکر اسکول میں تبدیل کرنا چاہتے ہو، مدارس کا قیام قرآن وحدیث میں مہارت پیدا کرنے والے افراد کوتیار کرنا ہے، ہمیں طلباء کو ہمہ تن گوش ہوکر قرآن وحدیث میں بصیرت حاصل کرنے کا موقع دو، کمپیوٹر اور انگلش اور سائنس کا لالیپاپ دکھا کر ہمارے مدارس کے طلباء میں قرآن وحدیث کی بصیرت کو ختم نہ کرو، مدارس اسلامیہ کے نصاب میں کسی قسم کی تبدیلی کی بالکل ضرورت نہیں، اولاً تو ان طلباء کو پوری توجہ کے ساتھ قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کرنے دو، کیونکہ دین کی تبلیغ کرسکے گا جب دین کے مہارت ہوگی،تبھی اسلام پر کئے جانے والے اعتراض کاجواب دینے پر قادر ہونگے، لیکن اگر ہم نے کمپیوٹر، سائنس اور جدید علوم بھی ساتھ ساتھ دلانے کی کوشش کرینگے، تو نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، ہمارے یہ طلباء نہ شریعت میں مہارت رکھ پائیں گے اور نہ ھی جدید علوم پر مہارت ہوگی، پہلے ان طلباء کو دینی علوم میں مہارت پیدا کرنے دو.
میں اس بات کا بالکل منکر نہیں کہ جدید علوم وفنون کی ضرورت نہیں یقینا ضرورت ہے، لیکن پہلے ان طلباء کو اپنی اصلی تعلیم میں ماہر ہونے دو، پھر اسلامی ماحول میں رہ کر اسلامی کالج کی ضرورت ہے، کیونکہ مدرسہ میں پڑھنے والے طلباء کا ذہن وسیع ہوجاتا ہے، جدید تعلیم کو سیکھنے اور سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے.
الحمدللہ کچھ لوگوں نے عقل مندی کا ثبوت دیا کہ مدرسہ کے فارغ ہونے والے حافظ طلباء کے لئے ڈاکٹری کی تیاری کراتے ہیں، الحمد للہ کچھ حافظ حال ہی میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوئے، مدارس کے طلباء میں صلاحیت پوشیدہ ہیں، بس اسے صحیح رخ دینے کی ضرورت ہے، وہ دن دور نہیں جب انہیں مدرسوں کے طلباء ڈی ایم اور ایس ڈی ایم بنیں گے، لیکن ضرورت اس بات کی ہے اس پوشیدہ صلاحیتوں کا صحیح استعمال کیا جائے، ایسے کالج کے قیام کی سخت ضرورت ہے جہاں مدارس کے طلباء بھی جدید تعلیم حاصل کریں، برائے کرم مدارس کو مدارس ہی رہنے دیں، سو فیصد مدارس اسلامیہ اپنے مشن میں کامیاب ہیں، اغیار کے زہریلے بول کو سمجھو، انہیں مدارس اسلامیہ کے طلباء کے روشن مستقبل کی بالکل فکر نہیں، وہ تمہارے مدارس کو اس کی اصلی شکل سے ہٹاکر کالج کی شکل دینا چاہتے ہیں، انہیں یہ نہیں پسند کہ دین کے ماہر علماء پیدا ہوں، اگر مسلم نوجوانوں کی فکر ہوتی تو مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو تعلیم سے دور ہے، ان کے لئے کوئی اہم کوشش کرتے، مدارس سے ایم بی بی ایس ڈاکٹر نکلنا تو الحمد للہ شروع ہوگئے، قوم اگر عقل مندی و دانش مندی کا ثبوت دے، اور پوشیدہ صلاحیتوں کو صحیح رخ کی طرف پھیرا جائے تو یہ شکوہ بھی مدارس سے دور ھوجائے گا کہ جدید تعلیم میں مدارس اسلامیہ کے طلباء ماہر نہیں، میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں عصری درسگاہوں کے طلباء اور مدارس کے طلباء کا اگر ذہنی موازنہ کیا جائے، تو مدارس کے طلباء فائق ہوں گے، اللہ سے یہی دعا ہے قوم مسلم کو صحیح سمجھ دے آمیـــــن.
ـــــــــــــــــــــــــــ
سچر کمیٹی کے رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے مدارس اسلامیہ میں 4%فیصد سے کم مسلمانوں کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں، جبکہ مسلمان بچوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم سے محروم ہے، تقریبا 40% مسلمان بچے اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا، اور جو مسلمان تعلیم یافتہ بھی ہیں وہ بھی ملازمت سے محروم ہیں، یہ بات سچ ہے کہ جب کسی جھوٹ کو عام کیا جائے اور جھوٹ بولنے والوں کی کثرت ہو، تو یقینا اس میں شک ہوجاتا ہے ایا یہ تو سچ تو نہیں اتنی بڑی تعداد تو جھوٹ بول نہیں سکتی، یہی حال موجودہ زمانہ کے مدارس اسلامیہ کے طلباء اور مدارس کے نصاب کے ساتھ معاملہ کیا جارہا ہے، ایک جھوٹ بولا گیا کہ مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران طلباء کی زندگیوں کو برباد کررہے ہیں، پھر اس جھوٹ کی تحقیق کئے بغیر زور و شور سے اس جھوٹ کو فروغ دیا جانے لگا، اغیار تو اغیار اپنے بھی شک میں پڑ گئے، کیا واقعی مدرسوں میں پڑھنے والوں کی زندگیاں تاریک ہے، انہیں جدید تعلیم نہیں دی جاتی، مدارس اسلامیہ کے طلباء کے روشن مستقبل کا جھوٹا نعرہ لگا کر کچھ فاسد اغراض تھے، جو پنھاں تھے، ان مخفی رازوں سے ہمارے مسلمان نادانی کے بناپر نہیں سمجھ پائے، اور ان کی راگ میں راگ ملاکر الاپنے لگے، کہ مدرسوں میں سائنس کمپیوٹر، اور جدید علوم فنون کی تعلیم دی جائے، ذرا ان نادان لوگوں سے جو مدارس کے نصاب کو بدلنے کی بات کرتے ہیں بڑے ادب سے ہم یہ پوچھتے ہیں، رات و دن آپ کو مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والے چار فیصد طلباء کی فکر ستاتی رہتی ہے، کیا کبھی آپ کو فکر ہوئی کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد گلیوں اور ہوٹلوں میں اور دوسری جگہوں میں ننھے منھے مسلم بچے کام کررہے ہیں، تعلیم سے کوسوں دور ہیں، کیا کبھی ان کی بھی فکر ہوئی، اغیار کے گمراہ کن مشوروں میں آکر کیا آپ مدرسوں کو اصلی شکل ہٹاکر اسکول میں تبدیل کرنا چاہتے ہو، مدارس کا قیام قرآن وحدیث میں مہارت پیدا کرنے والے افراد کوتیار کرنا ہے، ہمیں طلباء کو ہمہ تن گوش ہوکر قرآن وحدیث میں بصیرت حاصل کرنے کا موقع دو، کمپیوٹر اور انگلش اور سائنس کا لالیپاپ دکھا کر ہمارے مدارس کے طلباء میں قرآن وحدیث کی بصیرت کو ختم نہ کرو، مدارس اسلامیہ کے نصاب میں کسی قسم کی تبدیلی کی بالکل ضرورت نہیں، اولاً تو ان طلباء کو پوری توجہ کے ساتھ قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کرنے دو، کیونکہ دین کی تبلیغ کرسکے گا جب دین کے مہارت ہوگی،تبھی اسلام پر کئے جانے والے اعتراض کاجواب دینے پر قادر ہونگے، لیکن اگر ہم نے کمپیوٹر، سائنس اور جدید علوم بھی ساتھ ساتھ دلانے کی کوشش کرینگے، تو نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، ہمارے یہ طلباء نہ شریعت میں مہارت رکھ پائیں گے اور نہ ھی جدید علوم پر مہارت ہوگی، پہلے ان طلباء کو دینی علوم میں مہارت پیدا کرنے دو.
میں اس بات کا بالکل منکر نہیں کہ جدید علوم وفنون کی ضرورت نہیں یقینا ضرورت ہے، لیکن پہلے ان طلباء کو اپنی اصلی تعلیم میں ماہر ہونے دو، پھر اسلامی ماحول میں رہ کر اسلامی کالج کی ضرورت ہے، کیونکہ مدرسہ میں پڑھنے والے طلباء کا ذہن وسیع ہوجاتا ہے، جدید تعلیم کو سیکھنے اور سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے.
الحمدللہ کچھ لوگوں نے عقل مندی کا ثبوت دیا کہ مدرسہ کے فارغ ہونے والے حافظ طلباء کے لئے ڈاکٹری کی تیاری کراتے ہیں، الحمد للہ کچھ حافظ حال ہی میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوئے، مدارس کے طلباء میں صلاحیت پوشیدہ ہیں، بس اسے صحیح رخ دینے کی ضرورت ہے، وہ دن دور نہیں جب انہیں مدرسوں کے طلباء ڈی ایم اور ایس ڈی ایم بنیں گے، لیکن ضرورت اس بات کی ہے اس پوشیدہ صلاحیتوں کا صحیح استعمال کیا جائے، ایسے کالج کے قیام کی سخت ضرورت ہے جہاں مدارس کے طلباء بھی جدید تعلیم حاصل کریں، برائے کرم مدارس کو مدارس ہی رہنے دیں، سو فیصد مدارس اسلامیہ اپنے مشن میں کامیاب ہیں، اغیار کے زہریلے بول کو سمجھو، انہیں مدارس اسلامیہ کے طلباء کے روشن مستقبل کی بالکل فکر نہیں، وہ تمہارے مدارس کو اس کی اصلی شکل سے ہٹاکر کالج کی شکل دینا چاہتے ہیں، انہیں یہ نہیں پسند کہ دین کے ماہر علماء پیدا ہوں، اگر مسلم نوجوانوں کی فکر ہوتی تو مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو تعلیم سے دور ہے، ان کے لئے کوئی اہم کوشش کرتے، مدارس سے ایم بی بی ایس ڈاکٹر نکلنا تو الحمد للہ شروع ہوگئے، قوم اگر عقل مندی و دانش مندی کا ثبوت دے، اور پوشیدہ صلاحیتوں کو صحیح رخ کی طرف پھیرا جائے تو یہ شکوہ بھی مدارس سے دور ھوجائے گا کہ جدید تعلیم میں مدارس اسلامیہ کے طلباء ماہر نہیں، میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں عصری درسگاہوں کے طلباء اور مدارس کے طلباء کا اگر ذہنی موازنہ کیا جائے، تو مدارس کے طلباء فائق ہوں گے، اللہ سے یہی دعا ہے قوم مسلم کو صحیح سمجھ دے آمیـــــن.