سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 6/فروری 2018) حضرت اقدس مولانا شاہ مفتی محمد احمد اللہ صاحب پھولپوری دامت برکاتہم العالیہ ناظم اعلیٰ وشیخ الحدیث مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ کا 31جنوری تا 2فروری 2018ء بنگلور کے مختلف مقامات پر دینی و اصلاحی پروگرام ہوا،
اس کے بعد اہل کلکتہ کی پیہم محبت اور طلب کی وجہ سے سرزمین کلکتہ پر حاضری ہوئی، حضرت نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ انسان اپنے رب کا بڑا نا شکرہ ہے انسان گھوڑا پالتا ہے تو اس کا رخ جب جہاں چاہتا ہے موڑ دیتا ہے یہاں تک کہ میدان جہاد میں بھی لے جاتا ہےتو یہ جانور اس وقت اپنی جان اور موت کی فکر نہ کرکے دشمنوں کے بیچ داخل ہوجاتا ہے، کیوں کہ وہ اپنے مجازی رب کا فرمانبردار ہے، جبکہ اس کا حقیقی مالک بھی نہیں، تمام نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں، صرف اپنے مالک کے کھلانے پلانے کی وجہ سے اس کا مطیع ہوجاتاہے، اسی طرح کتا بھی اپنے مالک کی روٹی فراموش نہیں کرتا، ہر وقت مالک کی چوکھٹ پر حاضر ہوکر چوکیداری کرتا رہتا ہے، لیکن انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو اللہ کا ولی اور دوست ہوجاتا ہے اس کو نہ کوئی خوف رہتا ہے اور نہ ہی غم، لیکن آج ہم خود سیٹھ بنے بیٹھے ہیں بچہ اپنی ابا سے سامان مانگنے پر فخر محسوس کرتا ہے لیکن ہم کو اپنے ربا سے مانگنے میں شرم محسوس ہورہی ہے، اور اپنے رب کے سامنے سر جھکانے کی فرصت نہیں، اس کی مثال بچے کو کبھی یہ فکر نہیں ہوتی کہ سبزی کی کیا قیمت ہے اور چپل جوتا مانگنے میں جی ایس ٹی کا خیال نہیں آتا، بچہ اپنے بڑے سے رجوع کرتا ہے اور باپ بچے کی فرمائش پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، لیکن بڑا اپنے اپنے بڑے یعنی مالک حقیقی سے مانگنے کے بجائے تکبر کرتا ہے، اپنے رب سے معافی کی توفیق نہیں ہوتی، جبکہ آدم علیہ السلام نبی ہونے کے باوجود ایک چوک پر "ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا لنکونن من الخٰسرین" پڑھتے ہوئے بارگاہ ایزدی میں سر جھکا دیئے، اور رب کو خوش کرلئے، اور اپنی صفائی کی کوشش نہیں کی، تکبر کرنا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنا تو شیطانی صفت ہے، آج دنیا دار یہ سوچتا ہے کہ مولانا کو ضرورت ہوتو گھر آکر دین بتائیں اور سکھائیں، زکوۃ دینے میں یہ سوچتا ہے کہ ہماری آفس کے سامنے لوگ لائن لگائیں، یہ سب تو کبر کی کھلی کتاب ہے، اللہ سے ڈرو یہ چند روزہ زندگی ہے اس میں اپنے اعمال کے علاوہ کچھ بھی ساتھ جانے والے نہیں، یہاں تک بیوی و بچے اور گھر کے افراد بھی کنارہ کش ہوجائیں گے، جیسے دنیا میں زلزلہ آنے پر ہر ایک کو اپنی جان کی فکر لاحق ہوتی ہے، اس لئے ابھی وقت ہے اپنی زندگی کو مقصد حیات کے مطابق گزاریں، اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچیں، اللہ تعالی عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمیـــــن
اس کے بعد اہل کلکتہ کی پیہم محبت اور طلب کی وجہ سے سرزمین کلکتہ پر حاضری ہوئی، حضرت نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ انسان اپنے رب کا بڑا نا شکرہ ہے انسان گھوڑا پالتا ہے تو اس کا رخ جب جہاں چاہتا ہے موڑ دیتا ہے یہاں تک کہ میدان جہاد میں بھی لے جاتا ہےتو یہ جانور اس وقت اپنی جان اور موت کی فکر نہ کرکے دشمنوں کے بیچ داخل ہوجاتا ہے، کیوں کہ وہ اپنے مجازی رب کا فرمانبردار ہے، جبکہ اس کا حقیقی مالک بھی نہیں، تمام نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں، صرف اپنے مالک کے کھلانے پلانے کی وجہ سے اس کا مطیع ہوجاتاہے، اسی طرح کتا بھی اپنے مالک کی روٹی فراموش نہیں کرتا، ہر وقت مالک کی چوکھٹ پر حاضر ہوکر چوکیداری کرتا رہتا ہے، لیکن انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو اللہ کا ولی اور دوست ہوجاتا ہے اس کو نہ کوئی خوف رہتا ہے اور نہ ہی غم، لیکن آج ہم خود سیٹھ بنے بیٹھے ہیں بچہ اپنی ابا سے سامان مانگنے پر فخر محسوس کرتا ہے لیکن ہم کو اپنے ربا سے مانگنے میں شرم محسوس ہورہی ہے، اور اپنے رب کے سامنے سر جھکانے کی فرصت نہیں، اس کی مثال بچے کو کبھی یہ فکر نہیں ہوتی کہ سبزی کی کیا قیمت ہے اور چپل جوتا مانگنے میں جی ایس ٹی کا خیال نہیں آتا، بچہ اپنے بڑے سے رجوع کرتا ہے اور باپ بچے کی فرمائش پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، لیکن بڑا اپنے اپنے بڑے یعنی مالک حقیقی سے مانگنے کے بجائے تکبر کرتا ہے، اپنے رب سے معافی کی توفیق نہیں ہوتی، جبکہ آدم علیہ السلام نبی ہونے کے باوجود ایک چوک پر "ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا لنکونن من الخٰسرین" پڑھتے ہوئے بارگاہ ایزدی میں سر جھکا دیئے، اور رب کو خوش کرلئے، اور اپنی صفائی کی کوشش نہیں کی، تکبر کرنا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنا تو شیطانی صفت ہے، آج دنیا دار یہ سوچتا ہے کہ مولانا کو ضرورت ہوتو گھر آکر دین بتائیں اور سکھائیں، زکوۃ دینے میں یہ سوچتا ہے کہ ہماری آفس کے سامنے لوگ لائن لگائیں، یہ سب تو کبر کی کھلی کتاب ہے، اللہ سے ڈرو یہ چند روزہ زندگی ہے اس میں اپنے اعمال کے علاوہ کچھ بھی ساتھ جانے والے نہیں، یہاں تک بیوی و بچے اور گھر کے افراد بھی کنارہ کش ہوجائیں گے، جیسے دنیا میں زلزلہ آنے پر ہر ایک کو اپنی جان کی فکر لاحق ہوتی ہے، اس لئے ابھی وقت ہے اپنی زندگی کو مقصد حیات کے مطابق گزاریں، اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچیں، اللہ تعالی عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمیـــــن