تحریر: مفتی فخرالزماں ازہر قاسمی امام و خطیب شاہی جامع مسجد بہٹہ
ـــــــــــــــــــــ
موسمِ بہار کی آمد آمد ہے، گلدانوں میں پھول کھلے ہیں. پھولدار پودوں کی آغوش رنگا رنگ پھولوں سے بھری ہے. کھیت کھلیان کا تاحدِ نگاہ مسرور کن منظر ہے، درختوں پر نئے ملائم پتوں کا راج ہے، نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں، پنکھڑیوں کی بھینی بھینی خوشبو سے دل و دماغ، خلا فضاسب معطر ہے، تتلیوں کے غول منڈلاتے اپنے من پسند پھولوں سے دل بہلاتے ہیں، شہد کی مکھیوں کا من بھایا موسم ہے، اِدھر قدرت نے اپنے بندوں کے لئے کتنی ہی چیزوں کوخوشنما، خوبصورت، خوش دیدہ، جاذب ِنظر بناکر پیش کیا ہے، لیکن آج کی قوم نے تمام اقدار کو پس پشت ڈال کر "یوم محبت"کے نام سے ایک نئی بستی بسائی ہے. جہاں کے لوگ گلدانوں کو کھوکھلا کر نے کے فن کو لائقِ فخر سمجھتے ہیں، سرسبز شادابی کے بجائے خزاں سے خوش ہوتے ہیں. پھولوں کو کھلنے سے پہلے مرجھانے پر مجبور کردیا جاتا ہے، پنکھڑیوں کے نصیب میں مسلنا لکھا ہوتا ہے، جہاں تتلیوں کے غول کے پیچھے ہوس کے پجاریوں کا ریوڑ ہوتاہے. جس دن یہ ننگا ناچ ہوتاہے اور اقدار کے جنازے نکالے جاتے ہیں وہ خاص دن ہوتا ہے "14 فروری" کا اس کو کچھ منچلے"یومِ عشاق" بھی کہتے ہیں. گندی تہذیب کے پرستار اسے "ویلنٹائن ڈے" کا نام دیتے ہیں۔
ویلنٹائن کی حقیقت کے اظہار میں درجنوں بدبودار کہانیاں بیان کی جاتی ہیں، ان میں اکثر بے سر وپا کہانیاں ہیں جن کا حقیقت حال سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے. البتہ ان میں جو زبان زد خاص وعام ایک کہانی ہے جو سینٹ ویلنٹائن ایک عیسائی کے ارد گرد گھومتی ہے. وہی اس شرمناک کہانی کا ہیرو ہے. ہر سال 14 فروری کو اسی کے نام پر عاشقوں کا حیا سوز تہوار منایا جاتاہے۔
یہ یوم محبت سینٹ ویلنٹائن کی طرف منسوب کیوں ہے. اس کی وضاحت کرتے ہوئے عطاءاللہ صدیقی رقم طراز ہیں:
”اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے. چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع ہوتا ہے . اس لئے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا. راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں وہ سب کچھ کر گزرے. کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا (یعنی: قتل)جو عموماً ہوا کرتا ہے. بعد میں کچھ منچلوں نے ویلن ٹائن صاحب کو’شہید ِمحبت‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں دن منانا شروع کردیا۔“
یوں اس طرح ویلنٹائن ڈے کو یوم محبت اور سینٹ ویلنٹائن زانی کو شیہدِ محبت قرار دے کر نوجوان نسل کو یہ حیا سوز و غیر اخلاقی پیغام سجھایا گیا کہ آج کے دن محبت بانٹو گلِ محبت اور کارڈز تقسیم کرو. اور اس تقسیمِ محبت کے عمل کو اس قدر عام کرو کہ ہر حد پار کرجاؤ. حیا کے پردہ کو پاش پاش کردو. عصمت کو تار تار کردو۔
عجیب بات ہے اپنے علم و سوچ پر نازاں قوم کے بیٹوں کی کہ جس کام کی پاداش میں ان کو تختہء دار پر چڑھایا گیا اس کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے یومِ محبت کے عنوان سے اسی گھناﺅنے عمل کو دھرایا جاتاہے. اس کے فروغ دئیے جانےکے لئے ہر ممکن کوششیں کی جارہی ہیں. اس سے کنارہ کشی اختیار کرنے والوں پر سنگدلی کا لیبل چپکا دیاجاتاہے. ان کو کسی اور دنیا کی مخلوق ہونےکا طعنہ مارا جاتا ہے۔
دوسرا نام
اس تہوار میں آج تک اتنا کچھ گھناؤنا اور گھٹیا پن ہوچکا کہ اگر اس دن کو یومِ محبت کے بجائے "یومِ اوباشی" کے نام سے موسوم کیا جائے تو بھی اس دن رونما ہونے والی طوفان بد تمیزی کے اظہار و بیان کے لئے ناکافی ہوگا۔
اس تہوار کے پیشوا اور امام وہ اہل مغرب ہیں جن کے یہاں محبت و پیار کا مفہوم ہمارے دیار سے یکسر مختلف ہے. وہ جس کو پیار (Love) کہتے ہیں وہ در حقیقت عیاشی، زنا اور ناجائز طرز پر خواہشاتِ نفسانیہ کی تکمیل ہے، بوالہوسی (Lust) ہے. ان کے یہاں محبت مرد و زن کے آزادانہ اختلاط پر مبنی ہوتی ہے. تسکین کی خاطر باہمی رضامندی کے ذریعہ جنسی ہوسناکی کی تکمیل تہذیبی وتمدنی اہداف میں شامل ہے. ان مقتدا کے دیکھا دیکھی یہ جنسی باؤلاپن، بدبودار وبا ہمارے آج کے سپوتوں بالخصوص کالج و یونیورسٹی زدہ طبقہ میں درآئی ہے، بڑی تیزی اور طوفانی رفتار سے ہمارے معاشرے کا اٹوٹ حصہ بنتی جارہی ہے۔
حقیقت یہ ہے وہ معاشرہ ہمارا آئیڈیل نہیں ہوسکتا، وہ اتنی خوبیوں کا حامل نہیں ہے جس کو نمونے کی آخری صف میں بھی جگہ مل سکے، ترقی پذیر ممالک جن کی ظاہری تب وتاب سے ہم بے پناہ متأثر ہیں ان کے ہر رطب ویابس عمل کی نقل کرنا ہم واجبی فریضہ سمجھتے ہیں، اگر ان کے بود وباش، رہن سہن کوحقیقت کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو انگشت بدندائی و حیرت زدگی کے سوا کچھ نظر نہ آئےگا بلکہ کثرتِ حیرانگی سے دیوانہ پن طاری ہوجائے گا. وہاں کے معاشرے کی وضاحت کے طور پر اپنی ہی کتاب "ایڈز اور اسلام " سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں:
لاس اینجلس(Los Angeles) کے ڈاکٹرجرمن میسونیٹ(Dr. German Maisonet) امریکی معاشرے کی حالت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:
"اوسطاً ہر پانچ سیکنڈ میں ایک امریکی انتہائی خطرناک جنسی عمل میں مصروف ہوجاتا ہے۔"
اس کا اثر ہمارے ملکوں پر ہوتاہے. سرکاری اعدادوشمار کے مطابق:
"ہمارے ملک میں ہر 24 منٹ بعد ایک عصمت دری کا واقعہ رونما ہوجاتا ہے. اور ہر 40 منٹ بعد ایک نابالغہ کی عصمت پر کوئی درندہ حملہ آور ہوکر اپنی بھوک وپیاس کو پروان چڑھاتا ہے۔"
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں:
"16 سال سے کم عمر کی 20 لاکھ بیٹیاں ماں (mom) بن جاتی ہیں، جب کہ 18 سال سے کم عمرکی نابالغ 70 لاکھ لڑکیاں حاملہ ہوجاتی ہیں۔"
معروف سماجی راہنما پاول سٹیفن (Pual Stephen) نے اپنے ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے بہت ہی چونکا دینے والی عجیب بات کہی ہے، وہ کہتے ہیں:
"اگر یورپ صرف زنا سے بچ جائے تو اس کے تمام مسائل کومیں حل کردوں گا۔"
مگر مسلمان تو پرامن قوم کا نام ہے، لیکن آج بد امن قوم کیوں بنی ہوئی ہے? اس کا جواب بھی اسی مقولے میں پوشیدہ ہے۔
ایک امریکی جج(Bin Lindsey) اپنے ماحول کے حالات قلمبند کرتے ہوئے اپنی کتاب (Revolt of modern Youth) میں صفحہ 82 پر لکھتا ہے:
"اب امریکی بچے قبل از وقت بالغ ہونے لگے ہیں۔"
اس نے نمونے کے طورپر 312 لڑکیوں پر تحقیق کی جن میں 255 ایسی لڑکیاں تھی جو اپنی خاص عمر سے 4 اور بعض 3 سال قبل بالغ ہوچکی تھیں ۔
جج کا یہ بھی اندازہ ہے:
"اسکول کی کم ازکم 45 فی صد بچیاں اسکول چھوڑ نے پہلے ہی خراب ہوچکی ہوتی ہیں۔"
ڈاکٹر ایڈتھ ہوکر (Edith Hooker) اپنی کتاب (Law of Sex) میں حالات ہر روشنی ڈالتے ہوئے ایک جگہ لکھتی ہیں:
"انتہائی مہذب سمجھے جانے والے اور بااثر طبقوں کی بچیوں میں بھی یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے. ان کے یہاں 7و 8 برس کی لڑکیاں اپنے ہم عمر لڑکوں سے عشق ومحبت کے تعلقات رکھتی ہیں. اوروہ یکسر عمل مباشرت کی سرحدوں کو عبور کرلیتے ہیں۔"
وہ اپنی کتاب کے صفحہ 328 پر بطور نمونہ دو واقعات کا ذکر کرتی ہیں:
{1} "پانچ بچوں کا ایک گروپ جو دو لڑکیوں اور تین لڑکوں پر مشتمل تھا. انہوں نے باہم شہوانی تعلقات کی اپنے سے کم سن بچوں کو ترغیب دی. جو کہ کامیاب ہوئی . ان میں سب سے بڑے کی عمر صرف دس سال تھی۔"
{2} "ایک سات کی بچی جو ایک نہایت شریف خاندان کی چشم وچراغ تھی. وہ خود اپنے بڑے بھائی اور بھائی کے دیگر دوستوں کے ساتھ ملوث ہوئی ۔"
اسی کتاب کے صفحہ 177 پر ایک ڈاکٹر کی رپورٹ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
"ایک سال کے دوران اس شہر میں ایک ہزار سے زائد ایسے مقدمات پیش ہوئےہیں جن میں 12 برس سے کم عمر لڑکیوں کے ساتھ مباشرت کی گئی۔"
امریکی معاشرے میں پھنسے کتنے ہی باشندوں کے اندر جنسی بے راہ روی بری طرح سے رچ بس گئی ہے، اس سلسلے میں وہ اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اس کام انجام دہی میں سہولت کی غرض سے یونیورسٹی میں باقاعدہ منظم نظام موجود ہے. جیسے اس کی ایک مثال یہ ہے:
"نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی (Cilumbia University) میں. "خدمات صحت " کے ڈائریکٹر نے طلبہ و طالبات کی سہولت کے پیش نظر "خدمات صحت " کی عمارت کے اندر بنے بیت الخلا (Toilet) میں کنڈوم (Condom) کی فراہمی کا بہترین انتظام کیاہواہے. اور اس پر مستزاد 31 صفحات پر مشتمل ایک پمفلٹ (Pamphlet) بھی تقسیم کرایا. جس میں محفوظ جنسی عمل کے بارے میں درج معلومات کو اتنے صاف اور واشگاف الفاظ میں بیان کیا گیا تھا کہ پڑھنے والا اس کریہہ المنظر کو گویا سامنے عملاً (Practical) دیکھ رہاہے۔"
امریکا کے صدور کی تقریر!
یورپی عوام کی ہم جنسیت میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ اب ان کے یہاں سرکاری و عوامی سطح پر ہم جنسی تعلقات کوئی قابل اعتراض یا غیر اخلاقی جرم نہیں رہا. یورپ کی کتنی ہی پارلیامنٹ اور حکومتوں نے اسے قانونی تحفظ دیاہواہے. بل کلنٹن نے ایک مرتبہ وہائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے باہم جنسی بے راہ روی کومزید فروغ دینے کی تائید کی تھی. انہوں نے تقریر میں کہا تھا:
"میں امریکی معاشرے کے تمام تر گروہوں اور ہم جنس پرست خواتین و حضرات کے درمیان مساوات کے قیام کے لئے کی جانے والی جدو جہد کی بھر پور تائید کرتاہوں۔"
اسی طرح امریکا کے سابق صدر مسٹر!
"براک اوباما حسین " نے بھی انقلاب 2013-10-4میں شائع ہونے والے اپنے انٹریو میں ہم جنس پرستی کے حقوق کی اور حمل ساقط کرانے کو خواتین کا حق تسلیم کئے جا نے کی کھلم کھلا حمایت کی تھی.
یہ چند اقتباسات بطور نمونہ پیش کیےگئے ہیں ورنہ ہر ہر جرم کا امنڈتا سیلاب ہے. سفاکیت انارکی کی افزائش اور نہ جانے کتنے ہی بھیانک امراض کی پیداوار در اصل فطری قانون سے انحراف کا نتیجہ ہے، اللہ رب العزت نے بنی نوع انسانی کے لئے شادی کا نظام مقرر کیا، ور کتنی ہی ساری برائیوں سے محفوظ کرکے اطمنان و سکون کا سامان فراہم کیا تھا. مگر ہم انسان اپنی خواہشات کی اتباع کرتے ہوئے اس خدائی نظام عفت وعصمت کو پامال کرکے خودہی اپنے ہاتھوں سے تباہی کو جنم دیاہے. جیسا کہ احادیث میں جنسی تلذذ کے نقصانات بکثرت وارد ہوئے ہیں جیسے:
1} زانی زنا کی وجہ سے غضب خداوندی کو دعوت دیتاہے۔
2} اس کی عمر کم ہوجاتی ہے۔
3} بروز قیامت اللہ گفتگو نہیں فرمائیں گے۔
4} وہ آگ کے تنور میں ہوں گے ۔
5} زانی برابر مصیبتوں میں گھرا رہتا ہے۔
6} قتل کے اسباب میں سے ایک سبب زنا بھی ہے۔
7} فقروفاقہ میں مبتلا رہتا ہے۔
8} چہرے پر پژمردگی چھائی ہوئی رہتی ہے۔
9} اموات زیادہ واقع ہوتی ہیں
10} زنا کی وجہ سے عقل ماؤف ہوجاتی ہے۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نقصانات ہیں. میں نے ان کو ایک بار اکٹھاکیا تو دو درجن سے بھی زیادہ قلمبند کئےتھے.
ذرا سوچئے!
جب کسی "جرم" کو عوامی اور حکومتی سطح پر اتنی حمایت حاصل ہو. اس کے فروغ کے لئےمنصوبے اور قرار دادیں منظور کی جاتی ہوں تو اس کی قباحت، شنائت و دنائت دل میں کیسے جاں گزیں ہوسکتی ہے اور ہم ذہنیت، لسانیت، ثقافت اور خیالات وافکار کے اعتبار سے ان لوگوں کے غلام بنے ہیں. یہ بیچارے اتنے معصوم ہیں ان کو ہوس و محبت کے مابین فرق بھی معلوم نہیں ہے، یہ ہوسناکی کو محبت کانام دیتے نہیں تھکتے ۔
ویلنٹائن ڈے جس کو دنیا یوم محبت کہتی ہے.ایم منصور لکھتے ہیں:
وہ در حقیقت محبت جیسے پاکیزہ جذبے کی بدترین توہین ہے.
محبت میں خلوص وللہیت ہوتی ہے جب کہ ہوس میں مفادات کارفرما ہوتے ہیں.
محبت حمیت کا پیکر ہوتی ہے. جب کہ ہوس بے غیرتی کا مجسمہ۔
محبت کو بقا حاصل ہے اور ہوس کو فنا۔
محبت کو روز عروج ملتاہے جب کہ ہوس کا خیمہ زوال کی لکڑی پر قائم ہوتاہے۔
محبت میں وفا کو قوام ملتاہے اور ہوس میں جفاؤں کا بول بالا ۔
محبت کا مآل وانجام آبادی ہوتاہے جب کہ ہوس میں بربادی کے سوا کچھ نہیں۔
محبت کی بنیاد اعتماد وعزت پر قائم ہوتی ہے جب کہ ہوس میں ان چیزوں کا نام ونشان تک نہیں ہوتا۔
اتنے واضح فرق کے باوجود ہم ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں، خدارا ہوش کے ناخن لیجئیے فہم و فراست سے یوم محبت اور یوم اوباشی کے مابین واضح فرق سمجھ کر اپنے لئے فطری راہ کا انتخاب کیجئے.
ـــــــــــــــــــــ
ویلنٹائن کی حقیقت کے اظہار میں درجنوں بدبودار کہانیاں بیان کی جاتی ہیں، ان میں اکثر بے سر وپا کہانیاں ہیں جن کا حقیقت حال سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے. البتہ ان میں جو زبان زد خاص وعام ایک کہانی ہے جو سینٹ ویلنٹائن ایک عیسائی کے ارد گرد گھومتی ہے. وہی اس شرمناک کہانی کا ہیرو ہے. ہر سال 14 فروری کو اسی کے نام پر عاشقوں کا حیا سوز تہوار منایا جاتاہے۔
یہ یوم محبت سینٹ ویلنٹائن کی طرف منسوب کیوں ہے. اس کی وضاحت کرتے ہوئے عطاءاللہ صدیقی رقم طراز ہیں:
”اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے. چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع ہوتا ہے . اس لئے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا. راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں وہ سب کچھ کر گزرے. کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا (یعنی: قتل)جو عموماً ہوا کرتا ہے. بعد میں کچھ منچلوں نے ویلن ٹائن صاحب کو’شہید ِمحبت‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں دن منانا شروع کردیا۔“
یوں اس طرح ویلنٹائن ڈے کو یوم محبت اور سینٹ ویلنٹائن زانی کو شیہدِ محبت قرار دے کر نوجوان نسل کو یہ حیا سوز و غیر اخلاقی پیغام سجھایا گیا کہ آج کے دن محبت بانٹو گلِ محبت اور کارڈز تقسیم کرو. اور اس تقسیمِ محبت کے عمل کو اس قدر عام کرو کہ ہر حد پار کرجاؤ. حیا کے پردہ کو پاش پاش کردو. عصمت کو تار تار کردو۔
عجیب بات ہے اپنے علم و سوچ پر نازاں قوم کے بیٹوں کی کہ جس کام کی پاداش میں ان کو تختہء دار پر چڑھایا گیا اس کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے یومِ محبت کے عنوان سے اسی گھناﺅنے عمل کو دھرایا جاتاہے. اس کے فروغ دئیے جانےکے لئے ہر ممکن کوششیں کی جارہی ہیں. اس سے کنارہ کشی اختیار کرنے والوں پر سنگدلی کا لیبل چپکا دیاجاتاہے. ان کو کسی اور دنیا کی مخلوق ہونےکا طعنہ مارا جاتا ہے۔
دوسرا نام
اس تہوار میں آج تک اتنا کچھ گھناؤنا اور گھٹیا پن ہوچکا کہ اگر اس دن کو یومِ محبت کے بجائے "یومِ اوباشی" کے نام سے موسوم کیا جائے تو بھی اس دن رونما ہونے والی طوفان بد تمیزی کے اظہار و بیان کے لئے ناکافی ہوگا۔
اس تہوار کے پیشوا اور امام وہ اہل مغرب ہیں جن کے یہاں محبت و پیار کا مفہوم ہمارے دیار سے یکسر مختلف ہے. وہ جس کو پیار (Love) کہتے ہیں وہ در حقیقت عیاشی، زنا اور ناجائز طرز پر خواہشاتِ نفسانیہ کی تکمیل ہے، بوالہوسی (Lust) ہے. ان کے یہاں محبت مرد و زن کے آزادانہ اختلاط پر مبنی ہوتی ہے. تسکین کی خاطر باہمی رضامندی کے ذریعہ جنسی ہوسناکی کی تکمیل تہذیبی وتمدنی اہداف میں شامل ہے. ان مقتدا کے دیکھا دیکھی یہ جنسی باؤلاپن، بدبودار وبا ہمارے آج کے سپوتوں بالخصوص کالج و یونیورسٹی زدہ طبقہ میں درآئی ہے، بڑی تیزی اور طوفانی رفتار سے ہمارے معاشرے کا اٹوٹ حصہ بنتی جارہی ہے۔
حقیقت یہ ہے وہ معاشرہ ہمارا آئیڈیل نہیں ہوسکتا، وہ اتنی خوبیوں کا حامل نہیں ہے جس کو نمونے کی آخری صف میں بھی جگہ مل سکے، ترقی پذیر ممالک جن کی ظاہری تب وتاب سے ہم بے پناہ متأثر ہیں ان کے ہر رطب ویابس عمل کی نقل کرنا ہم واجبی فریضہ سمجھتے ہیں، اگر ان کے بود وباش، رہن سہن کوحقیقت کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو انگشت بدندائی و حیرت زدگی کے سوا کچھ نظر نہ آئےگا بلکہ کثرتِ حیرانگی سے دیوانہ پن طاری ہوجائے گا. وہاں کے معاشرے کی وضاحت کے طور پر اپنی ہی کتاب "ایڈز اور اسلام " سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں:
لاس اینجلس(Los Angeles) کے ڈاکٹرجرمن میسونیٹ(Dr. German Maisonet) امریکی معاشرے کی حالت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:
"اوسطاً ہر پانچ سیکنڈ میں ایک امریکی انتہائی خطرناک جنسی عمل میں مصروف ہوجاتا ہے۔"
اس کا اثر ہمارے ملکوں پر ہوتاہے. سرکاری اعدادوشمار کے مطابق:
"ہمارے ملک میں ہر 24 منٹ بعد ایک عصمت دری کا واقعہ رونما ہوجاتا ہے. اور ہر 40 منٹ بعد ایک نابالغہ کی عصمت پر کوئی درندہ حملہ آور ہوکر اپنی بھوک وپیاس کو پروان چڑھاتا ہے۔"
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں:
"16 سال سے کم عمر کی 20 لاکھ بیٹیاں ماں (mom) بن جاتی ہیں، جب کہ 18 سال سے کم عمرکی نابالغ 70 لاکھ لڑکیاں حاملہ ہوجاتی ہیں۔"
معروف سماجی راہنما پاول سٹیفن (Pual Stephen) نے اپنے ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے بہت ہی چونکا دینے والی عجیب بات کہی ہے، وہ کہتے ہیں:
"اگر یورپ صرف زنا سے بچ جائے تو اس کے تمام مسائل کومیں حل کردوں گا۔"
مگر مسلمان تو پرامن قوم کا نام ہے، لیکن آج بد امن قوم کیوں بنی ہوئی ہے? اس کا جواب بھی اسی مقولے میں پوشیدہ ہے۔
ایک امریکی جج(Bin Lindsey) اپنے ماحول کے حالات قلمبند کرتے ہوئے اپنی کتاب (Revolt of modern Youth) میں صفحہ 82 پر لکھتا ہے:
"اب امریکی بچے قبل از وقت بالغ ہونے لگے ہیں۔"
اس نے نمونے کے طورپر 312 لڑکیوں پر تحقیق کی جن میں 255 ایسی لڑکیاں تھی جو اپنی خاص عمر سے 4 اور بعض 3 سال قبل بالغ ہوچکی تھیں ۔
جج کا یہ بھی اندازہ ہے:
"اسکول کی کم ازکم 45 فی صد بچیاں اسکول چھوڑ نے پہلے ہی خراب ہوچکی ہوتی ہیں۔"
ڈاکٹر ایڈتھ ہوکر (Edith Hooker) اپنی کتاب (Law of Sex) میں حالات ہر روشنی ڈالتے ہوئے ایک جگہ لکھتی ہیں:
"انتہائی مہذب سمجھے جانے والے اور بااثر طبقوں کی بچیوں میں بھی یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے. ان کے یہاں 7و 8 برس کی لڑکیاں اپنے ہم عمر لڑکوں سے عشق ومحبت کے تعلقات رکھتی ہیں. اوروہ یکسر عمل مباشرت کی سرحدوں کو عبور کرلیتے ہیں۔"
وہ اپنی کتاب کے صفحہ 328 پر بطور نمونہ دو واقعات کا ذکر کرتی ہیں:
{1} "پانچ بچوں کا ایک گروپ جو دو لڑکیوں اور تین لڑکوں پر مشتمل تھا. انہوں نے باہم شہوانی تعلقات کی اپنے سے کم سن بچوں کو ترغیب دی. جو کہ کامیاب ہوئی . ان میں سب سے بڑے کی عمر صرف دس سال تھی۔"
{2} "ایک سات کی بچی جو ایک نہایت شریف خاندان کی چشم وچراغ تھی. وہ خود اپنے بڑے بھائی اور بھائی کے دیگر دوستوں کے ساتھ ملوث ہوئی ۔"
اسی کتاب کے صفحہ 177 پر ایک ڈاکٹر کی رپورٹ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
"ایک سال کے دوران اس شہر میں ایک ہزار سے زائد ایسے مقدمات پیش ہوئےہیں جن میں 12 برس سے کم عمر لڑکیوں کے ساتھ مباشرت کی گئی۔"
امریکی معاشرے میں پھنسے کتنے ہی باشندوں کے اندر جنسی بے راہ روی بری طرح سے رچ بس گئی ہے، اس سلسلے میں وہ اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اس کام انجام دہی میں سہولت کی غرض سے یونیورسٹی میں باقاعدہ منظم نظام موجود ہے. جیسے اس کی ایک مثال یہ ہے:
"نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی (Cilumbia University) میں. "خدمات صحت " کے ڈائریکٹر نے طلبہ و طالبات کی سہولت کے پیش نظر "خدمات صحت " کی عمارت کے اندر بنے بیت الخلا (Toilet) میں کنڈوم (Condom) کی فراہمی کا بہترین انتظام کیاہواہے. اور اس پر مستزاد 31 صفحات پر مشتمل ایک پمفلٹ (Pamphlet) بھی تقسیم کرایا. جس میں محفوظ جنسی عمل کے بارے میں درج معلومات کو اتنے صاف اور واشگاف الفاظ میں بیان کیا گیا تھا کہ پڑھنے والا اس کریہہ المنظر کو گویا سامنے عملاً (Practical) دیکھ رہاہے۔"
امریکا کے صدور کی تقریر!
یورپی عوام کی ہم جنسیت میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ اب ان کے یہاں سرکاری و عوامی سطح پر ہم جنسی تعلقات کوئی قابل اعتراض یا غیر اخلاقی جرم نہیں رہا. یورپ کی کتنی ہی پارلیامنٹ اور حکومتوں نے اسے قانونی تحفظ دیاہواہے. بل کلنٹن نے ایک مرتبہ وہائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے باہم جنسی بے راہ روی کومزید فروغ دینے کی تائید کی تھی. انہوں نے تقریر میں کہا تھا:
"میں امریکی معاشرے کے تمام تر گروہوں اور ہم جنس پرست خواتین و حضرات کے درمیان مساوات کے قیام کے لئے کی جانے والی جدو جہد کی بھر پور تائید کرتاہوں۔"
اسی طرح امریکا کے سابق صدر مسٹر!
"براک اوباما حسین " نے بھی انقلاب 2013-10-4میں شائع ہونے والے اپنے انٹریو میں ہم جنس پرستی کے حقوق کی اور حمل ساقط کرانے کو خواتین کا حق تسلیم کئے جا نے کی کھلم کھلا حمایت کی تھی.
یہ چند اقتباسات بطور نمونہ پیش کیےگئے ہیں ورنہ ہر ہر جرم کا امنڈتا سیلاب ہے. سفاکیت انارکی کی افزائش اور نہ جانے کتنے ہی بھیانک امراض کی پیداوار در اصل فطری قانون سے انحراف کا نتیجہ ہے، اللہ رب العزت نے بنی نوع انسانی کے لئے شادی کا نظام مقرر کیا، ور کتنی ہی ساری برائیوں سے محفوظ کرکے اطمنان و سکون کا سامان فراہم کیا تھا. مگر ہم انسان اپنی خواہشات کی اتباع کرتے ہوئے اس خدائی نظام عفت وعصمت کو پامال کرکے خودہی اپنے ہاتھوں سے تباہی کو جنم دیاہے. جیسا کہ احادیث میں جنسی تلذذ کے نقصانات بکثرت وارد ہوئے ہیں جیسے:
1} زانی زنا کی وجہ سے غضب خداوندی کو دعوت دیتاہے۔
2} اس کی عمر کم ہوجاتی ہے۔
3} بروز قیامت اللہ گفتگو نہیں فرمائیں گے۔
4} وہ آگ کے تنور میں ہوں گے ۔
5} زانی برابر مصیبتوں میں گھرا رہتا ہے۔
6} قتل کے اسباب میں سے ایک سبب زنا بھی ہے۔
7} فقروفاقہ میں مبتلا رہتا ہے۔
8} چہرے پر پژمردگی چھائی ہوئی رہتی ہے۔
9} اموات زیادہ واقع ہوتی ہیں
10} زنا کی وجہ سے عقل ماؤف ہوجاتی ہے۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نقصانات ہیں. میں نے ان کو ایک بار اکٹھاکیا تو دو درجن سے بھی زیادہ قلمبند کئےتھے.
ذرا سوچئے!
جب کسی "جرم" کو عوامی اور حکومتی سطح پر اتنی حمایت حاصل ہو. اس کے فروغ کے لئےمنصوبے اور قرار دادیں منظور کی جاتی ہوں تو اس کی قباحت، شنائت و دنائت دل میں کیسے جاں گزیں ہوسکتی ہے اور ہم ذہنیت، لسانیت، ثقافت اور خیالات وافکار کے اعتبار سے ان لوگوں کے غلام بنے ہیں. یہ بیچارے اتنے معصوم ہیں ان کو ہوس و محبت کے مابین فرق بھی معلوم نہیں ہے، یہ ہوسناکی کو محبت کانام دیتے نہیں تھکتے ۔
ویلنٹائن ڈے جس کو دنیا یوم محبت کہتی ہے.ایم منصور لکھتے ہیں:
وہ در حقیقت محبت جیسے پاکیزہ جذبے کی بدترین توہین ہے.
محبت میں خلوص وللہیت ہوتی ہے جب کہ ہوس میں مفادات کارفرما ہوتے ہیں.
محبت حمیت کا پیکر ہوتی ہے. جب کہ ہوس بے غیرتی کا مجسمہ۔
محبت کو بقا حاصل ہے اور ہوس کو فنا۔
محبت کو روز عروج ملتاہے جب کہ ہوس کا خیمہ زوال کی لکڑی پر قائم ہوتاہے۔
محبت میں وفا کو قوام ملتاہے اور ہوس میں جفاؤں کا بول بالا ۔
محبت کا مآل وانجام آبادی ہوتاہے جب کہ ہوس میں بربادی کے سوا کچھ نہیں۔
محبت کی بنیاد اعتماد وعزت پر قائم ہوتی ہے جب کہ ہوس میں ان چیزوں کا نام ونشان تک نہیں ہوتا۔
اتنے واضح فرق کے باوجود ہم ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں، خدارا ہوش کے ناخن لیجئیے فہم و فراست سے یوم محبت اور یوم اوباشی کے مابین واضح فرق سمجھ کر اپنے لئے فطری راہ کا انتخاب کیجئے.