منصف دوراں ہمیں ہر مسئلہ حل چاہیئے
فیصلہ جو نا مکمل تھا مکمل چاہیئے
تحریر: حافظ محمد سیف الاسلام مدنی کانپور
ـــــــــــــــــــــــــ
بابری مسجد کا قضیہ ایک لمبے زمانے سے ملک ہندوستان کے لئے چیلنج بنا ہوا ہے، مستند تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر سے صدیوں قبل ایودھیا میں مسلمان آباد تھے، اور یہاں کے ہندو مسلم آپسی اتحاد سے رہا کرتے تھے، لیکن بعد کے شرپسندوں نے اس جگہ پر اپنا قبضہ جمانا شروع کیا اور ملک کی ایک تنظیم نے اس جگہ پر جہاں بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی اس جگہ کو رام جنم بھومی کے نام سے منسوب کردیا، اور یہ معاملہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان متنازع ہوگیا، اور باقاعدہ طور پر حکومت وقت نے بابری مسجد پر تالا لگوا دیا اور یہ اعلان کرا دیا کہ مسلمان بابری مسجد کے دو سو میٹر تک قریب نہیں آسکتا، یہ ایک تاریخ کا سیاہ باب ہے کہ کس طرح سے 1992ء میں انتہا پسند ہندؤں کے ہاتھوں مسجد کو شہید/مسمار کر دیا گیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایل کے اڈوانی کی قیادت میں سخت گیر تنظیموں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک تحریک چلائی تھی، تحریک کے دوران 6 دسمبر 1992ء کو ہزاروں ہندو کار سیوکوں نے بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے اعلیٰ رہنماؤں اور نیم فوجی دستوں کے سیکڑوں مسلح جوانوں کی موجودگی میں تاریخی مسجد کو منہدم کر دیا تھا، جس کے بعد دہلی اور ممبئی سمیت ہندستان میں تقریباً دو ہزار مسلمانوں کو ہندو مسلم فسادات میں مار دیا گیا، بابری مسجد کے انہدام سے پہلے ہندو مظاہرے کے منتظمین نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ مسجد کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، اس مظاہرے میں ہندستان بھر سے تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی، بابری مسجد ہندؤں کے نظریہ کے مطابق رام کی جنم بھومی پر یا رام مندر پر تعمیر کی گئی، جب کہ مسلمان اس نظریہ کو مسترد کرتے ہیں۔
بابری مسجد کا تنازع اس وقت بھی مسلمانوں اور ہندؤں کے درمیان شدید نزاع کا باعث ہے، 2010ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے غیر منصفانہ فیصلہ دیا تھا اور بابری مسجد کی اکثر آراضی اغیار کے حوالے کردی تھی، اس فیصلہ کے بعد فوری طور پر مسلم دانشوروں نے اس فیصلے کو ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا اور یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے گلے کی ہڈی بن گیا قانونی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ مقدمہ صرف زمین کے تنازع کا ہے، عدالتیں ملکیت کے تعین کے لیے صرف ماضی کی دستاویزات اور مقامی محکمہ موصولات کے ریکارڈ دیکھتی ہیں، لیکن قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ عدالت عظمیٰ کی تاریخ کا سب سے مشکل فیصلہ ہو گا کیونکہ زمین کے اس تنازع کا تعلق صرف ملکیت سے نہیں مذہبی عقائد سے بھی ہے اور اس سے مذہبی قوم پرستی کے جذبات بھی وابستہ ہیں، مقدمہ کتنا پیچیدہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند مہینے قبل خود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ہندو اور مسلم رہنماؤں کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ اس تنازعے کو عدالت سے باہر مصالحت سے حل کرنا چاہتے ہیں تو وہ ثالثی کے لیے تیار ہیں لیکن ان کی پیشکش کو مسلمانوں نے قبول نہیں کیا، بار بار یہ کوشش کی گئی کہ یہ معاملہ ہندو، مسلمانوں کی آپسی گفت و شنید سے حل ہوجائے مگر ماضی میں اس طرح کی تمام تدابیر ناکام ہو گئی، ایک طرف بابری مسجد اور رام مندر کا قضیہ ہندوستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے لگا تو دوسری طرف قوم مسلم اپنے جائز حق کو ظالمانہ طریقہ پر صلب کر لئے جانے کی وجہ سے پانے کی کوشش کرنے لگے حالانکہ یہ بات عالم آشکارا ہے کہ بابری مسجد کی آراضی پر کبھی مندر نہیں رہا اور عدالتیں بھی اس بات کو اچھی طرح جانتی ہیں، ورنہ سپریم کورٹ کب کا وہاں مندر بنانے کا حکم دے چکا ہوتا.
اب ایک مرتبہ پھر مولانا سلمان ندوی اور شری شری روی شنکر نے اس معاملے کو عدالت سے باہر حل کرنے کی کوشش کی ہے جو میرے خیال سے بے معنی ہے.
مجھے تعجب ہے کہ جس طرح سے مولانا سلمان ندوی بابری مسجد کی آراضی سے دست برداری کے لئے آمادہ ہیں ایک ادنی مسلمان بھی اس بات کو گورا نہیں کرسکتا، میں ایک انچ زمین بھی کسی ایسی جگہ نہیں دے سکتا جہاں بتوں کی عبادت کی جائے چہ جائے کہ خانہ خدا بت پرستی کے لئے غیروں کو تحفے میں دے دیا جائے، مولانا نے مسجد کی منتقلی کے لئے فقہ حنبلی کا سہارا لیا ہے، اور یہ کہا ہے مجبوری کہ وقت فقہ حنبلی میں مساجد کو شفٹ کرنے اجازت ہے.
مگر میں مولانا سلمان ندوی سے سوال کرنا چاہتا ہوں، اور بہت سے لوگوں نے یہ سوال کیا ہے کہ کیا حنبلی مسلک میں مسجد کو شفٹ کرکے وہاں مندر اور بت خانہ بنانے کی بھی اجازت ہے؟ مولانا نے اسکا کوئی واضح جواب نہیں دیا اور باقاعدہ طور پر آل مسلم پرسنل لاء بورڈ کو نشانہ بنایا اور مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی کی شخصیت کو بھی نیشنل چینل پر متنازع بنانا چاہا اور ملت ٹائمز کی صداقت پر مبنی اور بے باک رپوٹ پر بھی الزامات عائد کئے.
وہاں جو مندر بنے گا وہاں مورتیاں رکھی جائیں گی اور شرک و بت پرستی کا بازار گرم کیا جائے گا، اور قوم مسلم اس بات کو کبھی گوارا نہیں کرسکتی کہ خانہ خدا میں بت خانہ بنایا جائے، اور وہاں بتوں کی عبادت کی جائے اس لئے بہتر ہوگا کہ مولانا سلمان ندوی قوم کا شیرازہ منتشر کرنے کے بجائے مسلم پرسنل لاء بورڈ ساتھ دیں اور اجتماعیت کو چیلنج کرکے اپنے انفرادی موقف پر بضد نہ ہوں، اسی میں قوم کی بھلائی ہے، اور سارا معاملہ عدالت پر چھوڑ دیا جائے، مقدمے کی سماعت سے عین پہلے سپریم کورٹ نے بھی اپنا موقف صاف اور واضح کردیا ہے، کہ عدالت آستھا اور عقیدت کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں دے گا بلکہ عدالت قدیم دستاویز اور دلائل کی روشنی میں آراضی کی ملکیت کا فیصلہ کرے گی کہیں نہ کہیں عدالت عظمیٰ کے اس بیان سے ان لوگوں کو ضرور کاری ضرب لگی ہوگی جو رام مندر کے معاملے میں آستھا اور عقیدتوں کا سہارا لیتے ہیں، سنبت پاترا نے ہر چینل پر ڈیبیٹ کے دوران کہا کہ "یہ ہماری آستھا کا اور رام سے عقیدتوں کا معاملہ ہے" اور مسلم دانشوروں نے ہمیشہ قدیم دستاویز اور تاریخی دلائل کو پیش کیا ہے اس لئے کہیں نہ کہیں فریق مخالف اس معاملے میں عدالت عظمیٰ میں کمزور نظر آرہا ہے، اس لئے بہتر ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کیا جائے مولانا سید ارشد مدنی کبھی اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کی بات مانیں گے اگر وہ جگہ بابری مسجد کی نہیں تھی تو ہم اس سلسلہ میں معذور ہیں اور اگر اس آراضی پر مسلمانوں کا حق ہے وہ شروع سے ہی بابری مسجد کی آراضی رہی ہے تو مسلمانوں انکا حق دیا جانا چاہیئے.
فیصلہ جو نا مکمل تھا مکمل چاہیئے
تحریر: حافظ محمد سیف الاسلام مدنی کانپور
ـــــــــــــــــــــــــ
بابری مسجد کا قضیہ ایک لمبے زمانے سے ملک ہندوستان کے لئے چیلنج بنا ہوا ہے، مستند تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر سے صدیوں قبل ایودھیا میں مسلمان آباد تھے، اور یہاں کے ہندو مسلم آپسی اتحاد سے رہا کرتے تھے، لیکن بعد کے شرپسندوں نے اس جگہ پر اپنا قبضہ جمانا شروع کیا اور ملک کی ایک تنظیم نے اس جگہ پر جہاں بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی اس جگہ کو رام جنم بھومی کے نام سے منسوب کردیا، اور یہ معاملہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان متنازع ہوگیا، اور باقاعدہ طور پر حکومت وقت نے بابری مسجد پر تالا لگوا دیا اور یہ اعلان کرا دیا کہ مسلمان بابری مسجد کے دو سو میٹر تک قریب نہیں آسکتا، یہ ایک تاریخ کا سیاہ باب ہے کہ کس طرح سے 1992ء میں انتہا پسند ہندؤں کے ہاتھوں مسجد کو شہید/مسمار کر دیا گیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایل کے اڈوانی کی قیادت میں سخت گیر تنظیموں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک تحریک چلائی تھی، تحریک کے دوران 6 دسمبر 1992ء کو ہزاروں ہندو کار سیوکوں نے بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے اعلیٰ رہنماؤں اور نیم فوجی دستوں کے سیکڑوں مسلح جوانوں کی موجودگی میں تاریخی مسجد کو منہدم کر دیا تھا، جس کے بعد دہلی اور ممبئی سمیت ہندستان میں تقریباً دو ہزار مسلمانوں کو ہندو مسلم فسادات میں مار دیا گیا، بابری مسجد کے انہدام سے پہلے ہندو مظاہرے کے منتظمین نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ مسجد کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، اس مظاہرے میں ہندستان بھر سے تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی، بابری مسجد ہندؤں کے نظریہ کے مطابق رام کی جنم بھومی پر یا رام مندر پر تعمیر کی گئی، جب کہ مسلمان اس نظریہ کو مسترد کرتے ہیں۔
بابری مسجد کا تنازع اس وقت بھی مسلمانوں اور ہندؤں کے درمیان شدید نزاع کا باعث ہے، 2010ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے غیر منصفانہ فیصلہ دیا تھا اور بابری مسجد کی اکثر آراضی اغیار کے حوالے کردی تھی، اس فیصلہ کے بعد فوری طور پر مسلم دانشوروں نے اس فیصلے کو ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا اور یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے گلے کی ہڈی بن گیا قانونی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ مقدمہ صرف زمین کے تنازع کا ہے، عدالتیں ملکیت کے تعین کے لیے صرف ماضی کی دستاویزات اور مقامی محکمہ موصولات کے ریکارڈ دیکھتی ہیں، لیکن قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ عدالت عظمیٰ کی تاریخ کا سب سے مشکل فیصلہ ہو گا کیونکہ زمین کے اس تنازع کا تعلق صرف ملکیت سے نہیں مذہبی عقائد سے بھی ہے اور اس سے مذہبی قوم پرستی کے جذبات بھی وابستہ ہیں، مقدمہ کتنا پیچیدہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند مہینے قبل خود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ہندو اور مسلم رہنماؤں کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ اس تنازعے کو عدالت سے باہر مصالحت سے حل کرنا چاہتے ہیں تو وہ ثالثی کے لیے تیار ہیں لیکن ان کی پیشکش کو مسلمانوں نے قبول نہیں کیا، بار بار یہ کوشش کی گئی کہ یہ معاملہ ہندو، مسلمانوں کی آپسی گفت و شنید سے حل ہوجائے مگر ماضی میں اس طرح کی تمام تدابیر ناکام ہو گئی، ایک طرف بابری مسجد اور رام مندر کا قضیہ ہندوستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے لگا تو دوسری طرف قوم مسلم اپنے جائز حق کو ظالمانہ طریقہ پر صلب کر لئے جانے کی وجہ سے پانے کی کوشش کرنے لگے حالانکہ یہ بات عالم آشکارا ہے کہ بابری مسجد کی آراضی پر کبھی مندر نہیں رہا اور عدالتیں بھی اس بات کو اچھی طرح جانتی ہیں، ورنہ سپریم کورٹ کب کا وہاں مندر بنانے کا حکم دے چکا ہوتا.
اب ایک مرتبہ پھر مولانا سلمان ندوی اور شری شری روی شنکر نے اس معاملے کو عدالت سے باہر حل کرنے کی کوشش کی ہے جو میرے خیال سے بے معنی ہے.
مجھے تعجب ہے کہ جس طرح سے مولانا سلمان ندوی بابری مسجد کی آراضی سے دست برداری کے لئے آمادہ ہیں ایک ادنی مسلمان بھی اس بات کو گورا نہیں کرسکتا، میں ایک انچ زمین بھی کسی ایسی جگہ نہیں دے سکتا جہاں بتوں کی عبادت کی جائے چہ جائے کہ خانہ خدا بت پرستی کے لئے غیروں کو تحفے میں دے دیا جائے، مولانا نے مسجد کی منتقلی کے لئے فقہ حنبلی کا سہارا لیا ہے، اور یہ کہا ہے مجبوری کہ وقت فقہ حنبلی میں مساجد کو شفٹ کرنے اجازت ہے.
مگر میں مولانا سلمان ندوی سے سوال کرنا چاہتا ہوں، اور بہت سے لوگوں نے یہ سوال کیا ہے کہ کیا حنبلی مسلک میں مسجد کو شفٹ کرکے وہاں مندر اور بت خانہ بنانے کی بھی اجازت ہے؟ مولانا نے اسکا کوئی واضح جواب نہیں دیا اور باقاعدہ طور پر آل مسلم پرسنل لاء بورڈ کو نشانہ بنایا اور مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی کی شخصیت کو بھی نیشنل چینل پر متنازع بنانا چاہا اور ملت ٹائمز کی صداقت پر مبنی اور بے باک رپوٹ پر بھی الزامات عائد کئے.
وہاں جو مندر بنے گا وہاں مورتیاں رکھی جائیں گی اور شرک و بت پرستی کا بازار گرم کیا جائے گا، اور قوم مسلم اس بات کو کبھی گوارا نہیں کرسکتی کہ خانہ خدا میں بت خانہ بنایا جائے، اور وہاں بتوں کی عبادت کی جائے اس لئے بہتر ہوگا کہ مولانا سلمان ندوی قوم کا شیرازہ منتشر کرنے کے بجائے مسلم پرسنل لاء بورڈ ساتھ دیں اور اجتماعیت کو چیلنج کرکے اپنے انفرادی موقف پر بضد نہ ہوں، اسی میں قوم کی بھلائی ہے، اور سارا معاملہ عدالت پر چھوڑ دیا جائے، مقدمے کی سماعت سے عین پہلے سپریم کورٹ نے بھی اپنا موقف صاف اور واضح کردیا ہے، کہ عدالت آستھا اور عقیدت کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں دے گا بلکہ عدالت قدیم دستاویز اور دلائل کی روشنی میں آراضی کی ملکیت کا فیصلہ کرے گی کہیں نہ کہیں عدالت عظمیٰ کے اس بیان سے ان لوگوں کو ضرور کاری ضرب لگی ہوگی جو رام مندر کے معاملے میں آستھا اور عقیدتوں کا سہارا لیتے ہیں، سنبت پاترا نے ہر چینل پر ڈیبیٹ کے دوران کہا کہ "یہ ہماری آستھا کا اور رام سے عقیدتوں کا معاملہ ہے" اور مسلم دانشوروں نے ہمیشہ قدیم دستاویز اور تاریخی دلائل کو پیش کیا ہے اس لئے کہیں نہ کہیں فریق مخالف اس معاملے میں عدالت عظمیٰ میں کمزور نظر آرہا ہے، اس لئے بہتر ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کیا جائے مولانا سید ارشد مدنی کبھی اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کی بات مانیں گے اگر وہ جگہ بابری مسجد کی نہیں تھی تو ہم اس سلسلہ میں معذور ہیں اور اگر اس آراضی پر مسلمانوں کا حق ہے وہ شروع سے ہی بابری مسجد کی آراضی رہی ہے تو مسلمانوں انکا حق دیا جانا چاہیئے.