اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: انسانیت کو آواز دو انسانیت کہاں ہے؟

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday, 4 April 2018

انسانیت کو آواز دو انسانیت کہاں ہے؟

فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
انسان اور حیوان کے درمیان امتیاز پیدا کرنے والی صفت انسانیت ہے، اگر انسان تو ہو  لیکن انسانیت سے عاری ہو، انسانوں کے دکھ درد کونہ سمجھے، درندگی پر آمادہ ہو، معصوموں پر شفقت ونرم دلی سے نہ پیش آئے، عورتوں پر ظلم وجبر وتشدد کا مظاہرہ کرے، تو ایسا شخص انسان ہونے کے باوجود درندوں کی صفوں میں کھڑا ہے، ان کا شمار انسانوں میں نہیں بلکہ درندوں میں ہوگا، ہر مذہب انسانیت کو فروغ دیتا ہے، ہر شخص کے دکھ درد میں شریک ہونے کی تعلیم دیتا ہے، لیکن افسوس آج دنیا سے انسانیت ختم ہوتی نظر آرہی ہے، ہر طرف جبر تشدد خون ریزی نا حق ظلم زیادتی، کمزوروں
ومسکینوں پر مصیبتوں کے پہاڑ تھوڑے جارہے ہیں، ایسا لگتا ہے مظلوموں بے کسوں بے سہارا لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، درندگی اپنے پورے شباب پر ہے، غریبوں پر ظلم وزیادتی تمام حدیں پار کرچکا ہے، اس دور جدید جسے ترقی یافتہ  زمانہ کہا جارہا ہے ایسے ایسے ظالم جو ظلم کی تمام حدوں کو پارکر جاتے ہیں، مظلوموں انسانوں پر تنہائی میں ظلم نہیں کرتے بلکہ اس دور جدید میں اپنے ظلم کی داستان کو پوری دنیا میں عام کرنے کے لئے انٹرنیٹ کا بھی سہارا لیتے ہیں، اور ویڈیو وائرل کرکے انسانیت کے جذبہ سے لبریز انسانوں کو یہ کہنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ کیا انسان بھی اس طرح سے درندگی کرسکتا ہے؟
 اس طرح ظلم وجبر کرنے پر کیا اسے ذرہ برابر ترس نہیں آیا؟
 جبکہ کچھ ہم جیسے کمزور دل انسان انسانیت سے خالی ظالموں کے ظلم وستم کی پوری ویڈیو دیکھنے پر قادر نہیں ہوپاتے، بلکہ درمیان ہی پر  اس ویڈیو کو روک کر اپنے دل سے سوال کرتے ہیں، کیا انسان اتنابڑا ظالم ہوگیا،
کیا اس ترقی یافتہ زمانے میں انسانیت ختم ہوگئی ہے؟ کیا انسان درندہ بن چکا ہے؟ انسانیت کو آواز دو انسانیت کہاں ہے؟
لمبی لمبی ڈگریاں حاصل کرنا، اونچے اونچے عہدہ حاصل کرلینا کسی کام کے نہیں، اگر تمہارے اندر انسانیت نہیں آئی، تعلیم کا مقصد اچھا انسان بنانا ہے، انسانیت کے جذبہ کو فروغ دینا ہے، درندگی یا ظالمانہ صفت وکردار سے انسان کو پاک صاف بنانا ہے،
 آئی سی ایس، پی سی ایس بننا، انجیئر بننا، ایم بی بی ایس ڈاکٹر بننے سے کوئی فائدہ نہیں اگر تمہارے اندر انسانیت نہیں، خدا کی قسم بڑی بڑی ڈگریاں ہونے کے باوجود تمہارا شمار درندوں میں ہوگا اگر تمہارے اندر انسانیت نہیں، انسانیت کا مطلب یہ ہے کہ مذہب، ذات پات اٹھ کر آدمیت کے رشتہ کی بنیاد پر ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنا، ان کے تکلیف کو سمجھنا، مصیبت کو اپنے بساط کے مطابق دور کرنے کی کوشش کرنا،
یہ انسانیت نہیں ہے کہ صرف اپنے مذہب کے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا، دوسرے مذہب کے لوگوں پر ظلم وجبر تشدد کرنا یہ سب غلط ہے.
اے انسانوں!
 تم سب آدم کی اولاد ہو، تمہارا مذہب کچھ بھی ہو، آپس میں میل محبت سے رہو، انسانیت کا جنازہ آخر کیوں نکل رہا ہے، حالانکہ کوئی بھی مذہب انسانی رشتوں کے حقوق کی ادائیگی میں رکاوٹ نہیں بنتا، ہر مذہب اپنے ماننے والوں کو انسانیت کی طرف آمادہ کرتا ہے، ظلم وجبر تشدد سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے، پھر آخر انسانیت کہاں ہے؟ انسانیت کو آواز دو انسانیت کہاں ہے؟
دور حاضر میں عصبیت نے بھی انسانیت کا گلا گھونٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، کچھ انسان صرف اس بات کی وجہ سے ظلم وستم کے پہاڑ توڑنے پر ہوتے ہیں، کہ اس کی کسی مجال کہ ہماری برادری کے آدمی پر انگلی اٹھایا، اب اس کا بدلہ لینے کے لئے پوری طاقت جھونک دیتا ہے، عصبیت کی آگ میں اس طرح جل جاتا ہے، عقل اس طرح ماوف ہوجاتی ہے، کہ اسے اس بات کی بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ پہلے یہ پتہ کرے کہ غلطی کس کی تھی؟ معاملہ کیا تھا، ہائے رے تم کو ذات برادری میں کس نے بانٹ دیا، ذات برادری پر فخر ابوجہل اور ابولہب کرتے تھے، اور اپنے قبیلہ کی آنکھ بند کرکے دفاع کرتے تھے، کیا آج کے انسان اور مسلمان کے اندر ابوجہل ابولہب کی یہ وصف مذموم سرایت کر چکی ہے، ایسے ہی کچھ لوگ مذہب کی بنیاد پر انسانیت کو شرمشار کرتے ہیں، انسانیت جسے سن کر شرمندہ ہوجائے دنیا میں روز بروز ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں، ایک دو دن پہلے ہمارے پڑوسی ملک میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے انسانیت شرمندہ ہے، درندگی کا اس قدر غلبہ ہوگیا ہے، درندہ صفت انسانوں نے معصوم بچوں کو نہیں بخشا،
 وہ معصوم بچے جن کے سینے میں خدا کی قسم دنیا کی سب سے مقدس کتاب قرآن پاک تھی، کس قدر محنت مشقت، کرکے ان معصوموں نے اپنے رب کے کلام کو یاد کیا ہوگا، قرآن کو سینے میں بسا لینا کوئی آسان کام نہیں، قرآن کریم سینے میں کس قدر قربانیوں کے بعد یاد ہوتا ہے، یہ تو ایک حافظ قرآن ہی جانتا ہے، قرآن تو ہم مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی دولت ہے، ماں باپ کو اپنی اولاد سے کس قدر محبت ہوتی ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں، یہ والدین بھی آج خوش تھے، اھل خانہ بھی خوش تھے، ان کا دلارا حافظ قرآن ہوگیا، یہ موقع بھی یقینا خوشی کا ہوتا ہے، اللہ کے نبی نے فرمایا ہے کہ حافظ قرآن کے والدین کو قیامت کے دن سورج سے زیادہ روشن پہنائے گا، اہل مدارس بھی دنیا کے اندر حافظ قرآن کے اعجاز کے لئے دستار بندی کا جلسہ کرتے ہیں اور حافظ قرآن کے سروں پر تاج پہناتے ہیں، یہ تاج بھی قیامت کے تاج کا ایک نمونہ ہوتا ہے، جن سروں پر یہ تاج باندھا جاتا ہے، ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہوتا، ان حفاظ سے کہیں زیادہ خوشی ان کے والدین کو ہوتی ہے،
اکابر علماء، وقت کے اولیاء اللہ نے ان معصوموں کے سروں پر تاج باندھ دیا تھا، ان خوش نصیبوں کو لوگوں کے سامنے بیٹھا گیا تھا، لوگ ان پر رشک کررہے تھے، وہیں گھروں پر ان معصوموں کی مائیں بے صبری سے انتظار میں تھیں، آج اپنے لال کو سینے سے لگائیں گے، مائیں خوشی سے پھولے نہ سمارہی تھی، عمدہ لذیذ کھانے بھی تیار تھے، بہن بھائی بھی ان معصوموں کو گراں قدر انعامات سے نوازنے کے لئے بالکل تیار تھے، ہر طرف خوشی کا ماحول تھا،
لیکن کسے معلوم تھا انسان اب درندہ بن چکا ہے، انسانیت ختم ہوچکی ہے، رحم نام کی چیز اب نام ونشان نہیں ہے، یہ مائیں بیچاری انتظار ہی کرتی رہیں، کسی ظالم درندہ صفت انسان نے اس عظیم خوشی کو غم میں بدل دیا، ۱.۱ معصوم بچوں کو ہمیشہ کے لئے سلا دیا، یہ مائیں رورہی ہیں، چیخ رہی ہیں، ان کابرا حال ہے،
یقینا یہ مائیں اور ان کی معصوم اولاد مظلوم ہیں، مجھے کامل یقین ہے اور اپنے سردار جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول پر مکمل ایمان ہے، کہ مظلوم کی آہ کے درمیان اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں، یہ بات تو یقینی ہے کہ ان ایک سو ایک ماؤں کی صدائیں رائیگاں نہیں جائیگی، میرے نبی کا ہر قول سچا ہے، دنیا نے دیکھا ہے اور دنیا دیکھے گی کہ ان ظالموں کا انجام برا ہوگا، اللہ کی پکڑ آئے گی، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انسان وحشی درندہ بن چکا ہے، درندگی پر آمادہ ہے، انسانیت کو آواز دو، انسانیت کہاں ہے، اللہ تعالی ان معصوموں کی مغفرت فرمائے جنت الفردوس میں عمدہ ٹھکانہ نصیب فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل نصیب فرمائے.......آمین...