محمد فرقان
ــــــــــــــــــــــ
بنگلور(آئی این اے نیوز 17/اپریل 2018) جس طرح انسان قیمتی چیز کو، سونا، چاندی، ہیرے جواہرات کو تجوریوں میں قیمتی جگہوں میں سنبھال کر رکھتا ہے اسی طرح اللہ تبارک تعالیٰ اپنے کلام پاک کو ہر کس و نا کس کے دل میں محفوظ نہیں کرتے۔اللہ اپنے کلام کوجن کے سینوں میں محفوظ کرتے ہیں ان کو حافظ قرآن کہا جاتا ہے۔ ہر کسی کو یہ نعمت نہیں ملتی، اللہ جسکو چاہتے ہیں اسے مالا مال کرتے ہیں۔یہ حافظ قرآن کا سینہ اللہ کی قیمتی جگہ ہوتی ہے۔اسلئے حافظ قران کی توہین قرآن مجید کی توہین ہے۔ان خیالات کا اظہار جامعہ فضیلت القرآن کے جی ہلی بنگلور میں منعقد اجلاس عام سے خطاب کرتے ہوئے شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ نے کیا۔
شاہ ملت نے فرمایا کہ جب سے قرآن پاک کی پہلی وحی نازل ہوئی تب سے قرآن پاک کے دشمن بھی پیدا ہو گئے تھے۔آج تک یہ سلسلہ جاری ہے اور قیامت تک رہے گا۔ مولانا نے فرمایا کہ دشمنان اسلام لاکھ مکروفریب کریں، کلام پاک کو جلائیں، اسکو ختم کرنے کیلئے لاکھ تدبیریں کریں، قندوز کے حفاظ جیسے حافظوں کو شہید کرکے جنتی دولہا بنائیں لیکن کلام پاک کو مٹانا تو دور کی بات اس کا ایک زبر اور زیر بھی آج تک کوئی ختم نہیں کر پایا ہے اور نہ قیامت تک اس کے اندر ردوبدل کرپائے گا۔ مولانا شاہ قاسمی نے فرمایا کہ حافظ اللہ کا ولی ہوتا ہے، اللہ کا منتخب بندہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دشمن کان کھول کر سن لیں! تم ایک حافظ قرآن کو شہید کروگے، اللہ گھر گھر سے حافظ قرآن کو پیدا کریں گے، اپنی مخلوق کے ذرے ذرے سے کلام پاک کی تلاوت کروائیں گے۔شاہ ملت نے فرمایا کی تاریخ گواہ ہے کہ قرآن شریف سے ٹکر لینے والے خود پاش پاش ہوگئے، ان کا وجود ختم ہوگیا۔ مولانا نے فرمایا کہ نام نہاد امن کا علمبردار دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد امریکہ قندوزمیں سوا سو حفاظ کرام کو شہید کرکرے سمجھتا ہے کہ قرآن کا نام و نشان مٹا دے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس کی سب سے بڑی حماقت ہے۔
شاہ ملت نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن شریف تمام علوم نافعہ کا سرچشمہ ہے، دنیا کا ہر نفع بخش علم جواب تک آیا اور قیامت تک آئے گا ان تمام علوم کو قرآن شریف کی آیتوں میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن کے قلوب کفر و شرک کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ مولانا نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا کے سائنسدان قرآن شریف سے استفادہ کر کے کائنات کے رموز کا انکشاف کر رہے ہیں اور ان علوم کی نسبت اپنی طرف کر کے دنیا میں اپنا نام روشن کر رہے ہیں۔ جبکہ ان کی تحقیقات کا ماخذ اور مرجع اللہ کا قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث شریفہ ہیں۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ چاند اور سورج کے بارے میں ایک لمبے زمانے تک اختلاف تھا مگر چودہ سو سال پہلے ہی جو وحی نازل ہوئی اللہ تبارک تعالیٰ نے سورج کو مونث”فیمیل“ کاصیغہ استعمال فرمایا اور چاند کے لئے مذکر ”میل“کا صیغہ استعمال فرمایا۔ آج سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا کہ جیسے بچہ ماں کے دودھ سے پرورش پاتا ہے اسی طرح چاند سورج کی روشنی سے پروان چڑھ رہا ہے۔
مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ فرانس کا ایک سائنسدان جو بحری علوم کا ماہر تھا، جب اس نے سورہ نور کی وہ آیت جس میں سمندری اندھیروں کا تذکرہ ہے، ترجمہ کا مطالعہ کیا، تو اس نے سمجھا کہ محمد نے سمندروں کا سفر خوب کیا ہوگا۔ مگر جب اس نے سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا پتہ چلا کے ایک مرتبہ بھی نبی نے سمندر کا سفر نہیں کیا ہے۔تو اس کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ یہ کلام انسانوں کا نہیں خالق کائنات کا کلام ہے۔ اس کے بعد اس نے ایمان کو قبول کرلیا۔شاہ ملت نے فرمایا کہ آج اغیار کلام پاک سے استفادہ کررہے ہیں مگر مسلمان قوم جو حامل قرآن شریف ہے اس کی طاقت سے بے خبر ہے۔ آج قرآن شریف کا استعمال صرف تعویذ گنڈوں کیلئے، مردوں کے سامنے پڑھنے کیلئے ہو رہا ہے، مولانا نے کہا ہمیں شکوہ دشمنوں سے نہیں کیونکہ دشمن کو دشمنی کرنے کا حق ہے لیکن خود مسلمانوں کے نزدیک علماء، حفاظ ائمہ کی کوئی عزت نہیں ہے، مساجد و مدارس کے بیت الخلاء کیلئے کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں مگر آج ان حفاظ کرام کی تنخواہ بھنگیوں کی تنخواہ سے کم ہے، مولانا نے فرمایا کہ آج ضرورت ہیکہ ہم قرآن مجید کی قدر کریں اسکے پڑھنے، پڑھنے والوں سے محبت کریں۔ ہماری کامیابی، سربلندی اور نجات قرآن مجید میں ہی موجود ہے۔
قابل ذکر ہیکہ اجلاس کی صدارت مولانا محمد مظفر صاحب عمری نے کی جبکہ نظامت کے فرائض جامعہ کے بانی و مہتمم حافظ محمد مطہر صاحب سراج انجام دے رہے تھے، اجلاس کا اختتام خطیب الاسلام مولانا محمد سالم صاحب قاسمی ؒ کی دعائے مغفرت سے ہوا۔
ــــــــــــــــــــــ
بنگلور(آئی این اے نیوز 17/اپریل 2018) جس طرح انسان قیمتی چیز کو، سونا، چاندی، ہیرے جواہرات کو تجوریوں میں قیمتی جگہوں میں سنبھال کر رکھتا ہے اسی طرح اللہ تبارک تعالیٰ اپنے کلام پاک کو ہر کس و نا کس کے دل میں محفوظ نہیں کرتے۔اللہ اپنے کلام کوجن کے سینوں میں محفوظ کرتے ہیں ان کو حافظ قرآن کہا جاتا ہے۔ ہر کسی کو یہ نعمت نہیں ملتی، اللہ جسکو چاہتے ہیں اسے مالا مال کرتے ہیں۔یہ حافظ قرآن کا سینہ اللہ کی قیمتی جگہ ہوتی ہے۔اسلئے حافظ قران کی توہین قرآن مجید کی توہین ہے۔ان خیالات کا اظہار جامعہ فضیلت القرآن کے جی ہلی بنگلور میں منعقد اجلاس عام سے خطاب کرتے ہوئے شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ نے کیا۔
شاہ ملت نے فرمایا کہ جب سے قرآن پاک کی پہلی وحی نازل ہوئی تب سے قرآن پاک کے دشمن بھی پیدا ہو گئے تھے۔آج تک یہ سلسلہ جاری ہے اور قیامت تک رہے گا۔ مولانا نے فرمایا کہ دشمنان اسلام لاکھ مکروفریب کریں، کلام پاک کو جلائیں، اسکو ختم کرنے کیلئے لاکھ تدبیریں کریں، قندوز کے حفاظ جیسے حافظوں کو شہید کرکے جنتی دولہا بنائیں لیکن کلام پاک کو مٹانا تو دور کی بات اس کا ایک زبر اور زیر بھی آج تک کوئی ختم نہیں کر پایا ہے اور نہ قیامت تک اس کے اندر ردوبدل کرپائے گا۔ مولانا شاہ قاسمی نے فرمایا کہ حافظ اللہ کا ولی ہوتا ہے، اللہ کا منتخب بندہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دشمن کان کھول کر سن لیں! تم ایک حافظ قرآن کو شہید کروگے، اللہ گھر گھر سے حافظ قرآن کو پیدا کریں گے، اپنی مخلوق کے ذرے ذرے سے کلام پاک کی تلاوت کروائیں گے۔شاہ ملت نے فرمایا کی تاریخ گواہ ہے کہ قرآن شریف سے ٹکر لینے والے خود پاش پاش ہوگئے، ان کا وجود ختم ہوگیا۔ مولانا نے فرمایا کہ نام نہاد امن کا علمبردار دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد امریکہ قندوزمیں سوا سو حفاظ کرام کو شہید کرکرے سمجھتا ہے کہ قرآن کا نام و نشان مٹا دے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس کی سب سے بڑی حماقت ہے۔
شاہ ملت نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن شریف تمام علوم نافعہ کا سرچشمہ ہے، دنیا کا ہر نفع بخش علم جواب تک آیا اور قیامت تک آئے گا ان تمام علوم کو قرآن شریف کی آیتوں میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن کے قلوب کفر و شرک کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ مولانا نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا کے سائنسدان قرآن شریف سے استفادہ کر کے کائنات کے رموز کا انکشاف کر رہے ہیں اور ان علوم کی نسبت اپنی طرف کر کے دنیا میں اپنا نام روشن کر رہے ہیں۔ جبکہ ان کی تحقیقات کا ماخذ اور مرجع اللہ کا قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث شریفہ ہیں۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ چاند اور سورج کے بارے میں ایک لمبے زمانے تک اختلاف تھا مگر چودہ سو سال پہلے ہی جو وحی نازل ہوئی اللہ تبارک تعالیٰ نے سورج کو مونث”فیمیل“ کاصیغہ استعمال فرمایا اور چاند کے لئے مذکر ”میل“کا صیغہ استعمال فرمایا۔ آج سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا کہ جیسے بچہ ماں کے دودھ سے پرورش پاتا ہے اسی طرح چاند سورج کی روشنی سے پروان چڑھ رہا ہے۔
مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ فرانس کا ایک سائنسدان جو بحری علوم کا ماہر تھا، جب اس نے سورہ نور کی وہ آیت جس میں سمندری اندھیروں کا تذکرہ ہے، ترجمہ کا مطالعہ کیا، تو اس نے سمجھا کہ محمد نے سمندروں کا سفر خوب کیا ہوگا۔ مگر جب اس نے سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا پتہ چلا کے ایک مرتبہ بھی نبی نے سمندر کا سفر نہیں کیا ہے۔تو اس کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ یہ کلام انسانوں کا نہیں خالق کائنات کا کلام ہے۔ اس کے بعد اس نے ایمان کو قبول کرلیا۔شاہ ملت نے فرمایا کہ آج اغیار کلام پاک سے استفادہ کررہے ہیں مگر مسلمان قوم جو حامل قرآن شریف ہے اس کی طاقت سے بے خبر ہے۔ آج قرآن شریف کا استعمال صرف تعویذ گنڈوں کیلئے، مردوں کے سامنے پڑھنے کیلئے ہو رہا ہے، مولانا نے کہا ہمیں شکوہ دشمنوں سے نہیں کیونکہ دشمن کو دشمنی کرنے کا حق ہے لیکن خود مسلمانوں کے نزدیک علماء، حفاظ ائمہ کی کوئی عزت نہیں ہے، مساجد و مدارس کے بیت الخلاء کیلئے کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں مگر آج ان حفاظ کرام کی تنخواہ بھنگیوں کی تنخواہ سے کم ہے، مولانا نے فرمایا کہ آج ضرورت ہیکہ ہم قرآن مجید کی قدر کریں اسکے پڑھنے، پڑھنے والوں سے محبت کریں۔ ہماری کامیابی، سربلندی اور نجات قرآن مجید میں ہی موجود ہے۔
قابل ذکر ہیکہ اجلاس کی صدارت مولانا محمد مظفر صاحب عمری نے کی جبکہ نظامت کے فرائض جامعہ کے بانی و مہتمم حافظ محمد مطہر صاحب سراج انجام دے رہے تھے، اجلاس کا اختتام خطیب الاسلام مولانا محمد سالم صاحب قاسمی ؒ کی دعائے مغفرت سے ہوا۔