طلبہ اپنی سالانہ تعطیلات کیسےگزاریں.
عبدالرّحمٰن الخبیرقاسمی بستوی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
شعبان، رمضان، اور شوال کے ابتدائی ہفتوں کے دوران دینی مدارس میں تعطیل رہتی ہے، اگرچہ یہ تعطیلات اسکولوں کی تعطیل کی طرح نہیں ہوتی کہ مین گیٹ پر تالا ہو، اور اندر جھانکنے پر محسوس ہوتا ہے کہ یہاں بھوت پریت بسیرا کرنے لگے ہیں، مدارسِ دینیہ میں چھوٹے سے چھوٹا مدرسہ بھی سارا سال آباد دکھائی دے گا، چھٹیاں ہوں تب بھی چنداساتذہ اور کچھ نہ کچھ طلبہ وہاں ضرور ملیں گے، بعضے مدارس ایسے بھی ہیں جہاں اکثر اساتذہ تعطیلات میں باقاعدہ مکمل نصابی تدریس سے وابستہ رہتے ہیں، بہرحال تعطیلات میں معمولات ضرور بدل جاتے ہیں، اکثر طلبہ اپنے گھروں میں ہوتے ہیں، نصابی کتب کا سلسلہ منقطع رہتا ہے،
بہت سے طلبہ دور دراز کے علاقوں سے آتے ہیں، وہ ٹرین یا بس سے طویل سفر کر کے اپنے وطن(گھر) جاتے ہیں، نو ماہ سے قائم ماحول یک دم بدل جاتاہے،شروع میں تو دل بہت خوش ہوتا ہے، مگر کوئی مصروفیات نہ ہو تو پھر یہی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں، بندہ کروٹ بدل کر کہتا ہے، یا اللہ میں کیا کروں اس کا مطلب یہ نہیں کہ چھٹیاں فضول چیز ہے، جی نہیں،یہ تو بہت ضروری ہے، انسان کا ذہن مہینوں تک ایک قسم کی مصروفیت میں لگا رہےتو مضمحل ہوجاتا ہے، بڑوں سے سنا ہے کہا کرتےتھے کہ جسم کا آرام تویہ ہے کہ انسان لیٹ جائے یا سوجائے مگر ذہن کا آرام یہ ہے، کہ مشغولیت تبدیل ہوجائے، پہلے کے علمأ ایک وقت میں ایک ہی علم وفن پڑھتےتھے، مگر جب وقت گزرتا گیا، قوی کمزور ہونے لگے، تو ترتیب بدلنے کی ضرورت سامنے آئی-بعض طالب علم اصل علم سیکھنے سے پہلے ہی تعلیم چھوڑ دیتے تھے،اس لئے بعد کے علماء نےطے کیا کہ شروع ہی سے کچھ نہ کچھ تفسیر، حدیث، اور فقہ شامل نصاب کی جائے کیونکہ متعدد مضامین پڑھنے میں دماغی تھکان بھی دور ہوجاتی ہے، مختلف انواع کے علوم سے استفادہ کا موقع بھی مل جاتا ہے-سالانہ چھٹیوں کا مقصدیہ ہے،سال میں ایک مناسب وقفہ دیاجائے،مصروفیات تبدیل ہوجائے،تاکہ دل و دماغ تازہ ہوکرپھرسے محنت کے لئےتیارہوسکیں-طلبہ سے راقم کی یہی گزارش ہے،کہ چھٹیوں کے پس پردہ اس حکمت کوسمجھ کرانھیں بہترین اندازمیں استعمال کریں،اس انمول وقت کو ضائع نہ کرتےہوئےدرج ذیل نکات کو عمل میں لاکراپناوقت قیمتی بنائیں
(1)سب سے پہلے ایک نظام الاوقات بنائیں،طئےکریں کہ چھٹیوں میں صبح جاگنے سے لیکررات سونےتک معمولات کیاہونگے؟یادرہےاس نظام الاوقات میں کوئی چیزلایعنی نہ ہوں،ہرکام بامعنیٰ ہو،جس کاکوئی نہ کوئی مقصداورفائدہ ہو
(2)پنجوقتہ نمازباجماعت مسجدمیں اداکریں،کوشش کریں تکبیراولیٰ فوت نہ ہوں،ایسانہ ہو کہ نمازوں کی پابندی بس مدرسہ ہی میں ہو،اورباہررکعتیں چھوٹ رہی ہو-
(3)روزآنہ ذکروتلاوت کاکچھ معمول بنائیں، کم ازکم آدھاگھنٹہ، اگرکسی شیخ سے بیعت ہے توان کے مشورے سے معمولات عمل میں لائیں-
(4)کتب مطالعہ میں طئے کرلیں،کسی اسلامی کتب خانہ کی سیرکرلیں،اس کے علاوہ دوستوں سےپڑھنے کےلئے کتب کا تبادلہ بھی کیا جاسکتاہے.مگرکتاب واپس کرنانک بھولیں-
(5)جوطلبہ حافظ ہیں وہ اپنی منزل پختہ کریں،یومیہ تلاوت کا معمول بنائیں.تاکہ رمضان میں سہولت ہو-
(6)ماں باپ کے پاس بیٹھنااوران.کی دعائیں لینابھی بہت ضروری ہے،پوراسال اس کا موقع نہیں ملتا،اب کوشش کریں اس کمی کا اِزالہ ہو جائے-
(7)کسی شیخ سے اصلاحی تعلق نہیں ہے،توقائم کریں،اگرپہلے سے قائم ہے،توان کی صحبت میں کچھ دن گزاریں، ممکن ہوتورمضان میں ان کے ساتھ اعتکاف کریں.
ان شاءاللہ آپ کی یہ تعطیلات زندگی کاایک یادگار تحفہ بن جائےگا.
عبدالرّحمٰن الخبیرقاسمی بستوی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
شعبان، رمضان، اور شوال کے ابتدائی ہفتوں کے دوران دینی مدارس میں تعطیل رہتی ہے، اگرچہ یہ تعطیلات اسکولوں کی تعطیل کی طرح نہیں ہوتی کہ مین گیٹ پر تالا ہو، اور اندر جھانکنے پر محسوس ہوتا ہے کہ یہاں بھوت پریت بسیرا کرنے لگے ہیں، مدارسِ دینیہ میں چھوٹے سے چھوٹا مدرسہ بھی سارا سال آباد دکھائی دے گا، چھٹیاں ہوں تب بھی چنداساتذہ اور کچھ نہ کچھ طلبہ وہاں ضرور ملیں گے، بعضے مدارس ایسے بھی ہیں جہاں اکثر اساتذہ تعطیلات میں باقاعدہ مکمل نصابی تدریس سے وابستہ رہتے ہیں، بہرحال تعطیلات میں معمولات ضرور بدل جاتے ہیں، اکثر طلبہ اپنے گھروں میں ہوتے ہیں، نصابی کتب کا سلسلہ منقطع رہتا ہے،
بہت سے طلبہ دور دراز کے علاقوں سے آتے ہیں، وہ ٹرین یا بس سے طویل سفر کر کے اپنے وطن(گھر) جاتے ہیں، نو ماہ سے قائم ماحول یک دم بدل جاتاہے،شروع میں تو دل بہت خوش ہوتا ہے، مگر کوئی مصروفیات نہ ہو تو پھر یہی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں، بندہ کروٹ بدل کر کہتا ہے، یا اللہ میں کیا کروں اس کا مطلب یہ نہیں کہ چھٹیاں فضول چیز ہے، جی نہیں،یہ تو بہت ضروری ہے، انسان کا ذہن مہینوں تک ایک قسم کی مصروفیت میں لگا رہےتو مضمحل ہوجاتا ہے، بڑوں سے سنا ہے کہا کرتےتھے کہ جسم کا آرام تویہ ہے کہ انسان لیٹ جائے یا سوجائے مگر ذہن کا آرام یہ ہے، کہ مشغولیت تبدیل ہوجائے، پہلے کے علمأ ایک وقت میں ایک ہی علم وفن پڑھتےتھے، مگر جب وقت گزرتا گیا، قوی کمزور ہونے لگے، تو ترتیب بدلنے کی ضرورت سامنے آئی-بعض طالب علم اصل علم سیکھنے سے پہلے ہی تعلیم چھوڑ دیتے تھے،اس لئے بعد کے علماء نےطے کیا کہ شروع ہی سے کچھ نہ کچھ تفسیر، حدیث، اور فقہ شامل نصاب کی جائے کیونکہ متعدد مضامین پڑھنے میں دماغی تھکان بھی دور ہوجاتی ہے، مختلف انواع کے علوم سے استفادہ کا موقع بھی مل جاتا ہے-سالانہ چھٹیوں کا مقصدیہ ہے،سال میں ایک مناسب وقفہ دیاجائے،مصروفیات تبدیل ہوجائے،تاکہ دل و دماغ تازہ ہوکرپھرسے محنت کے لئےتیارہوسکیں-طلبہ سے راقم کی یہی گزارش ہے،کہ چھٹیوں کے پس پردہ اس حکمت کوسمجھ کرانھیں بہترین اندازمیں استعمال کریں،اس انمول وقت کو ضائع نہ کرتےہوئےدرج ذیل نکات کو عمل میں لاکراپناوقت قیمتی بنائیں
(1)سب سے پہلے ایک نظام الاوقات بنائیں،طئےکریں کہ چھٹیوں میں صبح جاگنے سے لیکررات سونےتک معمولات کیاہونگے؟یادرہےاس نظام الاوقات میں کوئی چیزلایعنی نہ ہوں،ہرکام بامعنیٰ ہو،جس کاکوئی نہ کوئی مقصداورفائدہ ہو
(2)پنجوقتہ نمازباجماعت مسجدمیں اداکریں،کوشش کریں تکبیراولیٰ فوت نہ ہوں،ایسانہ ہو کہ نمازوں کی پابندی بس مدرسہ ہی میں ہو،اورباہررکعتیں چھوٹ رہی ہو-
(3)روزآنہ ذکروتلاوت کاکچھ معمول بنائیں، کم ازکم آدھاگھنٹہ، اگرکسی شیخ سے بیعت ہے توان کے مشورے سے معمولات عمل میں لائیں-
(4)کتب مطالعہ میں طئے کرلیں،کسی اسلامی کتب خانہ کی سیرکرلیں،اس کے علاوہ دوستوں سےپڑھنے کےلئے کتب کا تبادلہ بھی کیا جاسکتاہے.مگرکتاب واپس کرنانک بھولیں-
(5)جوطلبہ حافظ ہیں وہ اپنی منزل پختہ کریں،یومیہ تلاوت کا معمول بنائیں.تاکہ رمضان میں سہولت ہو-
(6)ماں باپ کے پاس بیٹھنااوران.کی دعائیں لینابھی بہت ضروری ہے،پوراسال اس کا موقع نہیں ملتا،اب کوشش کریں اس کمی کا اِزالہ ہو جائے-
(7)کسی شیخ سے اصلاحی تعلق نہیں ہے،توقائم کریں،اگرپہلے سے قائم ہے،توان کی صحبت میں کچھ دن گزاریں، ممکن ہوتورمضان میں ان کے ساتھ اعتکاف کریں.
ان شاءاللہ آپ کی یہ تعطیلات زندگی کاایک یادگار تحفہ بن جائےگا.