تحریر: عزیز نبیل
ـــــــــــــــ
پیارے اطہر ضیاء! تمہارے جلد بچھڑ جانے کا اندیشہ تو تبھی سے یقین کے سینے میں پنجہ گاڑے بیٹھا ہوا تھا جب یہ پتہ چلا تھا کہ کینسر جیسے موذی مرض نے تمہارے دماغ کی جڑوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ لیکن امید پھر بھی قائم تھی، دعائیں مانگی جارہی تھیں اور کسی معجزے کے انتظار میں دن گز رہے تھےکہ شاید ایسا کچھ ہوجائے کہ تم ہنستے مسکراتے پھر کہیں سے نمودار ہوجاو ۔
میں نے تو بہت دنوں سے تمہاری خیریت کے متعلق کسی سے کچھ دریافت کرنا ہی بند کردیا تھا کہ جب بھی معلوم کرو ہمیشہ ایک ہی اطلاع ملتی کہ طبیعت مزید بگڑ رہی ہے۔ کل رات جب سہیم کی کال آئی تو فون اٹھاتے ہوئے ایک انجانا سا خوف دل میں اتر آیا تھا کہ پتہ نہیں کیا خبر ہو۔ سہیم نے انتقال کی خبر دی اور میں نے انّاللہ پڑھا، کچھ دیر دونوں طرف خاموشی رہی، یہ خاموشی دراصل ایک دوسرے سے بے حرف و صوت تعزیت تھی کیوں کہ مزید کچھ کہنے کے لیے ہم دونوں کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔
فون رکھتے ہی ، غم اور دکھ کی شدید لہر اٹھی لیکن پھر ذہن تمہارے قریبی متعلقین کی طرف گیا کہ ان پر کیا بیت رہی ہوگی۔ تمہارا شعر ذہن میں کوندا
بہت روئے گی یہ لڑکی کسی دن
جو میرے ساتھ ہنس کر چل رہی ہے
یقینا وہ لڑکی آج بہت روئی ہوگی، آگے بھی روئے گی، وہ تو گزشتہ دو سال سے رو رہی ہے۔ اس کے غم اور درد کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ہے۔
تین معصوم بچیوں کی کھلکھلاتی صورتیں ذہن کے پردے پر جگمگا اٹھی ہیں، آمنہ۔ عائشہ اور وہ تیسری ننھی پری جس کا مجھے نام نہیں یاد رہا، انہیں سوچتا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ شاید قدرت کے فیصلے ہمیشہ درست نہیں ہوتے ہیں۔
تین چار دنوں سے تم بہت یاد آرہے تھے اور ایک شعر بار بار تمہارے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ یاد آتا رہا تھا
ہم تمہیں بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بے درد کوئی کیا ہوگا
لیکن تم بھی کم بے درد نہیں، اس طرح بھری جوانی میں دوستوں اور دنیا کو چھوڑ کے جا یا جاتا ہے کیا؟
مرزا اطہر ضیاء! یوں تو تم اُس دنیا کی طرف کوچ کرچکے ہو جہاں سے کوئی لوٹ کر واپس نہیں آتا لیکن تم اپنی شخصیت اور شاعری کے ساتھ ہمیشہ موجود رہوگے ہماری محفلوں میں، دلوں میں حافظوں میں اور اردو شاعری کی سانسوں میں۔
اِس وقت ذہن کی سکرین پر تمہارے ایسے بہت سارے شعر ایک کے بعد نمودار ہوتے جارہے ہیں جن میں تمہارے "آج" کے جذبات درج ہیں۔ یہ تمہاری غیر معمولی ذہانت تھی کہ تم نے بہت پہلے وہ سب لکھ دیا تھا جو آنے والے دنوں میں تمہارے ساتھ وقوع پذیر ہونے والا تھا۔
ایک معمولی سا کردار ملا تھا مجھ کو
پھر بھی انجام ِ کہانی پہ اثر ہے میرا
۔۔
سنا تھا مجھ میں خزانہ چھپا ہوا ہے کوئی
سو ختم ہوتا ہوں خود کو ادھیڑتا ہوا میں
۔۔
اک اور عمر دے مجھے جینے کے واسطے
تو نے جو عمر دی تھی وہ مرنے میں لگ گئی
۔۔
قامت مری دراز ہے، کوتاہ قد ہے تو
اے زندگی میں تجھ پہ برابر نہ آوں گا
۔۔
اب مجھے اور نہیں ڈھونا یہ زنجیرِ وجود
آج آزاد کیا جائے مری مٹّی کو
۔۔
دشت ِ ہستی سے بگولے کی طرح گزرا ہوں
اپنے پیچھے خس و خاشاک اڑاتا ہوا میں۔
۔۔
زندگی چھوڑ دیا تجھ کو بھی
یعنی تجھ سے بھی محبت نہیں کی
۔۔
سو جتنا رونا ہے رولو گلے لگا کہ مجھے
کہ صبح مجھ کو سفر پر روانہ ہونا ہے
۔۔
اطہر ضیاء! تمہارے سفر پر روانہ ہونے سے قبل بھی تم سے محبت کرنے والے بہت روئے ہیں اور تمہارے دائمی سفر پر روانہ ہونے کے بعد بھی مسلسل روتے رہیں رہیں گے، تمہیں یاد کرتے رہیں گے.
ـــــــــــــــ
میں نے تو بہت دنوں سے تمہاری خیریت کے متعلق کسی سے کچھ دریافت کرنا ہی بند کردیا تھا کہ جب بھی معلوم کرو ہمیشہ ایک ہی اطلاع ملتی کہ طبیعت مزید بگڑ رہی ہے۔ کل رات جب سہیم کی کال آئی تو فون اٹھاتے ہوئے ایک انجانا سا خوف دل میں اتر آیا تھا کہ پتہ نہیں کیا خبر ہو۔ سہیم نے انتقال کی خبر دی اور میں نے انّاللہ پڑھا، کچھ دیر دونوں طرف خاموشی رہی، یہ خاموشی دراصل ایک دوسرے سے بے حرف و صوت تعزیت تھی کیوں کہ مزید کچھ کہنے کے لیے ہم دونوں کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔
فون رکھتے ہی ، غم اور دکھ کی شدید لہر اٹھی لیکن پھر ذہن تمہارے قریبی متعلقین کی طرف گیا کہ ان پر کیا بیت رہی ہوگی۔ تمہارا شعر ذہن میں کوندا
بہت روئے گی یہ لڑکی کسی دن
جو میرے ساتھ ہنس کر چل رہی ہے
یقینا وہ لڑکی آج بہت روئی ہوگی، آگے بھی روئے گی، وہ تو گزشتہ دو سال سے رو رہی ہے۔ اس کے غم اور درد کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ہے۔
تین معصوم بچیوں کی کھلکھلاتی صورتیں ذہن کے پردے پر جگمگا اٹھی ہیں، آمنہ۔ عائشہ اور وہ تیسری ننھی پری جس کا مجھے نام نہیں یاد رہا، انہیں سوچتا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ شاید قدرت کے فیصلے ہمیشہ درست نہیں ہوتے ہیں۔
تین چار دنوں سے تم بہت یاد آرہے تھے اور ایک شعر بار بار تمہارے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ یاد آتا رہا تھا
ہم تمہیں بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بے درد کوئی کیا ہوگا
لیکن تم بھی کم بے درد نہیں، اس طرح بھری جوانی میں دوستوں اور دنیا کو چھوڑ کے جا یا جاتا ہے کیا؟
مرزا اطہر ضیاء! یوں تو تم اُس دنیا کی طرف کوچ کرچکے ہو جہاں سے کوئی لوٹ کر واپس نہیں آتا لیکن تم اپنی شخصیت اور شاعری کے ساتھ ہمیشہ موجود رہوگے ہماری محفلوں میں، دلوں میں حافظوں میں اور اردو شاعری کی سانسوں میں۔
اِس وقت ذہن کی سکرین پر تمہارے ایسے بہت سارے شعر ایک کے بعد نمودار ہوتے جارہے ہیں جن میں تمہارے "آج" کے جذبات درج ہیں۔ یہ تمہاری غیر معمولی ذہانت تھی کہ تم نے بہت پہلے وہ سب لکھ دیا تھا جو آنے والے دنوں میں تمہارے ساتھ وقوع پذیر ہونے والا تھا۔
ایک معمولی سا کردار ملا تھا مجھ کو
پھر بھی انجام ِ کہانی پہ اثر ہے میرا
۔۔
سنا تھا مجھ میں خزانہ چھپا ہوا ہے کوئی
سو ختم ہوتا ہوں خود کو ادھیڑتا ہوا میں
۔۔
اک اور عمر دے مجھے جینے کے واسطے
تو نے جو عمر دی تھی وہ مرنے میں لگ گئی
۔۔
قامت مری دراز ہے، کوتاہ قد ہے تو
اے زندگی میں تجھ پہ برابر نہ آوں گا
۔۔
اب مجھے اور نہیں ڈھونا یہ زنجیرِ وجود
آج آزاد کیا جائے مری مٹّی کو
۔۔
دشت ِ ہستی سے بگولے کی طرح گزرا ہوں
اپنے پیچھے خس و خاشاک اڑاتا ہوا میں۔
۔۔
زندگی چھوڑ دیا تجھ کو بھی
یعنی تجھ سے بھی محبت نہیں کی
۔۔
سو جتنا رونا ہے رولو گلے لگا کہ مجھے
کہ صبح مجھ کو سفر پر روانہ ہونا ہے
۔۔
اطہر ضیاء! تمہارے سفر پر روانہ ہونے سے قبل بھی تم سے محبت کرنے والے بہت روئے ہیں اور تمہارے دائمی سفر پر روانہ ہونے کے بعد بھی مسلسل روتے رہیں رہیں گے، تمہیں یاد کرتے رہیں گے.