قلندر کی بات
متین خان
ــــــــــــــــ
جنگ آزادی کی ابتدا کے بعد ہندوستان میں ایسے حالات گزرے کہ شہدائے آزادی کی اولادوں پر فاقہ گزرنے لگا، جسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہودی مشنری سرگرم ہوگئ، اور اسنے لالچ دیکر مسلمانوں کو مرتد کرنا شروع کردیا، فاقہ کش مسلمانوں کی بڑی تعداد مرتد ہوئی.
اگر علماء کرام، توجہ نہ فرماتے تو شاید ہمارے اجداد اپنا ایمان گنوا دیتے، اور آج ہم کسی چرچ میں پرئر کرتے اور خنزیر کھا رہے ہوتے،
احسان مانئے ان ایمان کے محافظین کا جنہوں نے مدارس دینیہ قائم کردئے، اسوقت علماء دین بیک وقت کئ محاذوں پر ڈٹے ہوئے تھے، ایک طرف یہی علماء فرنگیوں سے ٹکرا رہے تھے، تو دوسری طرف ایمان کے لٹیروں سے نبرد آزما تھے، تیسری طرف شہدا کے لواحقین کی فاقہ کشی انہیں بیچینی کئے ہوئ تھی، چوتھی جانب شہدا کی جوان بیواؤں کی فکر تھی کہ ان بیٹیوں کی زندگیوں کا کیا ہوگا، سب کے لئے کچھ نہ کچھ کررہے تھے، ورنہ انگریزی مشنری گھات میں تھی، بہت سے مجبور مسلمانوں کو اپنے جال پھنسا چکی تھی.
اسوقت دو چار دس نہیں سیکڑوں علماء ایک ساتھ شہید کئے جارہے تھے، چشم فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا ہے جب فرنگیوں نے ہزاروں علماء ایک ساتھ شہید کئے، تاریخ اٹھا کر دیکھیں کہ اسوقت چاندنی چوک دلی کی فتحپوری مسجد سے لال قلعہ تک کتے علماء کے لاشیں درختوں پر لٹکائ گئ تھیں، خوفناک حالات میں علماء نے اپنی جان کی پرواہ نہیں بلکہ امت مسلمہ کے ایمان کی فکر کی تب آج مساجد میں اذانیں گونجتی ہیں،اور میتوں کونماز جنازہ نصیب ہوتی ہے، یہ اذانیں اور اور نمازیں ایسے ہی نہیں قائم، آج مساجد کے قمقمے علماء کے خون سے روشن ہیں، ورنہ کب کے بے نور ہوچکے ہوتے.
علماء کا احسان مند ہونے کی بجائے ہم انکی تذلیل کرتے ہیں سو پچاس روپئے کی رسید کٹا کر سمجھتے ہیں کہ علماء پر احسان کردیا.
قوم کے ان محسنین کو ہم چندہ خور کہتے ہیں، آخر یہ بھی انسان ہیں، ان کی بھی ضروریات ہیں، بیوی اور بچے اور انکی فرمائشیں ہیں، آپکی بیوی بچوں کی طرح انکے اہل خانہ کی بھی فرمائشیں ہوتی ہیں، انکی بیوی بھی انسان ہوتی ہے، اور اسکے سینے بھی ایک عدد دھڑکتا ہوا دل ہوتا ہے، ارمان ہوتے ہیں حسرتیں ہوتی ہیں وہ کوئی پتھر کی مورت نہیں ہوتی.
آپکی بیوی کی طرح، مولوی کی بیوی بھی چاہتی ہے کہ وہ اور اسکے بچے اچھے کپڑے سلائس، وہ نہیں چاہتی کہ عید کے دن ہمسایہ سیٹھ کے بچوں کو میرے بچے حسرت سے دیکھیں اور والدین کی لاچاری کا خوشی کے دن ماتم کریں.
مولوی کے بچے بھی معاشرے کے بچوں کی طرح اچھے کپڑے اور اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہ کیا ضروری ہے کہ باپ مولوی ہے تو بیٹا بھی مولوی بنے گا، اگر بچے کو دلچسپی نہیں ہے تو ایک ڈاکٹر یا وکیل اپنے بچے کو ڈاکٹر وکیل نہیں بناپاتا تو مولوی کیسے اپنے بچے کو مولوی بنا سکتا ہے، وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے، جسطرح بچے کی مرضی کے خلاف تعلیم آپ نہیں دلا پاتے، اسی طرح مولوی بھی اولاد سے بے بس ہوجاتا ہے، لیکن مولوی اور آپ میں یہ فرق ہے کہ آپکے بچے بگڑتے ہیں تو آپ معاشرے کو مجرم ٹھہراتے ہیں، اگر مولوی کا بچہ بگڑ جائے تو آپ مولوی کا مذاق بناتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ مولوی کو معاشرے نے دیا ہی کیا ہے، جو اسکے بچے مولوی بننا چاہیں؟
ان بچوں نے تو مہینہ پورا ہونے سے پہلے باپ کو اخراجات کی تنگی سے پریشان دیکھا ہے،راشن کے بقایا کا تقاضہ کرتے راشن والے کو ٹوکتے ہوئے دیکھا ہے.
مولوی بہت سے مسائل سے دوچار رہتا ہے ، مولوی کی جتنی تنخواہ ہوتی ہے اتنے کی مہینے میں آپکے بچے چاکلیٹ کھاتے ہیں، سوچئے اتنی قلیل تنخواہ میں انکا گھر کیسے چلتا ہوگا، اگر رمضان میں چندہ کے لئے اضافی محنت کے صلہ میں کچھ اضافی محنتانہ لے لیتے ہیں تو کیا برائی ہے، ہم خود مولویوں کو کچھ دیتے نہیں، کوئی اہل دل کبھی کچھ نذرانہ دے بھی تو لوگ مولوی کا مذاق بناتے ہیں، خدارا اللہ سے ڈرئے، یہ علماء اور مدارس امت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، اگر علماء حالات سے لڑتے ہوئے اپنا حوصلہ توڑ بیٹھے، اور مدارس دینہ کی بجائے کی بجائے بازار کا رخ کرلیا تو آپکے بچوں کو کوئی قرآن پڑھانے والا نہ ملے گا، کوڑیوں بھاؤ وہ امام نہیں ملیں گے جو منصب امامت کو پس پشت ڈال کر ٹرسٹیان کی غلامی کرے، اتنا ستم نہ ڈھاؤ انکی اتنی تذلیل مت کرو، اب زمانہ بدل گیا ہے، پہلے جیسے علماء نہیں رہے جو تمام ذلتوں کے باوجود بھی آپکی خدمت کریں گے، خیال رکھئے اور اپنی اوقات میں رہئے نئے دور کے علماء اتنا حوصلہ اور صلاحیت بھی رکھتے ہیں جو آپکی غلامی کی بجائے کہیں عزت کی نوکری کرکے اچھی تنخواہ بھی پا سکتے ہیں، آپکو یہ بھی گورا نہیں کہ سال میں ایک بار محنت کرکے اضافی محنتانہ وصول کرلیں آخر کیوں؟ جبکہ اللہ کے رسول نے بھی ذکواۃ وصول کرنے والے عمال مقرر کئے تھے، جنکو زکواۃ وصول کرنے کی تنخواہ دی جاتی تھی، خدارا اپنی سوچ بدلئے زمانہ بدل گیا ہے، اگر علماء بدل گئے تو آپکا ایمان و عقیدہ بھی سلامت نہیں رہے وہ بدل جائے گا، جسکے نتیجے میں، آپ جنت کے منتظر ہوں گے لیکن جہنم آپکی مشتاق ہوگی، اللہ کے لئے یہ مشکل نہیں کہ آپکو جنہم کے حوالے کردے.
ہمیں جہنم سے بچانے کیلئے ہندوستان کے طول و عرض میں قائم ہزاروں مدارس دینہ جنہیں دین کے قلعوں سے تعبیر کیا جاتا ہے، ان قلعوں کی تعمیر اور انہیں جاری رکھنے کے لئے علماء دین کتنے پرخطر مراحل سے گزرے ہیں، اور کتنی مشقتیں برداشت کرتے ہیں آئر کنڈیشن میں بیٹھکر دھوپ میں سفیروں کو لائین میں کھڑا کرکے چندہ دینے والے، سیٹھ صاحب تصور بھی نہیں کرسکتے.
خدا کے لئے ان دین کے خدمت گزاروں کی سر راہ تذلیل نہ کیجئے، یہ علماء، ہمارے ایمان کے پاسباں ہیں.
اس سے انکار نہیں کہ کمیشن خور علماء کی بھرمار ہے اسکے باوجود بھی، صحیح طرح سے دین کی خدمت کرنے والوں کی کمی نہیں ہے، آپ ہر کام میں نفع نقصان، صحیح اور غلط کی تحقیق کرتے ہیں، لیکن سبھی علماء کو ایک ہی صف میں کھڑا دیتے ہیں، یہ تو علماء پر ذیادتی ہے.
وہ مدارس جو اسلام کے قلعے ہیں اور جن کے سفراء رات دن ایک کرکے ایمان داری کے ساتھ فنڈ جمع کرتے ہیں، اور مدارس دینیہ چل رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے ایثار و قربانی کو قبول فرمائے، اور در بدر برداشت کی ہوئی تمام ذلتوں کو عزت و عظمت سے مبدل فرمائے، اور ہمیں انکی عزت و توقیر کا پاس رکھنے کی توفیق عطا فرمائے. آمیــــن