محمد صدرعالم نعمانی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بھٹکل(آئی این اے نیوز 9/جون 2018) رمضان كا بابركت مہینہ، اس كا بھی آخری عشرہ ، آخری عشرہ كی بھی طاق رات،اوررات بھی جمعہ كی، جس میں لیلۃ القدر كے زیادہ امكانات تھے، ایسے با بركت مہینے كے با بركت دن كے با بركت وقت میں مختصر سحری کھانےكے بعد اپنی صحت كی ناسازی كی طرف اشارہ كرتے ہوئے اللہ كے ولی اور دین كے داعی عارف باللہ حضرت مولانا محمد غزالی خطیبی ندوی بھٹکلی اپنی زبان سے توحید كا اقرار كرتے، اپنے گناہوں سے معافی مانگتے، گھر والوں سے بھی معافی كی درخواست كرتے ہوئے اس جہانِ فانی سے چل بسے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
انتقال كی خبر سنی پھر اپنے دوست اور مولانا كے فرزند مولانا ابو بكر صدیق سے رابطہ كیا، تو لہجہ کی لرزش اور غم کی آمیزش سے خبر كی تصدیق ہوگئی، پھر مولانا كے برادرِ نسبتی مولانا محمد یونس برماور ندوی سے تعزیت کی انھوں نے آپ کے آخری وقت کی كیفیات اور موت کے وقت کا ذکر کیا ، اسی كے ساتھ دبئ میں موجود آپ كے بڑے داماد مولانا محمد بن عبد الوہاب خلیفہ ندوی سے تعزیت كی ۔ سبحان اللہ ، كیا قابلِ رشك موت تھی، مہینہ و دن اور وقت كی بركتوں كے ساتھ ساتھ عجیب وغریب سعادتیں، بركتیں اور رحمتیں پائیں ۔ آپ نے رات ہوتے ہی اپنے بچوں، پوتے پوتیوں اور گھر والوں كو جمع فرمایا، آج کے رات كی خیر وبركت اور اہمیت بتائی، اس کے ایك ایك لمحہ کو غنیمت جاننے كی تلقین فرمائی، سب كو ذكر و دعا میں مشغول رہنے كی وصیت كی، خود بھی ہاتھ میں تسبیح لئے ذكر میں مشغول رہے، رات گھر والوں كے ساتھ عبادت، تلاوت اور ذکر میں گزاری، سحری كا وقت ہوا تو اہلیہ محترمہ نے سحری لانے كا اظہار كیا، كہنے لگے اب سحری كیا كھائیں، اب تو اللہ کی جانب سے بلاوا آیا ہے، موت کے فرشتوں کی آمد آمد ہے ، یہ میری زندگی كا آخری وقت ہے، سب مجھے معاف كردیں، پھر جیسے ہی فجر كی اذان ہوئی تو پانی طلب کیا كہ جلدی سے وضو كر كے دو ركعت نماز پڑھ لوں، اہلیہ محترمہ ابھی پانی لا ہی رہی تھی كہ اللہم اغفرلی ، اللہم اغفرلی اور کلمہ طیبہ كا ورد زبان پر جاری ركھتے ہوئے اذان فجر كے ساتھ ساتھ آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی،جس طرح آپکی زندگی مثالی تھی اسی طرح آپ نے موت بھی مثالی پائی.
آپ كی پیدائش شہر بھٹكل میں سنہ۱۹۴۴ عیسوی كو ہوئی، آپ كے والد مولانا ابو بكر خطیبی شہر كے چیف قاضی تھے، آپ کی ابتدائی قرآنی تعلیم گھر ہی میں ہوئی، تربیت دینی اور ایمانی پائی، ابتدائی عصری تعلیم اسلامیہ اینگلو ہائی اسكول بھٹکل میں ہوئی، یہاں سے میٹرك تك تعلیم حاصل كرنے كے بعد جامعہ اسلامیہ جامعہ آباد بھٹکل میں داخلہ لیا، جامعہ سے فراغت كے بعد مشہور عالمی درسگاہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے ۱۹۶۷ میں سندِ عالمیت حاصل كی، فراغت كے بعد كا كچھ عرصہ اپنی مادرِ علمی میں تدریسی خدمات انجام دے كر گزارا ، آپ كی زندگی كا مختصر عرصہ مدراس میں بھی گزرا جہاں پر آپ نے مولانا كمپنی میں ملازمت اختیار كی، جس كے بعد آپ نے اپنے آپ كو مرکزبنگلہ والی مسجد نظام الدین دہلی میں دعوتی وتبلیغی خدمات کے لئے وقف کردیا تھا.
مولانا علیہ الرحمہ كی شخصیت حسن و خوبی کے رنگارنگل پھولوں کا حسین گلدستہ تھی، علم وعمل، اخلاص وللہیت، بزرگوں سے نسبت، فقاہت ونجابت اورحق گوئی و راست بازی، آپ كے اوصافِ حمیدہ تھے، جس میں بہت نمایاں وصف حسن عمل، تبلیغ و دعوت اور جہد مسلسل تھا، آپ دیكھنے میں ایك عام انسان نظر آتے لیکن عادات اور صفات میں ملكوتی خصوصیات پائی جاتی تھیں، آپ صلاح وتقوی كی چلتی پھرتی تصویر تھے، اس لیے كہ آپ انسانی بلندی کی تمام معیاروں پر پورا اترتےتھے، اخلاص و بے نفسی اور بے غرضی ان کی زندگی کا جوہر اور ان کے تمام اعمال و مساعی کا محرک تھا، مزاج میں اعتدال تھا، طبیعت میں شرافت تھی، چہرہ ہنس مکھ تھا، تصنع و بناوٹ سے کوسوں دور تھے ، سب كو چاہتے ، سب سے محبت فرماتے، ملاقاتیوں سے میٹھے بول بولتے، ظاہر و باطن میں یكسانیت ركھتے، آپ كے بیانات انتہائی مؤثر ہوتے ، سامعین كے دلوں تك رسائی كرتے، گفتگو مربوط فرماتے، بولتے تو گویا موتی برساتے۔
تواضع و انكساری اور شہرت پسندی سے ہمیشہ اجتناب کرتے, آپ ایسی عظیم صفات کےمالک تھے,جو انسان كو عند اللہ اور عند الناس مقبول بنا دیتی ہیں، آپ كی شخصیت كا كمال تھا كہ كبھی كسی نے آپ سے اختلاف نہیں كیا، قدرت نے آپ کو خوبیوں کاعطر مجموعہ بنایا تھا، بے حد محنتی تھے، مخلص و داعی تھے، عظیم مربی تھے، جذبہ صادق کے ساتھ دین کی خدمت اور اصلاحی دعوت کے لیے زندگی بھر کوشاں رہے۔ آپ نے ہمیشہ اعلائے کلمہ اللہ کے لیے كام كیا، دعوت وتبلیغ كے لیے ملك و بیرون ملک كے متعدد اسفار كئے، آپ كے سات بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ، ماشاء اللہ ساتوں عالم دین ہیں اور ان میں سے چھ عالمِ دین ہونے كے ساتھ ساتھ حافظِ قرآن بھی ہیں ، ساتھ ہی دونوں بیٹیاں بھی حافظِ قرآن ہیں اور مزید زہے نصیب یہ کہ آپ كے دونوں داماد بھی حافظ قرآن ہیں ۔
دعا ہے كہ اللہ تعالی حضرت کی بال بال مغفرت فرمائے ،اور جنت الفردوس میں اعلی سےاعلی مقام عطا فرمائے, اور پسماندگان كو صبر جمیل عطا فرمائے ۔آمین
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
كارواں سے كیسے كیسے لوگ رخصت ہو گئے
كچھ فرشتے چل رہے تھے جیسے انسانوں كے ساتھ
انتقال كی خبر سنی پھر اپنے دوست اور مولانا كے فرزند مولانا ابو بكر صدیق سے رابطہ كیا، تو لہجہ کی لرزش اور غم کی آمیزش سے خبر كی تصدیق ہوگئی، پھر مولانا كے برادرِ نسبتی مولانا محمد یونس برماور ندوی سے تعزیت کی انھوں نے آپ کے آخری وقت کی كیفیات اور موت کے وقت کا ذکر کیا ، اسی كے ساتھ دبئ میں موجود آپ كے بڑے داماد مولانا محمد بن عبد الوہاب خلیفہ ندوی سے تعزیت كی ۔ سبحان اللہ ، كیا قابلِ رشك موت تھی، مہینہ و دن اور وقت كی بركتوں كے ساتھ ساتھ عجیب وغریب سعادتیں، بركتیں اور رحمتیں پائیں ۔ آپ نے رات ہوتے ہی اپنے بچوں، پوتے پوتیوں اور گھر والوں كو جمع فرمایا، آج کے رات كی خیر وبركت اور اہمیت بتائی، اس کے ایك ایك لمحہ کو غنیمت جاننے كی تلقین فرمائی، سب كو ذكر و دعا میں مشغول رہنے كی وصیت كی، خود بھی ہاتھ میں تسبیح لئے ذكر میں مشغول رہے، رات گھر والوں كے ساتھ عبادت، تلاوت اور ذکر میں گزاری، سحری كا وقت ہوا تو اہلیہ محترمہ نے سحری لانے كا اظہار كیا، كہنے لگے اب سحری كیا كھائیں، اب تو اللہ کی جانب سے بلاوا آیا ہے، موت کے فرشتوں کی آمد آمد ہے ، یہ میری زندگی كا آخری وقت ہے، سب مجھے معاف كردیں، پھر جیسے ہی فجر كی اذان ہوئی تو پانی طلب کیا كہ جلدی سے وضو كر كے دو ركعت نماز پڑھ لوں، اہلیہ محترمہ ابھی پانی لا ہی رہی تھی كہ اللہم اغفرلی ، اللہم اغفرلی اور کلمہ طیبہ كا ورد زبان پر جاری ركھتے ہوئے اذان فجر كے ساتھ ساتھ آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی،جس طرح آپکی زندگی مثالی تھی اسی طرح آپ نے موت بھی مثالی پائی.
آپ كی پیدائش شہر بھٹكل میں سنہ۱۹۴۴ عیسوی كو ہوئی، آپ كے والد مولانا ابو بكر خطیبی شہر كے چیف قاضی تھے، آپ کی ابتدائی قرآنی تعلیم گھر ہی میں ہوئی، تربیت دینی اور ایمانی پائی، ابتدائی عصری تعلیم اسلامیہ اینگلو ہائی اسكول بھٹکل میں ہوئی، یہاں سے میٹرك تك تعلیم حاصل كرنے كے بعد جامعہ اسلامیہ جامعہ آباد بھٹکل میں داخلہ لیا، جامعہ سے فراغت كے بعد مشہور عالمی درسگاہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے ۱۹۶۷ میں سندِ عالمیت حاصل كی، فراغت كے بعد كا كچھ عرصہ اپنی مادرِ علمی میں تدریسی خدمات انجام دے كر گزارا ، آپ كی زندگی كا مختصر عرصہ مدراس میں بھی گزرا جہاں پر آپ نے مولانا كمپنی میں ملازمت اختیار كی، جس كے بعد آپ نے اپنے آپ كو مرکزبنگلہ والی مسجد نظام الدین دہلی میں دعوتی وتبلیغی خدمات کے لئے وقف کردیا تھا.
مولانا علیہ الرحمہ كی شخصیت حسن و خوبی کے رنگارنگل پھولوں کا حسین گلدستہ تھی، علم وعمل، اخلاص وللہیت، بزرگوں سے نسبت، فقاہت ونجابت اورحق گوئی و راست بازی، آپ كے اوصافِ حمیدہ تھے، جس میں بہت نمایاں وصف حسن عمل، تبلیغ و دعوت اور جہد مسلسل تھا، آپ دیكھنے میں ایك عام انسان نظر آتے لیکن عادات اور صفات میں ملكوتی خصوصیات پائی جاتی تھیں، آپ صلاح وتقوی كی چلتی پھرتی تصویر تھے، اس لیے كہ آپ انسانی بلندی کی تمام معیاروں پر پورا اترتےتھے، اخلاص و بے نفسی اور بے غرضی ان کی زندگی کا جوہر اور ان کے تمام اعمال و مساعی کا محرک تھا، مزاج میں اعتدال تھا، طبیعت میں شرافت تھی، چہرہ ہنس مکھ تھا، تصنع و بناوٹ سے کوسوں دور تھے ، سب كو چاہتے ، سب سے محبت فرماتے، ملاقاتیوں سے میٹھے بول بولتے، ظاہر و باطن میں یكسانیت ركھتے، آپ كے بیانات انتہائی مؤثر ہوتے ، سامعین كے دلوں تك رسائی كرتے، گفتگو مربوط فرماتے، بولتے تو گویا موتی برساتے۔
تواضع و انكساری اور شہرت پسندی سے ہمیشہ اجتناب کرتے, آپ ایسی عظیم صفات کےمالک تھے,جو انسان كو عند اللہ اور عند الناس مقبول بنا دیتی ہیں، آپ كی شخصیت كا كمال تھا كہ كبھی كسی نے آپ سے اختلاف نہیں كیا، قدرت نے آپ کو خوبیوں کاعطر مجموعہ بنایا تھا، بے حد محنتی تھے، مخلص و داعی تھے، عظیم مربی تھے، جذبہ صادق کے ساتھ دین کی خدمت اور اصلاحی دعوت کے لیے زندگی بھر کوشاں رہے۔ آپ نے ہمیشہ اعلائے کلمہ اللہ کے لیے كام كیا، دعوت وتبلیغ كے لیے ملك و بیرون ملک كے متعدد اسفار كئے، آپ كے سات بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ، ماشاء اللہ ساتوں عالم دین ہیں اور ان میں سے چھ عالمِ دین ہونے كے ساتھ ساتھ حافظِ قرآن بھی ہیں ، ساتھ ہی دونوں بیٹیاں بھی حافظِ قرآن ہیں اور مزید زہے نصیب یہ کہ آپ كے دونوں داماد بھی حافظ قرآن ہیں ۔
دعا ہے كہ اللہ تعالی حضرت کی بال بال مغفرت فرمائے ،اور جنت الفردوس میں اعلی سےاعلی مقام عطا فرمائے, اور پسماندگان كو صبر جمیل عطا فرمائے ۔آمین