قلندر کی بات.......
ــــــــــــــــ
ایک بھیک مانگتے ہوئے نوجوان کو دیکھ کر میں نے کہا کہ اچھے خاصے ہٹے کٹے ہو بھیک مانگتے ہوئے شرم نہیں آتی.... اس نے کہا صاحب شرم کرنے کا حق مجھ سے چھین لیا گیا ہے.... میری ہی طرح شہر کی سڑکوں پر انکار و تسلیم سے بے نیاز بھیک مانگتے ہوئے بچے جوان بوڑھے مردوں اور عوتوں کو آپ نے دیکھا ہوگا بعض کے علاؤہ یہ سبھی اپنی مرضی سے بھیک نہیں مانگتے اور نہ ہی انہیں شعور کہ دنیا میں کوئی مرضی نام بھی شئے ہے،
کسی کی ٹوٹی ہوئی ٹانگیں، کسی کے کٹے ہوئے بازو بھی آپنے دیکھے ہوں گے۔
یہ ان کی مرضی سے نہ ٹوٹے نہ توڑے گئے ، اور کٹے نہ کاٹے گئے ہیں بلکہ اپنی کمائی بڑھانے کے لئے ان کے پیدا کرنے والوں نے یا خریدنے والوں نے توڑ دئیے ہیں۔ یا کاٹ دئے ہیں
اگر کبھی ملنے کی توفیق ہو تو انسے پوچھئے گا ..... اگر آپ میں شرم ہوگی ہوگی تو..... انکی داستان الم سنکر آپکو اپنے مہذب معاشرے پر شرم آئے گی وہ بھی میری طرح اپنی مرضی سے بھیک نہیں مانگتے بلکہ انکے گردے بھی آپ جیسے زندگی کے اصل حقداروں کی قیمتی جان بچانے کے کام آئے ہیں۔
آپنے بھیک مانگنے ہوئے اندھے بھی دیکھے ہوں گے کبھی انسے بھی ملئے گا جنہوں نے اپنی زندگی تاریک کرکے کسی ایسے شخص کی زندگی کو روشن کیا ہوگا جسکا دنیا کے کاروبار دیکھنا ضروری تھا .
کبھی آپنے یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ کھیتوں میں نہ اگنے والے اور کسی کمپنی میں نہ بننے والے انسانی اعضاء وافر مقدار میں آتے کہاں سے ہیں.
صاحب.. ہم سبھی آزاد نہیں ہوتے بلکہ بندھوا یا غلاموں کی طرح پیدا ہی کسی کی بے چوں چرا خدمت گزاری اور مار کھانے کے لئے ہوتے ہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی بتا دیا جاتا ہے کہ یہ دنیا ان کی ہے جو انہیں روٹی دیتے ہیں، کپڑے دیتے ہیں اور انکا فٹپاتھ میں رہنا گورا کرلیتے ہیں ہم سے بہتر اوقات تو امیروں کے گھروں میں پلنے والے کتے اور بلیوں کی ہے جو انکے صوفوں پر بیٹھ سکتے ہیں جس کی اجازت ہمیں نہیں۔
ہم میں اور کیڑے مکوڑوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ کسی کام کے نہیں ہوتے اس لئے ان کو تلف کردیا جاتا ہے اور ہمیں زندہ صرف کام کرتے رہنے کی شرط پر رکھا جاتا ہے جب کام کے نہیں رہتے تو سانس بھی بند کردی جاتی ہے ہمارے باس ہوتے ہیں جو کڑی نظر رکھتے ہیں اس دلدل سے ہم مرکر ہی نکل پاتے ہیں۔ اور منسپلٹی والے ہماری تدفین یا انتم سنسکار کرکے ہماری زندگی بھر کی خدمات کا صلہ دیتے ہیں ۔
آپ تو پڑھے لکھے ہیں صاحب اخباروں میں اکثر پڑھتے ہونگے کہ فلاں علاقہ کی جھگیوں میں کس طرح آگ لگ گئ جھلس کر وہاں رہنے والے مر گئے.
اس تباہی کو میڈیا کوریج بھی اپنی ٹی آرپی بڑھانے کے لئے دیتا ہے یا کسی سیاسی مفاد کی غرض سے.
سب ختم ہوجانے کے بعد مخیر حضرات ان گندی بستیوں میں مدد لکیر پہچتے ہیں جب تک سانس چلتی ہے کوئی ہمدرد نظر نہیں آتا کیونکہ اسوقت وہاں پر میڈیا نہیں ہوتا کوئ فوٹو کھنچنے والا نہیں ہوتا ۔
ہماری فکر چھوڑئے صاحب... اپنے مہذب معاشرے کے ان نونہالوں کی فکر کیجئے جو محلے کے بچے غلط صحبت میں پڑکر مختلف قسم کے نشہ کے عادی ہوجاتے ہیں انکے والدین اصلاح کی تمام کوششیں کرکے تھک چکے ہوتے ہیں اور نشہ مکتی کیندر بھیجنے کی طاقت نہیں رکھتے ان بچوں کو کبھی نشہ کی طلب بیقرار کرتی ہے تو چوری کرتے ہیں یا تو مایوس ہوکر قسمت کو کوس رہے ہوتے ہیں رات کی سردی یا گرمی میں تاریک مسقتبل سے مایوسی انہیں سونے نہیں دیتی تو یہ زمین کا بوجھ کم کرنے کے لئے نکل پڑ تے ہیں گلی کوچوں میں کھڑی ہوئی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں سے پٹرول چرا کر سونگتے ہیں اور نیم بے ہوشی کی حالت میں سو جاتے ہیں یا پھر کسی موچی کی سلوشن کی ٹیوب چرا کر سونگتے ہیں اور نتیجے میں رفتہ رفتہ اہپنے علاقے سے دور خود کی زندگی کا چراغ بجھا کر زمین کا بوجھ کم کردیتے ہیں تاکہ انکے حصہ کی آشائسیں آپکے کام آئیں بہت کم ہیں جنہوں نے آپکو اپنے تدفین کی بھی زحمت دی ہوگی یہ کام بھی سرکاری محکمہ کردیتا ہے بعض تو ایسی جگہ مرتے ہیں کہ کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی اور اسکی لاش پر کتے دعوت اڑانے ہیں۔
میں نے صرف یہ بتانے کے لئے آپکا قیمتی وقت ضائع کیا ہے کہ اپنے مہذب معاشرے کے بچوں کو بچا لیجئے یہ کمپنوں اور کارخارنوں میں آپکی خدمت گزاری کرینگے اگر آپنے انکو صحیح تعلیم اورتر بیت گاہ فراہم کردی تو ملک اور قوم کا روشن مستقبل تعمیر کریں گے .اور یہ کام آپکے حق میں قیمتی زخیرہ آخرت ہوگا.