اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: آفتاب علم وعرفاں کی رحلت!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday, 12 July 2018

آفتاب علم وعرفاں کی رحلت!

امیر سندھی المعلم بمدینۃ العلوم گاگریا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سلطان العلماء، سید الصلحاء، مخدوم الطلبہ، مفکر ملت، فخر گجرات اوراللہ تعالی کے پر اسرار بندے حضرت اقدس مولانا عبداللہ رئیس کاپودروی نوراللہ مرقدہ رحلت فرما گئے۔ إنالله وإنا اليه راجعون۔ علم و معرفت كا كوه ہمالیہ، روشنی نور کا بلند مینار،  محنت لگن کا کوہ گراں، نورانی فکر،خیالات،سوچ اور عقائد کا حامل۔ سراپا نور آج نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ سب دل سے مانگیں اور زبان سے پکاریں۔ اللهم لا تحرمنا اجره ولا تفتنا بعده۔آٹھ دہائیوں کی مسلسل محنت۔ سالوں کی مخلص امارت۔ہزاروں علما کے بےلوث مربی۔ سینکڑوں بے آسرا کے نایاب آسرا، فیوض برکات اور ایمانی انوار کی چلتی پھرتی تصویر، اونچی نسبتوں کا امین، حسن انتظام کا یکتائے زمانہ۔ آہ چل بسا إنالله وإنا اليه راجعون۔
کڑے سفر کا تھکا مسافر تھکاہے ایسا کہ سوگیاہے
خود اپنی آنکھیں تو بند کرلیں ہزاروں آنکھیں بھگو گیا۔
آپ کی خدمات بے شمار، آپ کے کارنامے ان گنت آپ کی فتوحات بے مثال آپ کا طرز حیات لاجواب اس مختصر مضمون میں کیا لکھوں اور کیا چھوڑوں۔ آپ جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ہم بجاطور پر فخر کرسکتے ہیں کہ ہم نے مفکر ملت کی لقاء کا لطف اٹھایا، آپ کے علوم ومعارف سے خوشہ چینی کی۔ آپ ان کمیاب ہستیوں میں سے تھے جو سراپا دعوت ہوتے ہیں۔ جو بھی آپ کی مجلس میں حاضر ہوا کرتا، وہ علم دوستی سے سرفراز ہوتا،  معرفت کا مشتاق ہوتا۔ آہ ایسا نایاب چراغ گل ہوگیا۔ إنالله وإنا اليه راجعون۔
امت مرحومہ پہلے ہی قحط الرجال کی شکار ہے۔ ایسے میں حضرت کی رحلت سے وہ خلا پیدا ہوا ہے جو کبھی پر نہیں ہوسکتا۔ آپ چوٹی کے کبار علما میں سے تھےـ ملک وبیرون ملک آپ علماء کے حلقے میں احترام کی کی نظر سے دیکھے جاتے تھےـ آہ آج ایک مقبول،معتبر معروف و مشہور وسیع الفکر. شخصیت اورعالم دین ـ دنیا بھر میں پھیلے ہزاروں شاگردوں کے استاذ لاکھوں مسلمانوں کا دھڑتا دل کئی اداروں کا خیر خواہ رخصت ہوگیاـ إنالله وإنا اليه راجعون۔
؁۱۳۵۲ہجری میں برما جیسے پس ماندہ علاقے میں آنکھیں کھولنے والا بچہ، کسے معلوم تھا کہ ان مٹ نقوش چھوڑ کر رخصت ہوگا۔رہتی دنیا تک یاد کیا جاتارہے گاـ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل اور دارالعلوم دیوبند سے تکمیل تعلیم کے بعد جب آپ کو فلاح دارین ترکیسر میں خدمت کا میدان ہاتھ آیا تو آپ کی خدمات نے عروج پایا۔ آپ نے اپنی محنت، کوشش، اور فکروکرب سے فلاح دارین کو عروج بخشاـ
آپ نے بڑی صعوبتیں اٹھا کر چیدہ چیدہ نابغۂ روزگار شخصیات کو بڑی مشکل سے مدرسہ میں جمع فرمانے میں کامیاب ہوگئے تھےـ آپ کا نظریہ تھا کہ طلبہ میں تعلیمی، تدریسی اور فکری بیداری فنی اساتذہ ہی کرسکتے ہیں۔ اسی بناپر آپ اساتذہ کے چناؤ میں باریک بینی سے کام لیا کرتے تھےـ
آپ طلبہ مدارس کے ساتھ ساتھ عصری علوم کے طلبہ کا خاص خیال فرماتے، اسکول کالج کے نصاب پر عقابی اور کڑی نظر رکھتے اور متعلقین کو حکم فرماتے. شکوک وشبہات اورباطل افکار ونظریات پر کتابیں لکھواتےـ ذہنی نشو نما خود اعتمادی اور یقین وایمان کو مضبوط کرنے والے رسائل شائع فرماکر امت کے نوجوانوں کے ایمان ویقین کی حفاظت فرماتے. فجزاہ اللہ خیر الجزا
یہ آپ ہی کی محنت کا ثمرہ کہ فلاح دارین ترکیسرگجرات کے قراء صرف صوبے میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں انفرادیت اور منفرد لب ولہجہ کی بناپر جانے وپہچانے جاتے ہیں۔ اور انہوں نے پوری دنیا میں شوق وذوق کی آگ بھڑکا رکھی ہےـ آپ کی کشادہ فکری وسیع الظرفی تھی کہ آپ تمام مدارس کے طلبہ کو اپنی روحانی اولاد تصور فرماتے۔ صرف مدرسے کی چار دیواری تک آپ کی تربیت محدود نہ تھی بلکہ فراغت کے بعد بھی طلبہ سے ربط رکھتے، عمدہ نصائح، مفید مشوروں سے نوازتے رہتے۔ جو آپ سے ملتا وہ خود کو حضرت کا سب سے قریبی سمجھتا۔ آج کئی لوگ ان سے قربت کا دعوی کررہے یہ ان کی اسی فیاضی اور دریا دلی کا نتیجہ ہے۔
ہماری خوش نصیبی کہ کئی مواقع پر حضرت کی مجلس میں شرکت کا سنہرا موقع ملا۔ آپ کو عربی ادب سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ یہ سب شیخ مصری کی تربیت اور حضرت کے باکمال حافظے کا کمال تھا۔ دورجاہلیت اوراسلامی ادوارکے سینکڑوں اشعار سورہ فاتحہ کی طرح ازبر تھے۔ عربی ادبی نثری شہ پارے برجستہ سناتے جاتے تھے۔ ایک مجلس میں عربوں کی پرانی فطری طرز حیات، دیہاتی زندگی اور صحرائی سادگی کا والہانہ تذکرہ فرمایا۔
جس نے بھی آپ کو دیکھا اپنی سوچ سے بلند پایا، اہل علم نے اپ کی منقبت بیانی کو اپنی سعادت سمجھا، عرب کے بعض علماء آپ کی شخصیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ صفحات کہ صفحات لکھ مارے۔ آپ کا محبوب مشغلہ، دلچسپ کام کتب بینی، مطالعہ کی دعوت تھا۔
آپ نے درجنوں کتابیں تصنیف فرمائی۔ کئی ممالک کو اپنی سجدہ گاہ بنایا،ہر جگہ دین، شریعت کی بات چلاتے۔ ان اسفار کے اہم ترین فوائد میں سے ایک نادر کتب کی ذخیرہ اندوزی ہے۔ آپ کا مکتبہ وسیع، اپنی مثال آپ ہے۔کسی بھی موضوع پر آپ کو کئی اہم کتب مل جائے گی۔ آپ میں یہ بھی خوبی تھی کہ آپ دین متین کی آبیاری، اسلام کااحیاء چاہتے تھے، چاہے وہ کسی کے ہاتھ سے ہو۔ آپ اس بات پر مرغ بسمل کی طرح تڑپتے کہ امت میں رجال کار ناپید ہیں، آپ کی چاہت، تمنا یہ تھی کہ ہرطالب علم رازی وغزالی بنے۔
سب سے اہم بات کہ آپ نے وطنیت، لسانیت اور علاقائیت سے اوپر اٹھ کر جدوجہد کی۔ جی ہاں عصبیت، تعصب جیسے مہلک امراض سے حضرت پاک وصاف تھے۔ جس کی وجہ سے کئی نامور ہستیاں عضو معطل بن کر رہ گئی۔  حضرت کے صرف یہی خصوصیت آپ کے بطل عظیم ہونے کی زندہ وجاوید دلیل ہے۔
اختلافات میں اعتدال مخالفین کی رائے کا احترام اختلاف کے باوجود محبت و اپنائیت آپ ہی کے حصے میں آتی ہے۔ غیبت، جھوٹ،  کینہ، بغض اورحسد جیسے مہلک امراض سے تنفر دوری،  ہر عام وخاص سے اپنائیت،  میل میلاپ، تنگی و ترشی میں بھی مہمان نوازی اور دریا دلی، متعلقین و متوصلین کے عیوب سے درگزر اور خوبیوں پر نظر،  اور کھلے دل سے اعتراف آپ ہی کو ملا تھا۔ مصائب، آلام اور تکالیف پر صبر شکر،  نامساعد حالات سے دل گرفتہ نہ ہونا، سنگین احوال سے راہیں نکالنا،  کینسر جیسے موذی مرض میں بھی استقامت پر رہنا،  رب کا شکر ادا کرنا واللہ بہت بڑی نعمت ہے۔
 دنیا بھر کے تمام مسلمانوں، اہل گجرات اور حضرت نوراللہ مرقدہ کے متعلقین اور اہل خانہ سے دلی تعزیت۔ اللهم لاتحرمنا لاتحرمنا أجره ولاتفتنا بعده واغفرلنا وله۔