" تخریب جنوں کے پردے میں، تعمیر کے ساماں ہوتے ہیں "
سمیع اللّٰہ خان
ksamikhann@gmail.com
ـــــــــــــــــــــــــ
چونکہ ۲۰۱۹ کے الیکشن قریب آرہے ہیں، اور ہم مسلمان اس ملک میں امن و امان اور سیکولرزم کے ٹھیکیدار ہیں، اس لیے اس حادثے کو زیادہ سنجیدگی سے نا لیں، ویسے بھی ہجومی دھشتگردی " موب لنچنگ " کو ہم عملاً بسروچشم قبول کربھی چکےہیں، لوجہاد، گائے ماتا بچہ چوری، ڈاڑھی ٹوپی اور طرح طرح کے عنوانات کی بنیاد پر ادھر کئی سالوں سے ہمارے عام نوجوان، حفاظ و علما، مزدور و مسافر اور تعلیمیافتہ افراد، سینکڑوں کی تعداد میں سربازار ذبح کیے جاچکے ہیں، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر آئین و سسٹم کی سترسالہ حمالی نے مسلمانوں کو تحفے میں یہی دینا بھی تھا، گنگا جمنی تہذیب اور امن پسندی کی غیر فطری اور غیر واقعی نعروں کے علمبرداروں کا حال اس کے سوا، اور کیا ہوگا؟
اپنی قوم کے پست اور بدترین حیثيت میں دھکیل دیے جانے کے لیے اگر اس کی سیاسی خودکشی اور تعلیمی، تہذیبی و تمدنی پستی کا احساس آپ کو نہیں ہوتا تو کم از کم اسے محسوس کیجیے، کہ، دنیا کی سب سے بڑی جمھوریت میں دسیوں قوموں کے درمیان بسنے والی ایک کمیونٹی کے افراد کو، اس ملک میں قیام جمھوریت کے ستر سال بعد دن دہاڑے چن چن کر ان کی قومیت کی بنیاد پر قتل کرنے کا چلن معمول کے واقعات میں سے ہوتا جارہاہے، کیا آپ اپنی اس ذلت آمیز شناخت کو محسوس کررہے ہیں؟
اگر محسوس کرتے ہیں تو اس احساس کا اثر کہاں ہیں؟ قائدین آخر اس مسئلے پر ملک گیر اقدامات سے کیوں گریز کررہےہیں؟ آج آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی دہلی میں میٹنگ ہوئی ہے، ان سے پوچھنا ہے ہمیں کہ کیا آج آپ کی میٹنگ میں مسلمانوں کی پرسنل لائف پر عذاب بنے ہوئے ہجومی دہشتگردی پر رسمی ہی سہی چرچا ہوئی؟ جمعیۃ اور جماعت اسلامی کے ارباب بھی وہاں موجود تھے، ان سے بھی یہی پوچھنا ہیکہ اب تک ہجومی دہشتگردی کے شکار ہوچکے ہمارے نوجوانوں کے لیے کوئی اقدامی اعلان ہے آپکے پاس؟؟
آج ہم براہ راست اپنی قیادت سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہوچکےہیں، اس قومی زندگی کے حساس ایشو پر ان کی رسمی اور رواداری والی پالیسیاں اب قوم کی سمجھ سے بالاتر ہے، کیوں کہ ہجومی دھشتگردی جیسا مسئله بالکل واضح طور پر عیاں ہے، اس سے ایک طرف تو قومی شناخت بدترین ہورہی ہے، بلکہ ہوچکی ہے، جہاں دس لوگ مل کر کسی کو پیٹ رہے ہوں تو اب عام احساس یہی ہوتاہے کہ کوئی مسلمان ہوگا، کیا ہمارے ارباب نہیں جانتے کہ آج سے صرف ۱۰۰ سال پہلے تک ایسی شناخت شودر کہی جانے والی آبادی کی تھی، یقینًا آپ جانتے ہوں گے کہ یہ شودر اب دلتوں کے نام سے جانے جاتے ہیں، اور ان دلتوں کی موجودہ صورتحال، ان کی لیڈرشپ، ان کی ارتقائی سرگرمیاں بھی یقینًا ہماری نظروں میں ہوں گی، تو کیا آپ موازنہ کرسکتےہیں موجودہ مسلمانوں اور دلتوں کا؟ یقین ہے کہ ضرور کرینگے، اور دنیا کو بتلائیں گے کہ شودروں کی صف میں اب کون ہے؟
علما اور فقہا سے بھی امید کرتےہیں کہ وہ قوم کو ضرور رہنمائی کرینگے کہ، ہجومی دھشتگردی کو کن قرآنی احکام کے تحت برداشت کرنا ہے؟ سیرت و سنت اور صحابہ و اسلاف کی تعلیمات کے تحت کتنی قسم کی مصلحتیں اس برداشت کے پیچھے کارفرما ہیں؟ ہماری معروضات پڑھ لینے کے باوجود، ملت کی مسلسل گہار کے باوجود اسلاف و اسلام کے موجودہ جانشین کن پالیسیوں کے تحت چپ کا، لبادہ اوڑھ کر یا پھر کبھی درویشانہ شان و انداز سے ان حقیقی ایشوز پر عقیدت کی چادر تان دیتےہیں؟ امید ہیکہ جواب آئے گا، کیوں کہ اب یقینی صورتحال بھی نظر آرہی ہے ۔
*تازہ ترین واردات کرناٹک کی ہے جہاں محمد اعظم نامی سافٹ وئیر انجنیئر کو ہلاک کردیاگیا، اور اس کے دو ساتھی حیدرآباد ہسپتال میں زیر علاج ہیں .* حالت نازک ہے.
پولیس نے بتایا کہ حیدرآباد کے رہائشی محمد اعظم اپنے دو ساتھی طلحہ اسماعیل اور محمد سلمان کے ساتھ ہانڈیکھیڑا گاؤں کے لیے نکلا تھا. گاؤں میں مقیم اسکے دوست محمد بشیر کے بلاوے پر یہ تینوں وہاں پہنچے تھے.
جب گاؤں میں داخل ہوئے تو تینوں نے ایک دکان سے چاکلیٹ لیکر انہیں کچھ بچوں میں تقسیم کیا. مقامی لوگوں نے اس پر اعتراض کیا، لیکن بات چیت کے بعد چھوڑ دیا.
اسی دوران امر پٹیل اور اس کے ساتھیوں نے ان تینوں کی تصویر ان کی گاڑی سمیت لی اور وہاٹس ایپ پر ڈال دی، بچہ چوری کے ٹیگ سمیت!
پولیس نے بتایا کہ جب یہ تینوں حیدرآباد واپسی کے لیے نکلے تو مُرکی گاؤں میں مقامی افراد نے انکا گھیراؤ کیا. یہ گھیراؤ ہانڈی کھیڑا کے مقامی بانشدے کے ذریعے واٹسآپ پر وائرل کی گئی ایک تصویر کی وجہ سے ہوا جس میں دکھایا گیا کہ یہ تینوں بچہ چور ہیں اور بچوں کو چاکلیٹ تقسیم کر رہے ہیں.
تینوں کو گھیر کر نشانہ بنایاگیا
محمد اعظم کو ہسپتال میں مردہ قرار دے دیا گیا جبکہ دیگر دو افراد جو شدید زخمی ہوے تھے انھیں علاج کے لئے حیدرآباد منتقل کردیا گیا ہے .
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ڈی دیوراج نے بتایا کہ اس واقعہ کے پیچھے ایک گروپ میں پھیلایا گیا واٹسایپ پیغام ہے. اس کے پیچھے منوج اور امر نامی ۲ لوگ تھے،
دیوراج نے کہا کہ حملہ آوروں کی شناخت انٹرنیٹ پر پھیلائے گئے واردات کے ویڈیوز سے ہوئی .
اس دھشتگردی میں کئی جھنجھوڑ دینے والے پہلو ہیں:
کیا اب معصوم بچوں کے ساتھ شفقت و محبت بھی نفرتوں کے بھینٹ چڑھ جائے گی؟
کیا کچھ لوگ چھوٹے بچوں سے کترانے لگ جائیں گہ، کہ، مبادا بھیڑ کا شکار نا ہوجائیں!
اور کیا انجینئر جیسے تعلیمیافتہ افراد بھی اب خوف و تعصب کی نفسیات میں جئیں گے؟
جن کے لیے کچھ نہیں، جنہیں ایسے مسائل پر دیگر دیرپا حل کی تلاش ہے یقینًا مستحسن ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہ فوری طور پر حل طلب ایک قومی شناخت پر مبنی ہنگامی قومی قضیہ ہے، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ، آج سے پہلے کب اور کن کن کے ساتھ ایسے مظالم پیش آئے ہیں، ہم اپنی قوم کے تئیں. زیادہ حساسیت رکھتےہیں اسلیے عرض پرداز ہیں، کیونکہ قوم پسند ہونا بھی مطلوب اور محمود ہے ۔
یہ لاش بھی اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گئی ہے، احساس کمتری اور احساس جرم کو عام کرگئی ہے، لازمی طور پر یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ جہاں ان واقعات سے خوف و ہراس اور کمتری کا احساس ہمارے نوجوانوں میں عام ہورہاہے، وہیں انتقامی جرم کی نفسیات بھی پنپ سکتی ہے، خدانخواستہ " موب لنچنگ " کا کوئی ردعمل سامنے آتاہے تو اسے روکنا بہت مشکل ہوجائے گا، کیوں کہ ایسی صورتوں میں ظالموں کے ساتھ ان کے خاموش مؤیدین کے بھی گریبان متاثر ہوجاتے ہیں، ائے کاش وقت رہتے ہمارے ارباب حل وعقد اس حساسیت پر ٹھوس اقدامات کریں،
کیوں کہ ظلم بطور جرم جب عام ہوتاہے تو اس کا انجام ظالموں کے ساتھ سبھی کے لیے تخریبی ہی سہی خطرناک ہوتا ہے ۔ اور شاید اسی واسطے کہا گیا ہے:
تخریب جنوں کے پردے میں تعمیر کے ساماں ہوتے ہیں.
سمیع اللّٰہ خان
ksamikhann@gmail.com
ـــــــــــــــــــــــــ
چونکہ ۲۰۱۹ کے الیکشن قریب آرہے ہیں، اور ہم مسلمان اس ملک میں امن و امان اور سیکولرزم کے ٹھیکیدار ہیں، اس لیے اس حادثے کو زیادہ سنجیدگی سے نا لیں، ویسے بھی ہجومی دھشتگردی " موب لنچنگ " کو ہم عملاً بسروچشم قبول کربھی چکےہیں، لوجہاد، گائے ماتا بچہ چوری، ڈاڑھی ٹوپی اور طرح طرح کے عنوانات کی بنیاد پر ادھر کئی سالوں سے ہمارے عام نوجوان، حفاظ و علما، مزدور و مسافر اور تعلیمیافتہ افراد، سینکڑوں کی تعداد میں سربازار ذبح کیے جاچکے ہیں، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر آئین و سسٹم کی سترسالہ حمالی نے مسلمانوں کو تحفے میں یہی دینا بھی تھا، گنگا جمنی تہذیب اور امن پسندی کی غیر فطری اور غیر واقعی نعروں کے علمبرداروں کا حال اس کے سوا، اور کیا ہوگا؟
اپنی قوم کے پست اور بدترین حیثيت میں دھکیل دیے جانے کے لیے اگر اس کی سیاسی خودکشی اور تعلیمی، تہذیبی و تمدنی پستی کا احساس آپ کو نہیں ہوتا تو کم از کم اسے محسوس کیجیے، کہ، دنیا کی سب سے بڑی جمھوریت میں دسیوں قوموں کے درمیان بسنے والی ایک کمیونٹی کے افراد کو، اس ملک میں قیام جمھوریت کے ستر سال بعد دن دہاڑے چن چن کر ان کی قومیت کی بنیاد پر قتل کرنے کا چلن معمول کے واقعات میں سے ہوتا جارہاہے، کیا آپ اپنی اس ذلت آمیز شناخت کو محسوس کررہے ہیں؟
اگر محسوس کرتے ہیں تو اس احساس کا اثر کہاں ہیں؟ قائدین آخر اس مسئلے پر ملک گیر اقدامات سے کیوں گریز کررہےہیں؟ آج آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی دہلی میں میٹنگ ہوئی ہے، ان سے پوچھنا ہے ہمیں کہ کیا آج آپ کی میٹنگ میں مسلمانوں کی پرسنل لائف پر عذاب بنے ہوئے ہجومی دہشتگردی پر رسمی ہی سہی چرچا ہوئی؟ جمعیۃ اور جماعت اسلامی کے ارباب بھی وہاں موجود تھے، ان سے بھی یہی پوچھنا ہیکہ اب تک ہجومی دہشتگردی کے شکار ہوچکے ہمارے نوجوانوں کے لیے کوئی اقدامی اعلان ہے آپکے پاس؟؟
آج ہم براہ راست اپنی قیادت سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہوچکےہیں، اس قومی زندگی کے حساس ایشو پر ان کی رسمی اور رواداری والی پالیسیاں اب قوم کی سمجھ سے بالاتر ہے، کیوں کہ ہجومی دھشتگردی جیسا مسئله بالکل واضح طور پر عیاں ہے، اس سے ایک طرف تو قومی شناخت بدترین ہورہی ہے، بلکہ ہوچکی ہے، جہاں دس لوگ مل کر کسی کو پیٹ رہے ہوں تو اب عام احساس یہی ہوتاہے کہ کوئی مسلمان ہوگا، کیا ہمارے ارباب نہیں جانتے کہ آج سے صرف ۱۰۰ سال پہلے تک ایسی شناخت شودر کہی جانے والی آبادی کی تھی، یقینًا آپ جانتے ہوں گے کہ یہ شودر اب دلتوں کے نام سے جانے جاتے ہیں، اور ان دلتوں کی موجودہ صورتحال، ان کی لیڈرشپ، ان کی ارتقائی سرگرمیاں بھی یقینًا ہماری نظروں میں ہوں گی، تو کیا آپ موازنہ کرسکتےہیں موجودہ مسلمانوں اور دلتوں کا؟ یقین ہے کہ ضرور کرینگے، اور دنیا کو بتلائیں گے کہ شودروں کی صف میں اب کون ہے؟
علما اور فقہا سے بھی امید کرتےہیں کہ وہ قوم کو ضرور رہنمائی کرینگے کہ، ہجومی دھشتگردی کو کن قرآنی احکام کے تحت برداشت کرنا ہے؟ سیرت و سنت اور صحابہ و اسلاف کی تعلیمات کے تحت کتنی قسم کی مصلحتیں اس برداشت کے پیچھے کارفرما ہیں؟ ہماری معروضات پڑھ لینے کے باوجود، ملت کی مسلسل گہار کے باوجود اسلاف و اسلام کے موجودہ جانشین کن پالیسیوں کے تحت چپ کا، لبادہ اوڑھ کر یا پھر کبھی درویشانہ شان و انداز سے ان حقیقی ایشوز پر عقیدت کی چادر تان دیتےہیں؟ امید ہیکہ جواب آئے گا، کیوں کہ اب یقینی صورتحال بھی نظر آرہی ہے ۔
*تازہ ترین واردات کرناٹک کی ہے جہاں محمد اعظم نامی سافٹ وئیر انجنیئر کو ہلاک کردیاگیا، اور اس کے دو ساتھی حیدرآباد ہسپتال میں زیر علاج ہیں .* حالت نازک ہے.
پولیس نے بتایا کہ حیدرآباد کے رہائشی محمد اعظم اپنے دو ساتھی طلحہ اسماعیل اور محمد سلمان کے ساتھ ہانڈیکھیڑا گاؤں کے لیے نکلا تھا. گاؤں میں مقیم اسکے دوست محمد بشیر کے بلاوے پر یہ تینوں وہاں پہنچے تھے.
جب گاؤں میں داخل ہوئے تو تینوں نے ایک دکان سے چاکلیٹ لیکر انہیں کچھ بچوں میں تقسیم کیا. مقامی لوگوں نے اس پر اعتراض کیا، لیکن بات چیت کے بعد چھوڑ دیا.
اسی دوران امر پٹیل اور اس کے ساتھیوں نے ان تینوں کی تصویر ان کی گاڑی سمیت لی اور وہاٹس ایپ پر ڈال دی، بچہ چوری کے ٹیگ سمیت!
پولیس نے بتایا کہ جب یہ تینوں حیدرآباد واپسی کے لیے نکلے تو مُرکی گاؤں میں مقامی افراد نے انکا گھیراؤ کیا. یہ گھیراؤ ہانڈی کھیڑا کے مقامی بانشدے کے ذریعے واٹسآپ پر وائرل کی گئی ایک تصویر کی وجہ سے ہوا جس میں دکھایا گیا کہ یہ تینوں بچہ چور ہیں اور بچوں کو چاکلیٹ تقسیم کر رہے ہیں.
تینوں کو گھیر کر نشانہ بنایاگیا
محمد اعظم کو ہسپتال میں مردہ قرار دے دیا گیا جبکہ دیگر دو افراد جو شدید زخمی ہوے تھے انھیں علاج کے لئے حیدرآباد منتقل کردیا گیا ہے .
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ڈی دیوراج نے بتایا کہ اس واقعہ کے پیچھے ایک گروپ میں پھیلایا گیا واٹسایپ پیغام ہے. اس کے پیچھے منوج اور امر نامی ۲ لوگ تھے،
دیوراج نے کہا کہ حملہ آوروں کی شناخت انٹرنیٹ پر پھیلائے گئے واردات کے ویڈیوز سے ہوئی .
اس دھشتگردی میں کئی جھنجھوڑ دینے والے پہلو ہیں:
کیا اب معصوم بچوں کے ساتھ شفقت و محبت بھی نفرتوں کے بھینٹ چڑھ جائے گی؟
کیا کچھ لوگ چھوٹے بچوں سے کترانے لگ جائیں گہ، کہ، مبادا بھیڑ کا شکار نا ہوجائیں!
اور کیا انجینئر جیسے تعلیمیافتہ افراد بھی اب خوف و تعصب کی نفسیات میں جئیں گے؟
جن کے لیے کچھ نہیں، جنہیں ایسے مسائل پر دیگر دیرپا حل کی تلاش ہے یقینًا مستحسن ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہ فوری طور پر حل طلب ایک قومی شناخت پر مبنی ہنگامی قومی قضیہ ہے، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ، آج سے پہلے کب اور کن کن کے ساتھ ایسے مظالم پیش آئے ہیں، ہم اپنی قوم کے تئیں. زیادہ حساسیت رکھتےہیں اسلیے عرض پرداز ہیں، کیونکہ قوم پسند ہونا بھی مطلوب اور محمود ہے ۔
یہ لاش بھی اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گئی ہے، احساس کمتری اور احساس جرم کو عام کرگئی ہے، لازمی طور پر یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ جہاں ان واقعات سے خوف و ہراس اور کمتری کا احساس ہمارے نوجوانوں میں عام ہورہاہے، وہیں انتقامی جرم کی نفسیات بھی پنپ سکتی ہے، خدانخواستہ " موب لنچنگ " کا کوئی ردعمل سامنے آتاہے تو اسے روکنا بہت مشکل ہوجائے گا، کیوں کہ ایسی صورتوں میں ظالموں کے ساتھ ان کے خاموش مؤیدین کے بھی گریبان متاثر ہوجاتے ہیں، ائے کاش وقت رہتے ہمارے ارباب حل وعقد اس حساسیت پر ٹھوس اقدامات کریں،
کیوں کہ ظلم بطور جرم جب عام ہوتاہے تو اس کا انجام ظالموں کے ساتھ سبھی کے لیے تخریبی ہی سہی خطرناک ہوتا ہے ۔ اور شاید اسی واسطے کہا گیا ہے:
تخریب جنوں کے پردے میں تعمیر کے ساماں ہوتے ہیں.