امیر سندھی
ـــــــــــــــــ
اس کی نئی زندگی میں کوئی سہارا نہیں تھا۔ وہ ماں باپ، بھائیوں اور بہنوں سے دور تھی۔ یہاں جسے آشنا ہوناتھا، وہی بیزار تھا۔ جس سے ماں کی ممتا کی بو آنی تھی، وہی سب سے بڑی حریف تھی، جن کے ساتھ خالی لمحے بتانے تھے وہ نندیں اس کے تصور اور عکس تک سے جل بھن جایا کرتی تھی۔ ایسے وقت میں اللہ کی طرف سے بچی کا تحفہ۔ کڑکتی دھوپ میں سائے کے مترادف تھا۔ تلخ زندگی میں امید کی کرن، ظلم وجبر کے گھپ اندھیرے میں امید سحر۔
اس کی کل کائنات سمیہ تھی۔ سورج بھی اسی پر طلوع ہوکر غروب ہوتا تھا۔ اس کی چہک، معصوم ادائیں اسے جنت کا احساس دلاتیں۔ زندگی نے پھر نئے سرے سے راہ پکڑی تھی، وہ بھی وحشت، بوریت سے اوب چکی تھی، نئی دنیا وہ دیکھنا چاہتی تھی۔ دن، ہفتے، مہینے اور سالیں گزرتی نہیں بلکہ دوڑتی محسوس ہونے لگی۔ اب شہزادی کے کان رس بھری قلقاریوں، توتلی باتوں سے لطف اندوز ہونے لگے تھے۔
ایک صبح شہزادی نے محسوس کیا کہ اس کی کلی میں پہلی سی راعنائی نہیں، بجھی بجھی لگ رہی، کچھ ہی دیربعد سمیہ درد اور بخار سے بے آب مچھلی کی طرح تڑپنے لگی۔ وہ ہاتھ پیر مارنے لگی مگر لاچارعورت کیا کرسکتی تھی، بچی کا ابو بہت دور تھا گر قریب بھی ہوتا تو بھی اس سے ہمدردی کی توقع نہ تھی۔ اس نے ساس کے گھر کا رخ کیا، امید تو نہ تھی مگر سوچا کہ ہوسکتاہے کہ اپنے جگر پارے کو تڑپتا دیکھ کر دل پسیج جائے۔مگر شہزادی کو دیکھتے ہیں ساس کا پارا ساتویں آسمان پر تھا، ان باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا کہ ننی منی سمیہ آخری سانسیں لے رہی۔ بروقت علاج نہ ہوا تو خطرہ ہے۔ بد بخت ساس بہو کو دھکیلنے لگی، وہ لڑ کھڑائی بچی اس کے ہاتھوں سے نکل کر فرش پر جا گری۔ ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی،. پھر خاموشی چھا گئی۔
شیطان سنگ ہاسپٹل میں آج کچھ زیادہ ہی گہما گہمی تھی، ویسے روز ہی یہاں یہی سماں رہتا ہے۔ یہ ہاسپٹل اور اس کے معروف سرجن بھنور لال چانکیہ دنیا بھر میں جانے پہنچانے ہیں، ان کی شہرت دور دور تک ہے۔ وزیر، مشیر، بڑے ساہوکار اور سرمایہ داروں کا رخ اکثر انہیں کی طرف ہوتاہے۔ آج سری مان منتری راجوسنگھ بھوانی ایڈ منٹ ہوئے ہیں۔ ان کے دونوں گردے کثرت مئے نوشی سے بیکار ہوچکے۔ ان کی زندگی بچانے کے لیے جلد گردے اور بلیڈ کا انتظام ازحد ضروری تھا۔
شہزادی نے اپنی نور نظر کو اٹھایا جو بیہوش ہوچکی تھی، ہاسپٹل کا رخ کیا۔ چپراسیوں کی جھڑکیاں، نرسوں کے دھکے، ناپاک خبیثوں کی غلیظ نظروں سے گزر کر وہ ڈاکٹر تک پہنچ ہی گئی۔
ڈاکٹر نے پوچھ تاچھ کی، بچی کا معاینہ کیا، مالی حیثیت کی جانکاری کے ساتھ ساتھ ورثاءکی بے رخی اور شہزادی کے رتبے اور معاشرے میں مقام تک جان گیا۔ بے اختیار وحشت بھری مسکراہٹ ہونٹوں پر پھیل گئی۔ مشکل سے طبیعت پر قابو پاکر ڈاکٹر نے بناوٹی انداز میں کہا، افسوس کہ آپ کی نور نظر ایک مہلک مرض کا شکار ہے، آپریشن ہی آخری امید ہے، جس کا خرچ کم سے کم رعایتی ۵ لاکھ ہے۔ پانچ لاکھ کا سن اس کے تو حواس ہی گم ہوگئے، اس کی آنکھوں کے سامنے موت رقص کررہی تھی، اپنی اکلوتی بیٹی موت کے منہ صاف طور پر نظر آرہی تھی۔ ڈاکٹر جسودا کو کوڈورڈ کے سہارے مشن سمجھاکر سرک گیا۔ تجربہ کار جسودا نےاپنائیت بھرے لہجے میں کہا، بہن رونے، دھونے سے کچھ نہیں ہوگا، جلد انتظام کریں، بچی کو گر بچاناہے تو کچھ کریں۔ شہزادی نے روتے ہوئے کہا پانچ لاکھ تو دور مجھ میں پانج ہزار تک کی ہمت نہیں ہے۔ واقعی آپ بچی کو بچانے کی خواہاں ہیں تو ایک اور بھی راہ ہے۔ بتائیں وہ کیا ہے؟ آپ اپنا ایک گردہ فروخت کردیں، پانچ لاکھ مل جائیں گے، بچی بھی بچ جائے گی۔ اس میں کوئی نقصان جیسی بات بھی نہیں۔ دنیا میں لاکھوں لوگ ایک گردے سے طبعی زندگی گزار لیتے ہیں۔ تھوڑی پس وپیش کے بعد شہزادی مان گئی۔
منتری جی کا لال بھنور لال سے لجاجت بھرے لہجے میں مخاطب تھا، دس لاکھ کی جگہ بھلے بیس خرچ ہوجائیں، آپ جلد گردے اور بلیڈ کا انتظام کریں، پلیز، پلیز، پلیز، ڈاکٹر نے اسے تسلی دی، مطمئن کیا۔ کمرے کا آہنی کواڑ کھلا ساتھ ہی جسودا داخل ہوئی۔ جلد ہی ابن منتری کو الوداع کرکے جسودا کی اور دیکھا، اس ڈائن نے فاتحانہ مسکراہٹ سے سر سے نظر ملائیں، ڈاکٹر نے جلدی کا آڈر کیا اور خود آپریشن تھیٹر پہنچ گیا۔
شہزادی کا گردہ دس لاکھ کے عوض منتری جی کے کام آیا، سمیہ کےبلیڈ سے بھی کافی رقم وصول ہوئی، باقی اعضا محفوظ کر لیے گئے۔اور منتری جی نےشفایاب ہوکر گھر کی راہ لی۔ شہزادی کو یہ کہ کرمردہ لاش تھمادی گئی کہ افسوس آپریش کامیاب نہیں ہوا۔ ڈاکٹر نے دکھ بھرے لہجے میں کہا ہم شرمندہ ہیں کہ آپ کی بچی کو بچا نہ سکے، ہمیں معذور سمجھیں آج تک کوئی بھی اس مرض سے جان چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوا ہےحالانکہ سمیہ کو تو صرف بگڑا ہوا ملیریا تھا۔ لٹی پٹی شہزادی اپنی امیدوں کا جنازہ، اپنے حسین مستقبل کے خواب کی ارچیا، سمیٹے جارہی تھی۔ فرشتے لرزہ براندم تھے، درندے بھی بے بسی سے انسانوں سے کہ رہے تھے کہ سفاکی میں ہم انسانوں سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔
شیطانی دنیا میں فتح کا جشن تھا، وہ اپنی کامیابی پر فرحاں ونازاں تھے۔ طب جیسی خدمت کو انہونے بڑی کوششوں سے پیشہ بنادیا تھا، پھر اس پر رہزنی، ڈاکہ زنی، لوٹ کھسوٹ اور نفاق چھڑک کر معصوموں کے لیے دنیا کو جہنم کدہ بنادیا تھا، وہ خوش تھے کہ خود انسان ہی. دنیا میں طرح طرح کے وائیرس چھوڑتے ہیں، اور لوگوں کو تباہ کرتے ہیں۔سچ کہا تھا چاچو ابوزید فرضی نے کہ ڈاکٹر در اصل ڈاکوٹر تھا، کثرت ہسپتال کی وجہ سے ڈاکٹر ہوگیا۔
ـــــــــــــــــ
اس کی نئی زندگی میں کوئی سہارا نہیں تھا۔ وہ ماں باپ، بھائیوں اور بہنوں سے دور تھی۔ یہاں جسے آشنا ہوناتھا، وہی بیزار تھا۔ جس سے ماں کی ممتا کی بو آنی تھی، وہی سب سے بڑی حریف تھی، جن کے ساتھ خالی لمحے بتانے تھے وہ نندیں اس کے تصور اور عکس تک سے جل بھن جایا کرتی تھی۔ ایسے وقت میں اللہ کی طرف سے بچی کا تحفہ۔ کڑکتی دھوپ میں سائے کے مترادف تھا۔ تلخ زندگی میں امید کی کرن، ظلم وجبر کے گھپ اندھیرے میں امید سحر۔
اس کی کل کائنات سمیہ تھی۔ سورج بھی اسی پر طلوع ہوکر غروب ہوتا تھا۔ اس کی چہک، معصوم ادائیں اسے جنت کا احساس دلاتیں۔ زندگی نے پھر نئے سرے سے راہ پکڑی تھی، وہ بھی وحشت، بوریت سے اوب چکی تھی، نئی دنیا وہ دیکھنا چاہتی تھی۔ دن، ہفتے، مہینے اور سالیں گزرتی نہیں بلکہ دوڑتی محسوس ہونے لگی۔ اب شہزادی کے کان رس بھری قلقاریوں، توتلی باتوں سے لطف اندوز ہونے لگے تھے۔
ایک صبح شہزادی نے محسوس کیا کہ اس کی کلی میں پہلی سی راعنائی نہیں، بجھی بجھی لگ رہی، کچھ ہی دیربعد سمیہ درد اور بخار سے بے آب مچھلی کی طرح تڑپنے لگی۔ وہ ہاتھ پیر مارنے لگی مگر لاچارعورت کیا کرسکتی تھی، بچی کا ابو بہت دور تھا گر قریب بھی ہوتا تو بھی اس سے ہمدردی کی توقع نہ تھی۔ اس نے ساس کے گھر کا رخ کیا، امید تو نہ تھی مگر سوچا کہ ہوسکتاہے کہ اپنے جگر پارے کو تڑپتا دیکھ کر دل پسیج جائے۔مگر شہزادی کو دیکھتے ہیں ساس کا پارا ساتویں آسمان پر تھا، ان باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا کہ ننی منی سمیہ آخری سانسیں لے رہی۔ بروقت علاج نہ ہوا تو خطرہ ہے۔ بد بخت ساس بہو کو دھکیلنے لگی، وہ لڑ کھڑائی بچی اس کے ہاتھوں سے نکل کر فرش پر جا گری۔ ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی،. پھر خاموشی چھا گئی۔
شیطان سنگ ہاسپٹل میں آج کچھ زیادہ ہی گہما گہمی تھی، ویسے روز ہی یہاں یہی سماں رہتا ہے۔ یہ ہاسپٹل اور اس کے معروف سرجن بھنور لال چانکیہ دنیا بھر میں جانے پہنچانے ہیں، ان کی شہرت دور دور تک ہے۔ وزیر، مشیر، بڑے ساہوکار اور سرمایہ داروں کا رخ اکثر انہیں کی طرف ہوتاہے۔ آج سری مان منتری راجوسنگھ بھوانی ایڈ منٹ ہوئے ہیں۔ ان کے دونوں گردے کثرت مئے نوشی سے بیکار ہوچکے۔ ان کی زندگی بچانے کے لیے جلد گردے اور بلیڈ کا انتظام ازحد ضروری تھا۔
شہزادی نے اپنی نور نظر کو اٹھایا جو بیہوش ہوچکی تھی، ہاسپٹل کا رخ کیا۔ چپراسیوں کی جھڑکیاں، نرسوں کے دھکے، ناپاک خبیثوں کی غلیظ نظروں سے گزر کر وہ ڈاکٹر تک پہنچ ہی گئی۔
ڈاکٹر نے پوچھ تاچھ کی، بچی کا معاینہ کیا، مالی حیثیت کی جانکاری کے ساتھ ساتھ ورثاءکی بے رخی اور شہزادی کے رتبے اور معاشرے میں مقام تک جان گیا۔ بے اختیار وحشت بھری مسکراہٹ ہونٹوں پر پھیل گئی۔ مشکل سے طبیعت پر قابو پاکر ڈاکٹر نے بناوٹی انداز میں کہا، افسوس کہ آپ کی نور نظر ایک مہلک مرض کا شکار ہے، آپریشن ہی آخری امید ہے، جس کا خرچ کم سے کم رعایتی ۵ لاکھ ہے۔ پانچ لاکھ کا سن اس کے تو حواس ہی گم ہوگئے، اس کی آنکھوں کے سامنے موت رقص کررہی تھی، اپنی اکلوتی بیٹی موت کے منہ صاف طور پر نظر آرہی تھی۔ ڈاکٹر جسودا کو کوڈورڈ کے سہارے مشن سمجھاکر سرک گیا۔ تجربہ کار جسودا نےاپنائیت بھرے لہجے میں کہا، بہن رونے، دھونے سے کچھ نہیں ہوگا، جلد انتظام کریں، بچی کو گر بچاناہے تو کچھ کریں۔ شہزادی نے روتے ہوئے کہا پانچ لاکھ تو دور مجھ میں پانج ہزار تک کی ہمت نہیں ہے۔ واقعی آپ بچی کو بچانے کی خواہاں ہیں تو ایک اور بھی راہ ہے۔ بتائیں وہ کیا ہے؟ آپ اپنا ایک گردہ فروخت کردیں، پانچ لاکھ مل جائیں گے، بچی بھی بچ جائے گی۔ اس میں کوئی نقصان جیسی بات بھی نہیں۔ دنیا میں لاکھوں لوگ ایک گردے سے طبعی زندگی گزار لیتے ہیں۔ تھوڑی پس وپیش کے بعد شہزادی مان گئی۔
منتری جی کا لال بھنور لال سے لجاجت بھرے لہجے میں مخاطب تھا، دس لاکھ کی جگہ بھلے بیس خرچ ہوجائیں، آپ جلد گردے اور بلیڈ کا انتظام کریں، پلیز، پلیز، پلیز، ڈاکٹر نے اسے تسلی دی، مطمئن کیا۔ کمرے کا آہنی کواڑ کھلا ساتھ ہی جسودا داخل ہوئی۔ جلد ہی ابن منتری کو الوداع کرکے جسودا کی اور دیکھا، اس ڈائن نے فاتحانہ مسکراہٹ سے سر سے نظر ملائیں، ڈاکٹر نے جلدی کا آڈر کیا اور خود آپریشن تھیٹر پہنچ گیا۔
شہزادی کا گردہ دس لاکھ کے عوض منتری جی کے کام آیا، سمیہ کےبلیڈ سے بھی کافی رقم وصول ہوئی، باقی اعضا محفوظ کر لیے گئے۔اور منتری جی نےشفایاب ہوکر گھر کی راہ لی۔ شہزادی کو یہ کہ کرمردہ لاش تھمادی گئی کہ افسوس آپریش کامیاب نہیں ہوا۔ ڈاکٹر نے دکھ بھرے لہجے میں کہا ہم شرمندہ ہیں کہ آپ کی بچی کو بچا نہ سکے، ہمیں معذور سمجھیں آج تک کوئی بھی اس مرض سے جان چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوا ہےحالانکہ سمیہ کو تو صرف بگڑا ہوا ملیریا تھا۔ لٹی پٹی شہزادی اپنی امیدوں کا جنازہ، اپنے حسین مستقبل کے خواب کی ارچیا، سمیٹے جارہی تھی۔ فرشتے لرزہ براندم تھے، درندے بھی بے بسی سے انسانوں سے کہ رہے تھے کہ سفاکی میں ہم انسانوں سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔
شیطانی دنیا میں فتح کا جشن تھا، وہ اپنی کامیابی پر فرحاں ونازاں تھے۔ طب جیسی خدمت کو انہونے بڑی کوششوں سے پیشہ بنادیا تھا، پھر اس پر رہزنی، ڈاکہ زنی، لوٹ کھسوٹ اور نفاق چھڑک کر معصوموں کے لیے دنیا کو جہنم کدہ بنادیا تھا، وہ خوش تھے کہ خود انسان ہی. دنیا میں طرح طرح کے وائیرس چھوڑتے ہیں، اور لوگوں کو تباہ کرتے ہیں۔سچ کہا تھا چاچو ابوزید فرضی نے کہ ڈاکٹر در اصل ڈاکوٹر تھا، کثرت ہسپتال کی وجہ سے ڈاکٹر ہوگیا۔