سپریم کورٹ نے جمعیۃ کے استدلال کے بعد صاف صاف کہا کہ شہریت کو ثابت کرنے کا موقع دیا جائے گا-
نئی دہلی(آئی این اے نیوز یکم اگست 2018) 30 جولائی کوآسام میں نیشنل رجسٹر برائے سیٹیزن (این آر سی) کی دوسری لسٹ شائع ہونے کے بعد آج سپریم کورٹ میں جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس روہنٹن فالی نریمن پر مشتمل بنچ کے سامنے بہت ہی اہم معاملات پیش ہوئے جس پر سپریم کورٹ نے کئی اطمینان بخش ہدایات دی۔آج کی سماعت کے دوران این آر سی کو آرڈینیٹر مسٹر پرتیک ہزیلا، مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکلاء اور جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء نے اپنے اپنے موقف کو رکھا۔واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی اور جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر مولانا بدرالدین اجمل کی ہدایت پر وکلاء کی ایک ٹیم جن میں سینئر اڈووکیٹ جناب وی گری ، سینئر ایڈووکیٹ بی ایچ مارلاپلے، اڈووکیٹ شکیل احمد سید،اڈووکیٹ نذرالحق مزاربھیا، ایڈوکیٹ عبدالصبور تپادر وغیرہ شامل ہیں وہ آسام کے لوگوں کی شہریت سے متعلق تمام مقدمات کی پیروی سپریم کورٹ میں کر رہے ہیں۔
آج کورٹ نے جو اہم ہدایات جاری کی ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں کہ جن 40 لاکھ لوگوں کا نام اب تک این آر سی میں نہیں آسکا ہے انہیں غیر ملکی نہ سمجھا جائے، ان کے خلاف سرکار کسی بھی طرح کی کوئی کاروائی نہیں کر سکتی، ان کا یہ آئینی حق ہے کہ انہیں دوبارہ اپنی شہریت ثابت کرنے کا موقع دیا جائے اور اس کے لئے ایک Fair procedure اپنا یا جائے تاکہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو، انہیں یہ بھی حق ہے کہ ان کا نام شامل نہ ہونے کی وجہ انہیں رازدارانہ طور پر بتا یا جائے، اس کے ساتھ ہی عدالت نے مرکزی سرکار اور اور صوبائی سرکار کو ہدایت دی ہیکہ ان چالیس لاکھ لوگوں کو شہریت کا دعوی کرنے کے لئے کیا صورت اور طریقہ کار ہوگا وہ ایکStandard operating procedure تیار کرکے 16 ، جولائی تک پیش کریں جسے عدالت معائنہ کرنے کے بعد approval دیگی اسکے بعد اسی کے مطابق کام شروع کیا جا ئے۔این آرسی کو آرڈینیٹر مسٹر پرتیک ہزیلا نے عدالت کو بتا یا کہ جن لوگوں کا نام نہیں آیاہے وہ 7 ، اگست سے 28 ، ستمبر کے درمیان صوبہ آسام میں موجود 2500 این آر سی سینٹر میں کہیں سے بھی اس کی وجہ معلوم کر سکتے ہیں اور 30 ،اگست سے 28 ،ستمبر 2018 کے درمیان اپنا دعوی پھر سے جمع کر سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان سب مین کتنا وقت لگے گا کچھ کہا نہیں سکتا ۔ اس کے علاوہ آج عدالت میں فورنر ٹریبیونل وغیرہ کے ذریعہ کسی وجہ سے غیر ملکی قرار دئے گئے لوگوں کے فیملی ممبران کا نام این آر سی میں شامل نہ کرنے والے گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کرنے والی جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے دائر کردہ پٹیشن (Diary No. 21386/2018/ Fatema Beghum ) اور دوسری پیٹیشنDiary No. 21377/2018/ Abdul Qasim Talukdar) ) کی سماعت کی تاریخ بھی تھی مگر عدالت نے اسے بھی 16 ، اگست تک کے لئے ملتوی کر دیا ہے، اب عدالت ان سب معاملات کو ایک ساتھ 16 ،اگست کو ہی سماعت کریگی۔ بہر حال آج کی پیش رفت پر جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی اور جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر مولانا بدر الدین اجمل نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انشاء اللہ عدالت عظمی سے متأثرین کو انصاف ملے گا، ان حضرات نے لوگوں سے صبر و تحمل سے کام لینے کی بھی اپیل کی ہے اور یقین دہانی کرائی ہے کہ جمعیۃ کے کارکنا ن تمام لوگوں کی مدد کے لئے ہر سینٹر پر موجود رہیں گے۔
نئی دہلی(آئی این اے نیوز یکم اگست 2018) 30 جولائی کوآسام میں نیشنل رجسٹر برائے سیٹیزن (این آر سی) کی دوسری لسٹ شائع ہونے کے بعد آج سپریم کورٹ میں جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس روہنٹن فالی نریمن پر مشتمل بنچ کے سامنے بہت ہی اہم معاملات پیش ہوئے جس پر سپریم کورٹ نے کئی اطمینان بخش ہدایات دی۔آج کی سماعت کے دوران این آر سی کو آرڈینیٹر مسٹر پرتیک ہزیلا، مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکلاء اور جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء نے اپنے اپنے موقف کو رکھا۔واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی اور جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر مولانا بدرالدین اجمل کی ہدایت پر وکلاء کی ایک ٹیم جن میں سینئر اڈووکیٹ جناب وی گری ، سینئر ایڈووکیٹ بی ایچ مارلاپلے، اڈووکیٹ شکیل احمد سید،اڈووکیٹ نذرالحق مزاربھیا، ایڈوکیٹ عبدالصبور تپادر وغیرہ شامل ہیں وہ آسام کے لوگوں کی شہریت سے متعلق تمام مقدمات کی پیروی سپریم کورٹ میں کر رہے ہیں۔
آج کورٹ نے جو اہم ہدایات جاری کی ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں کہ جن 40 لاکھ لوگوں کا نام اب تک این آر سی میں نہیں آسکا ہے انہیں غیر ملکی نہ سمجھا جائے، ان کے خلاف سرکار کسی بھی طرح کی کوئی کاروائی نہیں کر سکتی، ان کا یہ آئینی حق ہے کہ انہیں دوبارہ اپنی شہریت ثابت کرنے کا موقع دیا جائے اور اس کے لئے ایک Fair procedure اپنا یا جائے تاکہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو، انہیں یہ بھی حق ہے کہ ان کا نام شامل نہ ہونے کی وجہ انہیں رازدارانہ طور پر بتا یا جائے، اس کے ساتھ ہی عدالت نے مرکزی سرکار اور اور صوبائی سرکار کو ہدایت دی ہیکہ ان چالیس لاکھ لوگوں کو شہریت کا دعوی کرنے کے لئے کیا صورت اور طریقہ کار ہوگا وہ ایکStandard operating procedure تیار کرکے 16 ، جولائی تک پیش کریں جسے عدالت معائنہ کرنے کے بعد approval دیگی اسکے بعد اسی کے مطابق کام شروع کیا جا ئے۔این آرسی کو آرڈینیٹر مسٹر پرتیک ہزیلا نے عدالت کو بتا یا کہ جن لوگوں کا نام نہیں آیاہے وہ 7 ، اگست سے 28 ، ستمبر کے درمیان صوبہ آسام میں موجود 2500 این آر سی سینٹر میں کہیں سے بھی اس کی وجہ معلوم کر سکتے ہیں اور 30 ،اگست سے 28 ،ستمبر 2018 کے درمیان اپنا دعوی پھر سے جمع کر سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان سب مین کتنا وقت لگے گا کچھ کہا نہیں سکتا ۔ اس کے علاوہ آج عدالت میں فورنر ٹریبیونل وغیرہ کے ذریعہ کسی وجہ سے غیر ملکی قرار دئے گئے لوگوں کے فیملی ممبران کا نام این آر سی میں شامل نہ کرنے والے گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کرنے والی جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے دائر کردہ پٹیشن (Diary No. 21386/2018/ Fatema Beghum ) اور دوسری پیٹیشنDiary No. 21377/2018/ Abdul Qasim Talukdar) ) کی سماعت کی تاریخ بھی تھی مگر عدالت نے اسے بھی 16 ، اگست تک کے لئے ملتوی کر دیا ہے، اب عدالت ان سب معاملات کو ایک ساتھ 16 ،اگست کو ہی سماعت کریگی۔ بہر حال آج کی پیش رفت پر جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی اور جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر مولانا بدر الدین اجمل نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انشاء اللہ عدالت عظمی سے متأثرین کو انصاف ملے گا، ان حضرات نے لوگوں سے صبر و تحمل سے کام لینے کی بھی اپیل کی ہے اور یقین دہانی کرائی ہے کہ جمعیۃ کے کارکنا ن تمام لوگوں کی مدد کے لئے ہر سینٹر پر موجود رہیں گے۔