اشرف اصلاحی اردو عربی فارسی یونیورسٹی لکھنؤ
Mob: 8090805596
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
مکرمی!
19 ستمبر 2008 کو دہلی کے جامعہ نگر علاقہ کے بٹلہ ہائوس L 18 میں دہلی پولس نے اعلی تعلیم حاصل کر رہے اعظم گڑھ کے دو نوجوان کو شہید کر دیا تھا۔جس کو ہر ذی عقل فرضی جانتا ہے اور ہمیشہ فرضی گردانتا رہے گا۔رمضان کا مہینہ تھا ۔عید قریب تھی بازاروں میں عید کی خریداریاں زوروں پر ہو رہی تھیں۔ مگر کسی کو کیا پتا تھا کہ جس چیز کی ہم تیاری کر رہے ہیں کچھ ہی پلوں میں سب دھری کے دھری رہ جائیگی۔اعظم گڑھ میں میڈیا کے توسط سے خبر آگ کی طرح پھیلتی ہے کہ دہلی میں سنجر پور کے دو نوجوان دہشتگردی کے الزام میں شہید کر دیئے گئے ہیں ۔پھر کیا تھا ہر طرف ماتم ہی ماتم نظر آنے لگا۔ سنجر پور و آس پاس کے علاقوں میں خفیہ ایجنسیوں و پولس کی گاڑیاں نظر آنیں لگیں ،ہر طرف جوتوں کی ٹاپ سنائ دیتی۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا ہجوم نظر آتا اور تسلی دینے والوں کا جم غفیر نظر آتا۔ہمارے دلوں میں ایک عجیب ڈر و خوف کا عالم ایسا پیدا ہوا تھا کہ بیان کر پانا مشکل ہے۔ہر طرف خاموشی ہی خاموشی۔عصر سے پہلے بازاریں سڑکیں و گاؤں ویران ہو جاتے ۔ ہر کوئ سنجر پور کو اپنا کہنے سے ڈرتا تھا۔تمام مسلم لیڈران،ملی جماعتیں و مسیحائی کا دم بھرنے والےخاموش رہے ۔کسی نے بھی مدد کرنے اسکے خلاف آواز بلند کرنے یا سنجر پور کے دکھ درد کو اعلی لیڈران و حکومت تک پہونچانے کی ہمت نہیں کی۔
اسی بیچ پورے اعظم گڑھ کو دہشت گردی کی نرسری و آتنک گڑھ سے مشہور کردیا گیا۔اعظم گڑھ کے باشندہ ہونے کی وجہ سے دوسری جگہ تعلیم حاصل کر رہے طلبہ و سروس کر رہے لوگوں کو فلیٹ و ہاسٹل سے نکالا جانے لگا اور انہیں کرائے کا مکان ملنا دور رشتہ دار بھی پناہ دینے سے گریز کرنے لگےتھے۔ یہاں کے درجنوں نوجوانوں کی لسٹ بنا کر گرفتار کیا جانے لگا۔اس کے پیچھے حکومت و خفیہ ایجینسیوں کا اصل مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمانوں کو علمی سماجی معاشی ہر سطح پر کمزور کیا جائے۔
مگر اعظم گڑھ کے علمائے کرام و دانشوران نے غور و فکر کر مولانا عامر رشادی و مولانا طاہر مدنی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے "علماء کونسل اترپردیش" نامی ایک تنظیم بنائی جو آج راشٹریہ علماء کونسل کے نام سے ملک کے گوشہ گوشہ میں موجود ہے۔اس تنظیم نے ایک جم غفیر کے ساتھ پوری ٹرین بھر کر دہلی و لکھنئو میں اس کے خلاف احتجاج کیا۔ اس وقت دہلی و مرکز دونوں جگہ کانگریس کی حکومت تھی ۔ اس لئے کانگریس کے خلاف ہر طرف سے کھینچا تانی ہونے لگی جو کی جائز بھی تھا۔سب نے ایک آواز میں لبیک کہتے ہوئے انصاف کی بھیک مانگی۔اور کہا کہ یہ انکائونٹر فرضی ہے ہمارے بچے آتنکوادی نہیں۔ضلع اعظم گڑھ علمائےکرام،دانشوروں،ادیبوں،شاعروں اور انصاف پسندوں کا ضلع ہے نہ کہ دہشتگردوں کا۔ مگر افسوس آج تک انصاف نہ مل سکا۔جبکہ آئین کی دفعہ 176 کے تحت کسی بھی پولس مدبھیڑ کی جانچ کسی دوسری ایجینسیوں سے کرائ جا سکتی ہے ۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی چینخ چینخ کر کہہ رہی ہے کہ انکائونٹر فرضی ہے۔گولی سر کے اوپری حصہ میں لگی ہے جب کی انکائونٹر میں گولی سامنے لگے گی۔ آخر ہمیں انصاف ملے گا کب ؟ کب ہوگی اس فرضی انکائونٹر کی جانچ ؟
آج اس سانحہ کو ہوئے 10 سال ہو رہے ہیں۔اہل خانہ کے آنسو خشک ہو چکے ہیں۔کچھ لوگ تو ہار مان چکے ہیں ۔مگر یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمیشہ جیت حق و سچائ کی ہوتی ہے۔ہمیں ناامید ہوکر بیٹھنا نہیں چاہئے۔قران کی ایک آیت ہے جس کا ترجمہ ہے کہ نا امیدی کفر ہے۔اس لئے اس کے خلاف ہمیشہ اواز بلند کرتے رہیں جو ہمارا آئینی حق بھی ہے۔ 2013 کے دلی عام انتخاب میں اروند کیجریوال نے وعدہ کیا تھا کہ اگر حکومت بنتی ہے تو بٹلہ ہائوس انکاؤنٹر کی ایس آئ آٹی بنا کر جانچ کروائیں گے مگر 2 دفعہ حکومت بننے کے بعد جانچ نہیں کروائ وہیں پچھلے دنوں 84 کے سکھ دنگوں کے لئے ایس آئ ٹی بنا دی ہے جس کا وعدہ تک نہیں کیا تھا ۔اروند کیجریوال جی دو رکھا پن کیوں ؟ مسلمانوں سے اتنی نفرت کیوں ؟ اس انکاؤنٹر کی جتنی زمہ دار کانگریس ہے اتنا ہی کیجریوال اور اس کی سرکار ہے۔اس لئے کیجریوال کے خلاف بھی احتجاج ہونا لازمی ہے کہ وہ اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کریں۔
19 ستمبر کو بٹلہ ہاؤس فرضی انکائونٹر کی دسویں برسی ہے۔راشٹریہ علماء کونسل ہر سال احتجاج کرتی ہے اور اس دفعہ بھی دہلی میں اروند کیجریوال کا گھر گھیرنے کے ساتھ ساتھ ممبئ،مدھیہ پردیش،راجستھان،تملناڈو،اترپردیش سمیت ملک بھر میں احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے اس موقعہ پر ہمیں چاہیئے کہ ہم اس کا ساتھ دیتے ہوئے اس فرضی انکائونٹر کے خلاف احتجاج کریں ۔اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رکھیں جب تک ہمیں انصاف نہ ملے،ہم پر اور ہمارے اوپر لگے آتنکواد کا داغ مٹ نہ جائے۔آج مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے ۔سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے موجودہ جج کی نگرانی میں اس انکائونٹر کی جانچ ہو جس میں اعظم گڑھ کے دو نوجوان عاطف امین اور محمد ساجد کے ساتھ ساتھ پولس انسپکٹر ایم سی شرما بھی شہید ہوئے ہیں اور درجنوں گرفتار کئے گئے ہیں۔تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوجائے اور ہمیں انصاف ملے۔
Mob: 8090805596
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
مکرمی!
19 ستمبر 2008 کو دہلی کے جامعہ نگر علاقہ کے بٹلہ ہائوس L 18 میں دہلی پولس نے اعلی تعلیم حاصل کر رہے اعظم گڑھ کے دو نوجوان کو شہید کر دیا تھا۔جس کو ہر ذی عقل فرضی جانتا ہے اور ہمیشہ فرضی گردانتا رہے گا۔رمضان کا مہینہ تھا ۔عید قریب تھی بازاروں میں عید کی خریداریاں زوروں پر ہو رہی تھیں۔ مگر کسی کو کیا پتا تھا کہ جس چیز کی ہم تیاری کر رہے ہیں کچھ ہی پلوں میں سب دھری کے دھری رہ جائیگی۔اعظم گڑھ میں میڈیا کے توسط سے خبر آگ کی طرح پھیلتی ہے کہ دہلی میں سنجر پور کے دو نوجوان دہشتگردی کے الزام میں شہید کر دیئے گئے ہیں ۔پھر کیا تھا ہر طرف ماتم ہی ماتم نظر آنے لگا۔ سنجر پور و آس پاس کے علاقوں میں خفیہ ایجنسیوں و پولس کی گاڑیاں نظر آنیں لگیں ،ہر طرف جوتوں کی ٹاپ سنائ دیتی۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا ہجوم نظر آتا اور تسلی دینے والوں کا جم غفیر نظر آتا۔ہمارے دلوں میں ایک عجیب ڈر و خوف کا عالم ایسا پیدا ہوا تھا کہ بیان کر پانا مشکل ہے۔ہر طرف خاموشی ہی خاموشی۔عصر سے پہلے بازاریں سڑکیں و گاؤں ویران ہو جاتے ۔ ہر کوئ سنجر پور کو اپنا کہنے سے ڈرتا تھا۔تمام مسلم لیڈران،ملی جماعتیں و مسیحائی کا دم بھرنے والےخاموش رہے ۔کسی نے بھی مدد کرنے اسکے خلاف آواز بلند کرنے یا سنجر پور کے دکھ درد کو اعلی لیڈران و حکومت تک پہونچانے کی ہمت نہیں کی۔
اسی بیچ پورے اعظم گڑھ کو دہشت گردی کی نرسری و آتنک گڑھ سے مشہور کردیا گیا۔اعظم گڑھ کے باشندہ ہونے کی وجہ سے دوسری جگہ تعلیم حاصل کر رہے طلبہ و سروس کر رہے لوگوں کو فلیٹ و ہاسٹل سے نکالا جانے لگا اور انہیں کرائے کا مکان ملنا دور رشتہ دار بھی پناہ دینے سے گریز کرنے لگےتھے۔ یہاں کے درجنوں نوجوانوں کی لسٹ بنا کر گرفتار کیا جانے لگا۔اس کے پیچھے حکومت و خفیہ ایجینسیوں کا اصل مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمانوں کو علمی سماجی معاشی ہر سطح پر کمزور کیا جائے۔
مگر اعظم گڑھ کے علمائے کرام و دانشوران نے غور و فکر کر مولانا عامر رشادی و مولانا طاہر مدنی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے "علماء کونسل اترپردیش" نامی ایک تنظیم بنائی جو آج راشٹریہ علماء کونسل کے نام سے ملک کے گوشہ گوشہ میں موجود ہے۔اس تنظیم نے ایک جم غفیر کے ساتھ پوری ٹرین بھر کر دہلی و لکھنئو میں اس کے خلاف احتجاج کیا۔ اس وقت دہلی و مرکز دونوں جگہ کانگریس کی حکومت تھی ۔ اس لئے کانگریس کے خلاف ہر طرف سے کھینچا تانی ہونے لگی جو کی جائز بھی تھا۔سب نے ایک آواز میں لبیک کہتے ہوئے انصاف کی بھیک مانگی۔اور کہا کہ یہ انکائونٹر فرضی ہے ہمارے بچے آتنکوادی نہیں۔ضلع اعظم گڑھ علمائےکرام،دانشوروں،ادیبوں،شاعروں اور انصاف پسندوں کا ضلع ہے نہ کہ دہشتگردوں کا۔ مگر افسوس آج تک انصاف نہ مل سکا۔جبکہ آئین کی دفعہ 176 کے تحت کسی بھی پولس مدبھیڑ کی جانچ کسی دوسری ایجینسیوں سے کرائ جا سکتی ہے ۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی چینخ چینخ کر کہہ رہی ہے کہ انکائونٹر فرضی ہے۔گولی سر کے اوپری حصہ میں لگی ہے جب کی انکائونٹر میں گولی سامنے لگے گی۔ آخر ہمیں انصاف ملے گا کب ؟ کب ہوگی اس فرضی انکائونٹر کی جانچ ؟
آج اس سانحہ کو ہوئے 10 سال ہو رہے ہیں۔اہل خانہ کے آنسو خشک ہو چکے ہیں۔کچھ لوگ تو ہار مان چکے ہیں ۔مگر یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمیشہ جیت حق و سچائ کی ہوتی ہے۔ہمیں ناامید ہوکر بیٹھنا نہیں چاہئے۔قران کی ایک آیت ہے جس کا ترجمہ ہے کہ نا امیدی کفر ہے۔اس لئے اس کے خلاف ہمیشہ اواز بلند کرتے رہیں جو ہمارا آئینی حق بھی ہے۔ 2013 کے دلی عام انتخاب میں اروند کیجریوال نے وعدہ کیا تھا کہ اگر حکومت بنتی ہے تو بٹلہ ہائوس انکاؤنٹر کی ایس آئ آٹی بنا کر جانچ کروائیں گے مگر 2 دفعہ حکومت بننے کے بعد جانچ نہیں کروائ وہیں پچھلے دنوں 84 کے سکھ دنگوں کے لئے ایس آئ ٹی بنا دی ہے جس کا وعدہ تک نہیں کیا تھا ۔اروند کیجریوال جی دو رکھا پن کیوں ؟ مسلمانوں سے اتنی نفرت کیوں ؟ اس انکاؤنٹر کی جتنی زمہ دار کانگریس ہے اتنا ہی کیجریوال اور اس کی سرکار ہے۔اس لئے کیجریوال کے خلاف بھی احتجاج ہونا لازمی ہے کہ وہ اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کریں۔
19 ستمبر کو بٹلہ ہاؤس فرضی انکائونٹر کی دسویں برسی ہے۔راشٹریہ علماء کونسل ہر سال احتجاج کرتی ہے اور اس دفعہ بھی دہلی میں اروند کیجریوال کا گھر گھیرنے کے ساتھ ساتھ ممبئ،مدھیہ پردیش،راجستھان،تملناڈو،اترپردیش سمیت ملک بھر میں احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے اس موقعہ پر ہمیں چاہیئے کہ ہم اس کا ساتھ دیتے ہوئے اس فرضی انکائونٹر کے خلاف احتجاج کریں ۔اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رکھیں جب تک ہمیں انصاف نہ ملے،ہم پر اور ہمارے اوپر لگے آتنکواد کا داغ مٹ نہ جائے۔آج مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے ۔سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے موجودہ جج کی نگرانی میں اس انکائونٹر کی جانچ ہو جس میں اعظم گڑھ کے دو نوجوان عاطف امین اور محمد ساجد کے ساتھ ساتھ پولس انسپکٹر ایم سی شرما بھی شہید ہوئے ہیں اور درجنوں گرفتار کئے گئے ہیں۔تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوجائے اور ہمیں انصاف ملے۔