تحریر: عبدالوھاب چشتی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عاشوراء محرم کی دسویں تاریخ کو کہتے ہیں اور وہ ایک عظیم الشان دن ہے، اللہ تعالی نے اس دن حضرت موسی علیہ السلام کو نجات دی، ان کے دشمن فرعون کو غرق آب کیا، چنانچہ موسی علیہ السلام کے پیروکار یہود اللہ تعالی کی بارگاہ میں شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھتے ہیں، اہل مکہ بھی زمانہ جاہلیت میں عاشوراء کے دن روزہ رکھتے تھے، لہذا ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم “نےبھی مکہ میں ہجرت سے پہلے روزہ رکھا، جیسا کہ بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا "کان یوم عاشوراء تصومه قریش فی الجاھلیة، وکان رسول الله صلی الله علیه وسلم یصومه"
”اہل قریش زمانہ جاہلیت میں عاشوراء کے دن روزہ رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے (بخاری و مسلم)
پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کر گئے تو یہودیوں کو دیکھا کی وہ عاشوراء کے دن کی بڑی عزت کرتے ہیں، خوشی مناتے ہیں، اور روزہ رکھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت ان چیزوں میں پسند کرتے تھے جن کے متعلق وحی نہیں آئی تھی۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے "قدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم المدینۃ فر أی الیھود تصوم یوم عاشوراء فقال ما ھذا؟قالوا: ھذا یوم صالح، ھذایوم نجی اللہ بنی اسرائیل من عدوھم فصام موسی،قال انا احق بموسی منکم، فصامہ وامر بصیامہ"
ترجمہ: ”آپؐ مدینہ تشریف لاۓ تو یہودیوں کو عاشوراء کے دن روزہ رکھتے دیکھا تو دریافت فرمایا، یہ کیا ہے؟ (یعنی تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو) انہوں نے کہا یہ ایک نیک دن ہے، اس دن اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تھی، اس پر موسی ؑ نے روزہ رکھا، آپ ؐنے فرمایا موسی ؑ پر ہمارا حق تم سے زیادہ ہے، پھر آپؐ نے اس دن کا خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا (بخاری و مسلم)
عاشوراء کے روزہ کی فضیلت” رُبیّع بنت معوذ رضی اللہ عنہا“ کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آپ ؐ نے عاشوراء کی صبح انصارِ صحابہ کی بستیوں میں جو کہ مدینہ کے اِرد گِرد آباد تھیں یہ پیغام بھیجا کہ جس نے آج روزہ نہ رکھا ہو وہ بھی باقی دن کچھ نہ کھاۓ اور جو لوگ روزہ سے ہوں اپنا روزہ مکمل کریں، رُبیّع کہتی ہیں کہ اس حکم کے بعد ہم عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھاتے اور ان کے لیے اُون کا ایک کھلونا بنا دیتے جب ان میں کوئی کھانے کے لیئے رُونے لگتا تو ہم اس کو کِھلونا دے دیتے(وہ بہل جاتا) یہاں تک کہ افطار کا وقت آجاتا“ ( بخاری و مسلم)
٢ ہجری میں اللہ تعالی نے رمضان کا روزہ فرض قرار دیا، عاشوراء کے روزہ کی فرضیت ختم ہو گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا روزہ فرض ہونے کے بعد صحابہ کو عاشوراء کے روزے کا حکم نہیں دیا، بلکہ اختیار دے دیا جو چاہے رکھے، جو چاہے نہ رکھے، جیسا کی" بخاری ومسلم "میں ہے جس کے راوی عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ ہیں انھوں نے ارشاد فرمایا "صام النبى صلى الله عليه وسلم عاشوراء وامر بصيامه، فلما فرض رمضان، ترك".
وفي رواية لمسلمٍ "اَنّ اهل الجاهلية كانوا يَصومُون يوم عاشُوراءَ واَنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم صامه والمسلمون قبل اَن يفترض رمضان، فلما اِفترض رمضان ،قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اِنّ عاشوراءيومٌ مِن اَيّام الله تعالى فَمَن شاء صامه، ومن شاء تركه،
آپ صلی اللہ علیہ عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزے کا حکم دیا۔،جب رمضان کا روزہ فرض ہوا تو عاشوراء کا روزہ موقوف ہو گیا.
مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ "زمانہ جاھلیت کے لوگ رمضان کا روزہ فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمانوں نے بھی رمضان کا روزہ فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ رکھا، پھر جب رمضان کا روزہ فرض قرار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ۔ بیشک عاشوراء اللہ تعالی کا دن ہے۔ جس کا جی چاہے اس دن روزہ رکھے۔ اور جس کا جی چاہے نہ رکھے"بخاری و مسلم"
اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنھم نے عاشوراء کا روزہ فرض کے طور پر پہلی مرتبہ ٢ ھجری میں رکھا کیوں کہ عاشوراء کا روزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کر لینے کے بعد فرض ہوا ۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربیع الاول کے مہینہ میں ھجرت کی تھی، ھجرت کی پہلے سال ان پر کوئی روزہ فرض نہیں ہوا، ٢ ھجری میں پہلے عاشوراء کا پھر رمضان کا روزہ فرض ہوا۔
چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنھم نے ٢ ھجری میں پہلے عاشوراء کا پھر رمضان کا فرض روزہ رکھا ۔
پھر آئندہ سال یعنی ٣ ھجری میں عاشوراء کے روزہ کی فرضیت ختم ہو گئی تو رمضان کا روزہ فرض کے طور پر رکھا کرتے تھے.
عاشوراء میں اہل کتاب کی مخالفت
جب اللہ تعالی نے دین کی تکمیل کردی، اپنے انعامات پورا کر چکا۔اپنی نشانیوں کو اتار چکا۔اور تمام احکامات ثابت ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اھل کتاب کی مخالفت کا حکم دیا۔تاکہ اسلام اپنی تمام تر حسن و رعنائیوں اور خوبیوں کے ساتھ اور شریعت الہی دوسری شریعتوں سے جن میں حق و باطل خلط ملط ہو گیا ہے، ممتاز ہو جائے۔اسی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے روزہ میں اھل کتاب کی مخالفت کا حکم دیا، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے "حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه؛ قالوا: يا رسول الله؛ أِنه يومٌ تُعظم اليهود والنصارى،فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فاِنْ كان العام المقبل اِن شاءالله صُمْنا اليوم التاسع، قال فلم يأ ت العام المقبل، حتى توفى رسول الله صلى الله عليه وسلم. وفي روايةٍ قال النبي صلى الله عليه وسلم"لَئِنْ بقيت اِلى قابلٍ لأصُوْمنَّ التاسع"( بخاري و مسلم" )
ترجمہ: اس وقت أپ صلى الله عليه وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم اس دن کی تو یھود و نصاری بھی تعظیم کرتے ہیں، آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :ان شاءالله ہم آئندہ سال محرم کے نویں دن روزہ رکھیں گے؛ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا آنے والے سال سے پہلے ہی آپ صلى الله عليه وسلم اس دنیا سے پردہ فرما گئے" (بخاری و مسلم)
ایک روایت میں ہے کہ اگر میں اس قابل رہا تو محرم کی نویں تاریخ کو روزہ رکھوں گا" (مسلم)
اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ عاشوراء کے روزہ کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد روزہ رکھ کر یہودیوں کی مخالفت کی جائے، لیکن عاشوراء کے ایک دن پہلے روزہ رکھنا زیادہ افضل ہے.
ایک حدیث میں ہے آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا۔" صوموا يوم عاشوراء و خالفوا فيه اليهود 'وصوموا قبله يوماً او بعده يوماً(عبدالرزاق)
"تم لوگ یہودیوں کی مخالفت کرو اور محرم کی نو، دس، یا دس، گیارہ کو روزہ رکھو".
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عاشوراء محرم کی دسویں تاریخ کو کہتے ہیں اور وہ ایک عظیم الشان دن ہے، اللہ تعالی نے اس دن حضرت موسی علیہ السلام کو نجات دی، ان کے دشمن فرعون کو غرق آب کیا، چنانچہ موسی علیہ السلام کے پیروکار یہود اللہ تعالی کی بارگاہ میں شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھتے ہیں، اہل مکہ بھی زمانہ جاہلیت میں عاشوراء کے دن روزہ رکھتے تھے، لہذا ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم “نےبھی مکہ میں ہجرت سے پہلے روزہ رکھا، جیسا کہ بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا "کان یوم عاشوراء تصومه قریش فی الجاھلیة، وکان رسول الله صلی الله علیه وسلم یصومه"
”اہل قریش زمانہ جاہلیت میں عاشوراء کے دن روزہ رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے (بخاری و مسلم)
پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کر گئے تو یہودیوں کو دیکھا کی وہ عاشوراء کے دن کی بڑی عزت کرتے ہیں، خوشی مناتے ہیں، اور روزہ رکھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت ان چیزوں میں پسند کرتے تھے جن کے متعلق وحی نہیں آئی تھی۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے "قدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم المدینۃ فر أی الیھود تصوم یوم عاشوراء فقال ما ھذا؟قالوا: ھذا یوم صالح، ھذایوم نجی اللہ بنی اسرائیل من عدوھم فصام موسی،قال انا احق بموسی منکم، فصامہ وامر بصیامہ"
ترجمہ: ”آپؐ مدینہ تشریف لاۓ تو یہودیوں کو عاشوراء کے دن روزہ رکھتے دیکھا تو دریافت فرمایا، یہ کیا ہے؟ (یعنی تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو) انہوں نے کہا یہ ایک نیک دن ہے، اس دن اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تھی، اس پر موسی ؑ نے روزہ رکھا، آپ ؐنے فرمایا موسی ؑ پر ہمارا حق تم سے زیادہ ہے، پھر آپؐ نے اس دن کا خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا (بخاری و مسلم)
عاشوراء کے روزہ کی فضیلت” رُبیّع بنت معوذ رضی اللہ عنہا“ کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آپ ؐ نے عاشوراء کی صبح انصارِ صحابہ کی بستیوں میں جو کہ مدینہ کے اِرد گِرد آباد تھیں یہ پیغام بھیجا کہ جس نے آج روزہ نہ رکھا ہو وہ بھی باقی دن کچھ نہ کھاۓ اور جو لوگ روزہ سے ہوں اپنا روزہ مکمل کریں، رُبیّع کہتی ہیں کہ اس حکم کے بعد ہم عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھاتے اور ان کے لیے اُون کا ایک کھلونا بنا دیتے جب ان میں کوئی کھانے کے لیئے رُونے لگتا تو ہم اس کو کِھلونا دے دیتے(وہ بہل جاتا) یہاں تک کہ افطار کا وقت آجاتا“ ( بخاری و مسلم)
٢ ہجری میں اللہ تعالی نے رمضان کا روزہ فرض قرار دیا، عاشوراء کے روزہ کی فرضیت ختم ہو گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا روزہ فرض ہونے کے بعد صحابہ کو عاشوراء کے روزے کا حکم نہیں دیا، بلکہ اختیار دے دیا جو چاہے رکھے، جو چاہے نہ رکھے، جیسا کی" بخاری ومسلم "میں ہے جس کے راوی عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ ہیں انھوں نے ارشاد فرمایا "صام النبى صلى الله عليه وسلم عاشوراء وامر بصيامه، فلما فرض رمضان، ترك".
وفي رواية لمسلمٍ "اَنّ اهل الجاهلية كانوا يَصومُون يوم عاشُوراءَ واَنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم صامه والمسلمون قبل اَن يفترض رمضان، فلما اِفترض رمضان ،قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اِنّ عاشوراءيومٌ مِن اَيّام الله تعالى فَمَن شاء صامه، ومن شاء تركه،
آپ صلی اللہ علیہ عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزے کا حکم دیا۔،جب رمضان کا روزہ فرض ہوا تو عاشوراء کا روزہ موقوف ہو گیا.
مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ "زمانہ جاھلیت کے لوگ رمضان کا روزہ فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمانوں نے بھی رمضان کا روزہ فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ رکھا، پھر جب رمضان کا روزہ فرض قرار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ۔ بیشک عاشوراء اللہ تعالی کا دن ہے۔ جس کا جی چاہے اس دن روزہ رکھے۔ اور جس کا جی چاہے نہ رکھے"بخاری و مسلم"
اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنھم نے عاشوراء کا روزہ فرض کے طور پر پہلی مرتبہ ٢ ھجری میں رکھا کیوں کہ عاشوراء کا روزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کر لینے کے بعد فرض ہوا ۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربیع الاول کے مہینہ میں ھجرت کی تھی، ھجرت کی پہلے سال ان پر کوئی روزہ فرض نہیں ہوا، ٢ ھجری میں پہلے عاشوراء کا پھر رمضان کا روزہ فرض ہوا۔
چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنھم نے ٢ ھجری میں پہلے عاشوراء کا پھر رمضان کا فرض روزہ رکھا ۔
پھر آئندہ سال یعنی ٣ ھجری میں عاشوراء کے روزہ کی فرضیت ختم ہو گئی تو رمضان کا روزہ فرض کے طور پر رکھا کرتے تھے.
عاشوراء میں اہل کتاب کی مخالفت
جب اللہ تعالی نے دین کی تکمیل کردی، اپنے انعامات پورا کر چکا۔اپنی نشانیوں کو اتار چکا۔اور تمام احکامات ثابت ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اھل کتاب کی مخالفت کا حکم دیا۔تاکہ اسلام اپنی تمام تر حسن و رعنائیوں اور خوبیوں کے ساتھ اور شریعت الہی دوسری شریعتوں سے جن میں حق و باطل خلط ملط ہو گیا ہے، ممتاز ہو جائے۔اسی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے روزہ میں اھل کتاب کی مخالفت کا حکم دیا، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے "حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه؛ قالوا: يا رسول الله؛ أِنه يومٌ تُعظم اليهود والنصارى،فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فاِنْ كان العام المقبل اِن شاءالله صُمْنا اليوم التاسع، قال فلم يأ ت العام المقبل، حتى توفى رسول الله صلى الله عليه وسلم. وفي روايةٍ قال النبي صلى الله عليه وسلم"لَئِنْ بقيت اِلى قابلٍ لأصُوْمنَّ التاسع"( بخاري و مسلم" )
ترجمہ: اس وقت أپ صلى الله عليه وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم اس دن کی تو یھود و نصاری بھی تعظیم کرتے ہیں، آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :ان شاءالله ہم آئندہ سال محرم کے نویں دن روزہ رکھیں گے؛ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا آنے والے سال سے پہلے ہی آپ صلى الله عليه وسلم اس دنیا سے پردہ فرما گئے" (بخاری و مسلم)
ایک روایت میں ہے کہ اگر میں اس قابل رہا تو محرم کی نویں تاریخ کو روزہ رکھوں گا" (مسلم)
اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ عاشوراء کے روزہ کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد روزہ رکھ کر یہودیوں کی مخالفت کی جائے، لیکن عاشوراء کے ایک دن پہلے روزہ رکھنا زیادہ افضل ہے.
ایک حدیث میں ہے آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا۔" صوموا يوم عاشوراء و خالفوا فيه اليهود 'وصوموا قبله يوماً او بعده يوماً(عبدالرزاق)
"تم لوگ یہودیوں کی مخالفت کرو اور محرم کی نو، دس، یا دس، گیارہ کو روزہ رکھو".