ذیشان الہی منیر تیمی
مانو کالج اورنگ آباد مہاراشٹرا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج کل نام نہاد مولویوں کی ایک ٹیم اپنے آپ کو ناصح سمجھ بیٹھے ہیں حالانکہ اگر ان کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی ذات خود نصیحت کے لائق ہے اس لئے کہاں جاتا ہے کہ اپنی آنکھ کا تار نہیں دیکھتا لیکن دوسروں کی آنکھوں کا تنکا دیکھ جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کل کچھ پرانے لکھاریوں اور پڑھاکروں (حالانکہ کہ وہ خود صحافت اور شعر و شاعری کی میدان میں نئے ہیں )کی ایک جماعت برساتی مینڈکوں کی طرح فیس بک اور واٹ سپ پر واویلا مچا رہے ہیں، شور و غل کر رہے ہیں کہ ہم تو پرانے شاعروں میں سے اقبال و غالب اور علم میں ائمہ اربعہ ہیں تو بھلا تنقید کا میدان ہم سے کیسے چھوٹ جائے گا اس لئے یہ پرانے لکھاریوں،
پڑھاکروں اور تنقید نگاروں نے اس میدان میں بھی اپنے آپ کو الطاف حسین حالی، آل احمد سرور اور کلیم الدین احمد سمجھ بیٹھے لیکن تنقید کے لیے علم میں پختگی چاہئے مگر ان بے چارے کو تو تنقید کا بھوت سوار تھا آخر کسی نہ کسی پر تنقید تو کرنی ہی تھی اس سوچ و بچار میں کہ کس پر تنقید کرے ان کا بہت سارا قیمتی وقت گزرتا رہا لیکن انہیں یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ کن پے تنقید کرنی ہے اور کیسے کرنی ہے اچانک ان کی نگاہ ایک ایسے نئے صاحب قلمکار کے مضمون پر پڑی جس میں ایک ابھرتے ہوئے نہایت ہی متحرک صحافی اور شاعر کی شان میں گلہائے عقیدت پیش کئے گئے تھے یا یہ کہ وہ مضمون ان کی حوصلہ افزائی کے لئے تحریر کی گئی تھی اس کو دیکھ کر اور پڑھ کر اس پرانے لکھاریوں اور پڑھاکروں کا چہرہ غصہ سے لال ہوگیا اور سوچنے لگا کہ آخر میرے پاس ابن تیمیہ کے برابر علم ہےاور میں شاعری میں اقبال کے ہم پلہ ہوں لیکن اس کے باوجود بھی نہ تو ہمارے مضامین کہیں سے چھپ رہے ہیں اور نہ ہی ہماری شان میں کوئی مضمون لکھ کر گلہائے عقیدت پیش کر رہا ہے اس لئے اس نے ممدوح کی جم کر تنقید برائے تخریب شروع کر دی انہیں طعنے دیئے کہ ایک ہی مضمون کو ہندوستان کے کونے کونے میں چھپوا کر بار بار فیس بک اور واٹ سپ پر شیئر کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اس سے تمہارے مضمون کا معیار گر جائے گا تمہیں شاعری کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟تمہیں تو ابھی پڑھنا چاہیے ان میدان کو تمہیں چھوڑ دینا چاہئے وغیرہ وغیرہ
مذکورہ بالا تنقید تنقید برائے اصلاح نہیں بلکہ تنقید برائے تخریب ہے کیونکہ نئے قلمکاروں کی شہرت بہار کی دھرتی سے لیکر دلی کے لال قلعہ کے ساتھ ساتھ کشمیر کی وادی سے ہوتے ہوئے نیپال کی ہمالیہ پہاڑ تک پہنچ رہی ہے چنانچہ یہ ترقی اور شہرت ان کے حلق کے نیچے نہیں اتر رہی ہے اور یہ لوگ سوچ رہے ہیں کہ اگر یہ نئے قلمکار اور شعراء یونہی روز بروز میدان میں چھکے اور چوکے لگاتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہمیں ہندوستانی سرزمین میں کوئی گھاس تک نہیں ڈالے گا ۔ہماری مکاری والی داڑھی ۔عیاری والی ٹوپی اور چاپلوسی والے جملے بھی کوئی کام نہ آینگے ۔کچھ نئے تنقید نگاروں نہ تو یہ بھی تنقید کی کہ پیک کے ساتھ مضامین کو شائع کرنے اور اسے فیس بک پر شیئر کرنے کی کیا ضرورت تھی حالانکہ اگر صاحب قول کے پروفائل کو دیکھے تو معلوم ہوگا کہ کبھی تو ان کے مضامین تو اس لائق نہیں ہوتے ہیں کہ اس کو شائع کیا جائے اگر دھوکہ سے کبھی مراسلات وغیرہ میں چھپ بھی گیا تو اسے خود بار بار شیئر کرتے ہیں اور اسے بھی وہی لوگ لائک یا سبحان اللہ یا پھر ماشاء اللہ لکھ کر کمینٹ کرتے ہیں جسے آپ جاہل لکھ کر ان کم پڑھے لکھے لوگوں کے دلوں کو چاک کرہے ہیں اگر یہی لوگ آپ کے مضامین کو لائک و کمینٹ کرتے ہیں تو آپ دعائے خیر دیتے ہیں اور دوسرے کو لائک و کمینٹ کرے تو جاہل یہ کہاں کا انصاف ہے صاحب؟ اسی طرح کچھ لوگوں نے کہاں کے سیٹلمینٹ ہونے کی فکر دامن گیر ہے حالانہ یہ کہنے سے پہلے خود اپنی ذات پر غور کر لئے ہوتے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ چاپلوسی اور خصیہ برداری کرکے سودا اور ذوق کے قصیدے کی طرح اپنی تحریر کو بناکر کوئی سعودی میں سیٹ ہورہا ہے تو کوئی سعودی سے لوٹ کر ہندوستان میں اپنی جگہ بنا رہا ہے اس لئے دوسروں پر تنقید کرنے اور ہنسنے سے پہلے اپنی ذات پر غور کروں اگر کسی کی ہمت افزائی نہیں کرسکتے تو کم سے کم اللہ کی خاطر دوسروں کی ترقی سے مت جلو اور فالتوں کا نصیحت مت کرو کیونکہ آپ کی شخصیت اس لائق نہیں کہ آپ دوسروں کو نصیحت کرو دوسرے کے پیچھے پڑنے سے بہتر ہے کہ اپنی مکاری اور چاپلوسی کی دنیا میں لگے رہیں اسی میں آپ کی اور آپ کی مکاری والی شہرت پسند زندگی کی بھلائی ہے.
مانو کالج اورنگ آباد مہاراشٹرا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج کل نام نہاد مولویوں کی ایک ٹیم اپنے آپ کو ناصح سمجھ بیٹھے ہیں حالانکہ اگر ان کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی ذات خود نصیحت کے لائق ہے اس لئے کہاں جاتا ہے کہ اپنی آنکھ کا تار نہیں دیکھتا لیکن دوسروں کی آنکھوں کا تنکا دیکھ جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کل کچھ پرانے لکھاریوں اور پڑھاکروں (حالانکہ کہ وہ خود صحافت اور شعر و شاعری کی میدان میں نئے ہیں )کی ایک جماعت برساتی مینڈکوں کی طرح فیس بک اور واٹ سپ پر واویلا مچا رہے ہیں، شور و غل کر رہے ہیں کہ ہم تو پرانے شاعروں میں سے اقبال و غالب اور علم میں ائمہ اربعہ ہیں تو بھلا تنقید کا میدان ہم سے کیسے چھوٹ جائے گا اس لئے یہ پرانے لکھاریوں،
پڑھاکروں اور تنقید نگاروں نے اس میدان میں بھی اپنے آپ کو الطاف حسین حالی، آل احمد سرور اور کلیم الدین احمد سمجھ بیٹھے لیکن تنقید کے لیے علم میں پختگی چاہئے مگر ان بے چارے کو تو تنقید کا بھوت سوار تھا آخر کسی نہ کسی پر تنقید تو کرنی ہی تھی اس سوچ و بچار میں کہ کس پر تنقید کرے ان کا بہت سارا قیمتی وقت گزرتا رہا لیکن انہیں یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ کن پے تنقید کرنی ہے اور کیسے کرنی ہے اچانک ان کی نگاہ ایک ایسے نئے صاحب قلمکار کے مضمون پر پڑی جس میں ایک ابھرتے ہوئے نہایت ہی متحرک صحافی اور شاعر کی شان میں گلہائے عقیدت پیش کئے گئے تھے یا یہ کہ وہ مضمون ان کی حوصلہ افزائی کے لئے تحریر کی گئی تھی اس کو دیکھ کر اور پڑھ کر اس پرانے لکھاریوں اور پڑھاکروں کا چہرہ غصہ سے لال ہوگیا اور سوچنے لگا کہ آخر میرے پاس ابن تیمیہ کے برابر علم ہےاور میں شاعری میں اقبال کے ہم پلہ ہوں لیکن اس کے باوجود بھی نہ تو ہمارے مضامین کہیں سے چھپ رہے ہیں اور نہ ہی ہماری شان میں کوئی مضمون لکھ کر گلہائے عقیدت پیش کر رہا ہے اس لئے اس نے ممدوح کی جم کر تنقید برائے تخریب شروع کر دی انہیں طعنے دیئے کہ ایک ہی مضمون کو ہندوستان کے کونے کونے میں چھپوا کر بار بار فیس بک اور واٹ سپ پر شیئر کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اس سے تمہارے مضمون کا معیار گر جائے گا تمہیں شاعری کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟تمہیں تو ابھی پڑھنا چاہیے ان میدان کو تمہیں چھوڑ دینا چاہئے وغیرہ وغیرہ
مذکورہ بالا تنقید تنقید برائے اصلاح نہیں بلکہ تنقید برائے تخریب ہے کیونکہ نئے قلمکاروں کی شہرت بہار کی دھرتی سے لیکر دلی کے لال قلعہ کے ساتھ ساتھ کشمیر کی وادی سے ہوتے ہوئے نیپال کی ہمالیہ پہاڑ تک پہنچ رہی ہے چنانچہ یہ ترقی اور شہرت ان کے حلق کے نیچے نہیں اتر رہی ہے اور یہ لوگ سوچ رہے ہیں کہ اگر یہ نئے قلمکار اور شعراء یونہی روز بروز میدان میں چھکے اور چوکے لگاتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہمیں ہندوستانی سرزمین میں کوئی گھاس تک نہیں ڈالے گا ۔ہماری مکاری والی داڑھی ۔عیاری والی ٹوپی اور چاپلوسی والے جملے بھی کوئی کام نہ آینگے ۔کچھ نئے تنقید نگاروں نہ تو یہ بھی تنقید کی کہ پیک کے ساتھ مضامین کو شائع کرنے اور اسے فیس بک پر شیئر کرنے کی کیا ضرورت تھی حالانکہ اگر صاحب قول کے پروفائل کو دیکھے تو معلوم ہوگا کہ کبھی تو ان کے مضامین تو اس لائق نہیں ہوتے ہیں کہ اس کو شائع کیا جائے اگر دھوکہ سے کبھی مراسلات وغیرہ میں چھپ بھی گیا تو اسے خود بار بار شیئر کرتے ہیں اور اسے بھی وہی لوگ لائک یا سبحان اللہ یا پھر ماشاء اللہ لکھ کر کمینٹ کرتے ہیں جسے آپ جاہل لکھ کر ان کم پڑھے لکھے لوگوں کے دلوں کو چاک کرہے ہیں اگر یہی لوگ آپ کے مضامین کو لائک و کمینٹ کرتے ہیں تو آپ دعائے خیر دیتے ہیں اور دوسرے کو لائک و کمینٹ کرے تو جاہل یہ کہاں کا انصاف ہے صاحب؟ اسی طرح کچھ لوگوں نے کہاں کے سیٹلمینٹ ہونے کی فکر دامن گیر ہے حالانہ یہ کہنے سے پہلے خود اپنی ذات پر غور کر لئے ہوتے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ چاپلوسی اور خصیہ برداری کرکے سودا اور ذوق کے قصیدے کی طرح اپنی تحریر کو بناکر کوئی سعودی میں سیٹ ہورہا ہے تو کوئی سعودی سے لوٹ کر ہندوستان میں اپنی جگہ بنا رہا ہے اس لئے دوسروں پر تنقید کرنے اور ہنسنے سے پہلے اپنی ذات پر غور کروں اگر کسی کی ہمت افزائی نہیں کرسکتے تو کم سے کم اللہ کی خاطر دوسروں کی ترقی سے مت جلو اور فالتوں کا نصیحت مت کرو کیونکہ آپ کی شخصیت اس لائق نہیں کہ آپ دوسروں کو نصیحت کرو دوسرے کے پیچھے پڑنے سے بہتر ہے کہ اپنی مکاری اور چاپلوسی کی دنیا میں لگے رہیں اسی میں آپ کی اور آپ کی مکاری والی شہرت پسند زندگی کی بھلائی ہے.