تحریر : عزیز اعظمی اسرولی سرائے میر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
دادا کا نام جُھوری تھا، ابا گُھورَاُو کہے جاتے تھے، ایسا نام جس کا نہ کوئی معنی نہ کوئی مطلب، ایک دن میں نے اماں سے پوچھا جب دادا کا نام جُھوری تھا تو ابا کا نام اس سے زیادہ بگاڑ کر گُھورَاُو رکھنے کی کیا ضرورت تھی، اتنا پوچھنا تھا کہ پیچھے بیٹھی دادی نے اپنا سوٹا اٹھایا اور میری تشریف پر ایک رسید کرتے ہوئے کہا کہ جب سے تو مدرسہ جانے لگا ہے بقراط ہو گیا ، بڑا سوال کرتا ہے، ہر بات کی کیل نکالتا ہے، تیرے باپ کا نام اگر گُھورَاُو نہ ہوتا تو آج تیرا وجود نہ ہوتا، اچھا ہوا میں رحمت اللہ کو گُھورَاُو کہنے لگی کہ وہ بیماری سے بچ گیا ورنہ ہمارے زمانے میں جب ہیضہ اور طاعون کی بیماری آتی تو گاوں کا گاوں صاف ہو جاتا، بھلا ہو پہاڑی والے بابا کہ انھوں نے بتایا کہ اگر بچوں کو ہیضہ و طاعون سے محفوظ رکھنا ہے تو انکا نام بگاڑ کر رکھو، میں نے انکے کہنے پر رحمت اللہ کا دوسرا نام گُھورَاُو رکھا اور وہ بیماری سے بچ گیا، اللہ بابا کو جنت میں اعلی مقام دے بہت پہونچے ہوئے عالم تھے ، مجھے زرا سا بھی کچھ ہوتا سیدھے بابا کے پاس جاتی ۔۔ ہائے ہائے ….. ایسی تعویز دیتے ہیں کہ پل بھر میں سکون مل جاتا ۔۔ اور سکون ملتا بھی کیسے نا جو انکے پاس اتنے بڑے بڑے موکل آتے تھے ، رقیہ کو کسی نے کچھ کھلا دیا تھا بابا سے ہی آرام ہوا ، تمہارے باپ گُھورَاُو کی جہاں نوکری لگتی چھوٹ جاتی ، بابا کے پاس لے گئی بابا نے دیکھتے ہی کہا کسی نے اسکی روزی باندھ دی ہے بابا نے تعویز دی چالیس دن پتھر کے نیچے دبایا نوکری مل گی ۔ نیک لوگ بڑی جلدی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں میرا تو ان پر بڑا عقیدہ تھا ۔
اچھا اب سمجھا …….یہ ساری توہم پرستی ، بد عقیدگی ان باباؤں کی دین ہے ، یہ سارا اندھ وشواس پہاڑی والے بابا کا پھیلایا ہوا ہے ، ایک آپ بہت نیک ہیں دوسرے آپکے بابا … گستاخی معاف ہو دادی….. آپ تو عقیدے کے معاملے اتنی کچی ہیں ، جتنا کہ مٹی کا گھڑا ، اب ابا کو نوکری کیسے ملتی جب وہ کام کرنا ہی نہیں چاہتے تھے مہینے میں پندرہ دن کام پر جاتے اور پندرہ دن سوتے تو بھلا بتایئے اب ایسے محنتی شخص کو کون نوکری پر رکھتا ، دادا کے انتقال کے بعد جب ذمہ داری آئی محنت کرنے لگے ، پابندی سے نوکری پر جانے لگے تو آج تک برقرار ہیں ، دادی سارے اختیارات کا مالک اللہ ہے ، وہی روزی دینے والا بھی ہے اور رزی تنگ کرنے والا بھی ، وہی مرض دینے والا بھی ہے اور شفاء بھی ، ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور اسی سے مانگنا چاہیئے بس اپنے حصے کی کوشش اورمحنت ایمانداری سےکرنی چاہئے ، اللہ کبھی مایوس نہیں کرے گا ، اور یہ بابا تو صرف عقیدہ خراب کرتے ہیں ، اندھ وشواش پھیلاتے ہیں ایسے لوگوں پر تو اللہ کی پھٹکار ہے ۔
جاوید خبردار…... اگر پہاڑی والے بابا کے بارے میں کچھ برا بھلا کہا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ، میں نے گُھورَاُو سے پہلے ہی کہا تھا کہ اس کا نام مدرسے پر مت لکھواؤ یہ وہاں جائے گا تو اس کا دماغ خراب ہو گا ، پھر مولویوں کی طرح پیروں اور مریدوں کے بارے میں اناپ شناپ بکے گا ۔ دادی مولوی جعلی باباؤں ، جعلی عاملوں کو اناپ شناپ نہیں بولتے ، بلکہ آپ جیسے کمزور ایمان والوں کو صحیح راستہ دکھا رہے ہیں ، اندھ وشواس سے نکال رہے ہیں ۔ ان پیروں ، مرشدوں اور باباؤں کے چنگل سے آزاد کرا رہے ہیں ، انکی حقیقت دنیا کو بتا رہے ہیں جنھوں نے معصوم لوگوں کو برسوں سے گمراہی میں دھکیل رکھا ہے ۔ اپنی کئے ، دھرے ، کھلانے ، پلانے والی جھوٹی بے بنیاد باتوں میں پھنسا کر محلے پڑوس سے لیکر رشتے ، ناطوں کے آپسی تعلقات میں محبت کے بجائے نفرت اور زہر گھول رکھا ہے ، کیا آجکل آپ نے ٹی وی پر نہیں دیکھا کہ کیسے کیسے دو نمبری ، جعلی بابا پکڑے گئے ہیں جو بھگتی کے نام پر معصوم بچیوں کے ساتھ کھلواڑ کر رہے تھے ، انکی عزتوں کو تار تار کررہے تھے ، گفاؤں اور تہہ خانوں میں رکھ کر ان کی زندگیاں برباد کر رہے تھے ، بھلا ہو ان ٹی وی چینلوں کا جو ہمیشہ تو نہیں لیکن جب کبھی زعفرانیت کی قید سے باہر آتے ہیں تو کچھ حد تک صحافت کا حق ادا کرتے ہیں ، ملکی مسائل پر جب نگاہ ڈالتے ہیں تو بڑے بڑے مگر مچھو کو تو نہیں لیکن ایسے ایسے پاکھنڈی باباوں کا پردہ ضرور فاش کرتے ہیں جو ملک کو اندھ وشواس میں دھکیل رکھا ہے ۔
دادی ایک بات بتایئے ……. اگر آپ کے زمانے میں اچھا نام رکھنے پر لوگ مر جاتے تھے تو آپ کا نام تو ہاجرہ بی بی تھا کیسے بچ گئیں ، رسول دادا اور انکے تین بچے سب کا نام بہت اچھا ہے وہ سب کیسے بچ گئے ، بیکانو بابا کے دو بچے جِھینگربَھیا اور مِیدُر بَھیا برے نام رکھنے کے باوجود کیسے مر گئے ۔ دادی بیماری نہ اچھے نام رکھنے سے آتی ہے اور نہ برے نام رکھنے سے جاتی ہے ۔ موت نہ برا نام رکھنے سے آتی ہے اور نہ ہی اچھا نام رکھنے سے جاتی ہے ، موت حتمی ہے نہ وہ اپنے مقررہ وقت سے ایک پل آگے ہوگی نہ ایک پل پیچھے ۔ بیماری دوا علاج ، پرہیز ، احتیاط سے جاتی ہے اور فطرت کے خلاف کام کرنے ، قدرتی احکامات کی خلاف ورزی کرنے ، بد احتیاطی اور گندگی پھیلانے سے آتی ہے ، ہمیں کھانے پینے ، رہنے سہنے میں احتیاط برتنی چاہئے ، فطرت کے مطابق چلنا چاہیے ، اللہ کے احکامات مطابق عمل کرنا چاہیے ۔
دادی آپکو پتہ ہے انسانوں کے مقابلے میں جانوروں میں بیماری کم پائی جاتی ہے کیونکہ وہ فطرت کے خلاف نہیں جاتا ، قدرتی احکامات کی خلاف ورزی نہیں کرتا ، وقت سے کھاتا ہے ، وقت پر سوتا ہے ، وقت سے اٹھتا ہے ، اللہ نے جتنا کہا اتنی ہی کرتا ہے ، جو کھانے کو بتایا وہی کھاتا ہے ، جو پینے کو بتایا وہی پیتا ہے ، لیکن انسان ایسا نہیں کرتا ، وہ فطرت کے خلاف جاتا ہے ، اللہ کے احکامات پر عمل کے بجائے اسکو چیلنج کرتا ہے ، شربت کے بجائے شراب پیتا ہے ، حلال کے بجائے حرام کھاتا ہے ، وقت کے بجائے بے وقت سوتا ہے ، محتاط نہیں بے احتیاط رہتا ہے ، توہم پرستی ، قدامت پرستی رسم و رواج کے نام پر صفائی نہیں آلودگی پھیلاتا ہے ، نتیجتا پھر نئی نئی بیماریوں کو وجود میں لاتا ہے مرض کی تشخیص ہونے ، تحقیق کرنے ، دوا بنانے تک لا علاج دم توڑ دیتا ہے ، پریشانی میں باباووں ، پیروں ، مریدوں کے پاس جاکر اندھ وشواس میں پڑکر پھر اہنا عقیدہ ، دین و ایمان سب خراب کرتا ہے ۔
بیٹا جا وید تم نے صحیح کہا تعلیم کی کمی نے ہمارا عقیدہ خراب کر دیا ہے ، میں تمہارے مدرسے پر پڑھنے کے خلاف تھی لیکن اللہ کا شکر رہا کہ رحمۃ اللہ نے تیرا نام مدرسے پر لکھوایا جو تمہارے اندر دینی شعور پیدا ہوا اور ہماری بھی ہنمائی کی ، میں تقریروں میں سنتی تھی کہ توہم پرستی ، بدشگونی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ، لیکن کم علمی ، دینی تعلیم کی ناواقفیت ، ہندووں کے بیچ رہن سہن کی وجہ سے برسوں سے مبتلا اس مرض سے نکلنا مشکل تھا ، لیکن بیٹا جاوید آج تمہاری باتوں نے مجھے بہت متاثر کیا ، میری آنکھیں کھل گئیں ، کاش کسی نے آج سے پہلے مجھے اس طرح موثر انداز میں سمجھایا ہوتا تو میں کبھی ان جعلی باباوں کے چکر میں پڑکے اپنا عقیدہ خراب نہ کرتی ، کبھی اپنے بیٹے کا نام بگاڑ کر یوں گُھورَاُو نہ رکھتی آج سے میں اپنے بیٹے کو رحمت اللہ ہی کہوں گی جو اس کا اصل نام ہے ۔
اللہ ہمیں معاف فرمائے ہمیں اندھ شواس اور توہم پرستی سے نکال کر دین کی صحیح سمجھ عطاء کرے ۔آمیــــن
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
دادا کا نام جُھوری تھا، ابا گُھورَاُو کہے جاتے تھے، ایسا نام جس کا نہ کوئی معنی نہ کوئی مطلب، ایک دن میں نے اماں سے پوچھا جب دادا کا نام جُھوری تھا تو ابا کا نام اس سے زیادہ بگاڑ کر گُھورَاُو رکھنے کی کیا ضرورت تھی، اتنا پوچھنا تھا کہ پیچھے بیٹھی دادی نے اپنا سوٹا اٹھایا اور میری تشریف پر ایک رسید کرتے ہوئے کہا کہ جب سے تو مدرسہ جانے لگا ہے بقراط ہو گیا ، بڑا سوال کرتا ہے، ہر بات کی کیل نکالتا ہے، تیرے باپ کا نام اگر گُھورَاُو نہ ہوتا تو آج تیرا وجود نہ ہوتا، اچھا ہوا میں رحمت اللہ کو گُھورَاُو کہنے لگی کہ وہ بیماری سے بچ گیا ورنہ ہمارے زمانے میں جب ہیضہ اور طاعون کی بیماری آتی تو گاوں کا گاوں صاف ہو جاتا، بھلا ہو پہاڑی والے بابا کہ انھوں نے بتایا کہ اگر بچوں کو ہیضہ و طاعون سے محفوظ رکھنا ہے تو انکا نام بگاڑ کر رکھو، میں نے انکے کہنے پر رحمت اللہ کا دوسرا نام گُھورَاُو رکھا اور وہ بیماری سے بچ گیا، اللہ بابا کو جنت میں اعلی مقام دے بہت پہونچے ہوئے عالم تھے ، مجھے زرا سا بھی کچھ ہوتا سیدھے بابا کے پاس جاتی ۔۔ ہائے ہائے ….. ایسی تعویز دیتے ہیں کہ پل بھر میں سکون مل جاتا ۔۔ اور سکون ملتا بھی کیسے نا جو انکے پاس اتنے بڑے بڑے موکل آتے تھے ، رقیہ کو کسی نے کچھ کھلا دیا تھا بابا سے ہی آرام ہوا ، تمہارے باپ گُھورَاُو کی جہاں نوکری لگتی چھوٹ جاتی ، بابا کے پاس لے گئی بابا نے دیکھتے ہی کہا کسی نے اسکی روزی باندھ دی ہے بابا نے تعویز دی چالیس دن پتھر کے نیچے دبایا نوکری مل گی ۔ نیک لوگ بڑی جلدی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں میرا تو ان پر بڑا عقیدہ تھا ۔
اچھا اب سمجھا …….یہ ساری توہم پرستی ، بد عقیدگی ان باباؤں کی دین ہے ، یہ سارا اندھ وشواس پہاڑی والے بابا کا پھیلایا ہوا ہے ، ایک آپ بہت نیک ہیں دوسرے آپکے بابا … گستاخی معاف ہو دادی….. آپ تو عقیدے کے معاملے اتنی کچی ہیں ، جتنا کہ مٹی کا گھڑا ، اب ابا کو نوکری کیسے ملتی جب وہ کام کرنا ہی نہیں چاہتے تھے مہینے میں پندرہ دن کام پر جاتے اور پندرہ دن سوتے تو بھلا بتایئے اب ایسے محنتی شخص کو کون نوکری پر رکھتا ، دادا کے انتقال کے بعد جب ذمہ داری آئی محنت کرنے لگے ، پابندی سے نوکری پر جانے لگے تو آج تک برقرار ہیں ، دادی سارے اختیارات کا مالک اللہ ہے ، وہی روزی دینے والا بھی ہے اور رزی تنگ کرنے والا بھی ، وہی مرض دینے والا بھی ہے اور شفاء بھی ، ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور اسی سے مانگنا چاہیئے بس اپنے حصے کی کوشش اورمحنت ایمانداری سےکرنی چاہئے ، اللہ کبھی مایوس نہیں کرے گا ، اور یہ بابا تو صرف عقیدہ خراب کرتے ہیں ، اندھ وشواش پھیلاتے ہیں ایسے لوگوں پر تو اللہ کی پھٹکار ہے ۔
جاوید خبردار…... اگر پہاڑی والے بابا کے بارے میں کچھ برا بھلا کہا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ، میں نے گُھورَاُو سے پہلے ہی کہا تھا کہ اس کا نام مدرسے پر مت لکھواؤ یہ وہاں جائے گا تو اس کا دماغ خراب ہو گا ، پھر مولویوں کی طرح پیروں اور مریدوں کے بارے میں اناپ شناپ بکے گا ۔ دادی مولوی جعلی باباؤں ، جعلی عاملوں کو اناپ شناپ نہیں بولتے ، بلکہ آپ جیسے کمزور ایمان والوں کو صحیح راستہ دکھا رہے ہیں ، اندھ وشواس سے نکال رہے ہیں ۔ ان پیروں ، مرشدوں اور باباؤں کے چنگل سے آزاد کرا رہے ہیں ، انکی حقیقت دنیا کو بتا رہے ہیں جنھوں نے معصوم لوگوں کو برسوں سے گمراہی میں دھکیل رکھا ہے ۔ اپنی کئے ، دھرے ، کھلانے ، پلانے والی جھوٹی بے بنیاد باتوں میں پھنسا کر محلے پڑوس سے لیکر رشتے ، ناطوں کے آپسی تعلقات میں محبت کے بجائے نفرت اور زہر گھول رکھا ہے ، کیا آجکل آپ نے ٹی وی پر نہیں دیکھا کہ کیسے کیسے دو نمبری ، جعلی بابا پکڑے گئے ہیں جو بھگتی کے نام پر معصوم بچیوں کے ساتھ کھلواڑ کر رہے تھے ، انکی عزتوں کو تار تار کررہے تھے ، گفاؤں اور تہہ خانوں میں رکھ کر ان کی زندگیاں برباد کر رہے تھے ، بھلا ہو ان ٹی وی چینلوں کا جو ہمیشہ تو نہیں لیکن جب کبھی زعفرانیت کی قید سے باہر آتے ہیں تو کچھ حد تک صحافت کا حق ادا کرتے ہیں ، ملکی مسائل پر جب نگاہ ڈالتے ہیں تو بڑے بڑے مگر مچھو کو تو نہیں لیکن ایسے ایسے پاکھنڈی باباوں کا پردہ ضرور فاش کرتے ہیں جو ملک کو اندھ وشواس میں دھکیل رکھا ہے ۔
دادی ایک بات بتایئے ……. اگر آپ کے زمانے میں اچھا نام رکھنے پر لوگ مر جاتے تھے تو آپ کا نام تو ہاجرہ بی بی تھا کیسے بچ گئیں ، رسول دادا اور انکے تین بچے سب کا نام بہت اچھا ہے وہ سب کیسے بچ گئے ، بیکانو بابا کے دو بچے جِھینگربَھیا اور مِیدُر بَھیا برے نام رکھنے کے باوجود کیسے مر گئے ۔ دادی بیماری نہ اچھے نام رکھنے سے آتی ہے اور نہ برے نام رکھنے سے جاتی ہے ۔ موت نہ برا نام رکھنے سے آتی ہے اور نہ ہی اچھا نام رکھنے سے جاتی ہے ، موت حتمی ہے نہ وہ اپنے مقررہ وقت سے ایک پل آگے ہوگی نہ ایک پل پیچھے ۔ بیماری دوا علاج ، پرہیز ، احتیاط سے جاتی ہے اور فطرت کے خلاف کام کرنے ، قدرتی احکامات کی خلاف ورزی کرنے ، بد احتیاطی اور گندگی پھیلانے سے آتی ہے ، ہمیں کھانے پینے ، رہنے سہنے میں احتیاط برتنی چاہئے ، فطرت کے مطابق چلنا چاہیے ، اللہ کے احکامات مطابق عمل کرنا چاہیے ۔
دادی آپکو پتہ ہے انسانوں کے مقابلے میں جانوروں میں بیماری کم پائی جاتی ہے کیونکہ وہ فطرت کے خلاف نہیں جاتا ، قدرتی احکامات کی خلاف ورزی نہیں کرتا ، وقت سے کھاتا ہے ، وقت پر سوتا ہے ، وقت سے اٹھتا ہے ، اللہ نے جتنا کہا اتنی ہی کرتا ہے ، جو کھانے کو بتایا وہی کھاتا ہے ، جو پینے کو بتایا وہی پیتا ہے ، لیکن انسان ایسا نہیں کرتا ، وہ فطرت کے خلاف جاتا ہے ، اللہ کے احکامات پر عمل کے بجائے اسکو چیلنج کرتا ہے ، شربت کے بجائے شراب پیتا ہے ، حلال کے بجائے حرام کھاتا ہے ، وقت کے بجائے بے وقت سوتا ہے ، محتاط نہیں بے احتیاط رہتا ہے ، توہم پرستی ، قدامت پرستی رسم و رواج کے نام پر صفائی نہیں آلودگی پھیلاتا ہے ، نتیجتا پھر نئی نئی بیماریوں کو وجود میں لاتا ہے مرض کی تشخیص ہونے ، تحقیق کرنے ، دوا بنانے تک لا علاج دم توڑ دیتا ہے ، پریشانی میں باباووں ، پیروں ، مریدوں کے پاس جاکر اندھ وشواس میں پڑکر پھر اہنا عقیدہ ، دین و ایمان سب خراب کرتا ہے ۔
بیٹا جا وید تم نے صحیح کہا تعلیم کی کمی نے ہمارا عقیدہ خراب کر دیا ہے ، میں تمہارے مدرسے پر پڑھنے کے خلاف تھی لیکن اللہ کا شکر رہا کہ رحمۃ اللہ نے تیرا نام مدرسے پر لکھوایا جو تمہارے اندر دینی شعور پیدا ہوا اور ہماری بھی ہنمائی کی ، میں تقریروں میں سنتی تھی کہ توہم پرستی ، بدشگونی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ، لیکن کم علمی ، دینی تعلیم کی ناواقفیت ، ہندووں کے بیچ رہن سہن کی وجہ سے برسوں سے مبتلا اس مرض سے نکلنا مشکل تھا ، لیکن بیٹا جاوید آج تمہاری باتوں نے مجھے بہت متاثر کیا ، میری آنکھیں کھل گئیں ، کاش کسی نے آج سے پہلے مجھے اس طرح موثر انداز میں سمجھایا ہوتا تو میں کبھی ان جعلی باباوں کے چکر میں پڑکے اپنا عقیدہ خراب نہ کرتی ، کبھی اپنے بیٹے کا نام بگاڑ کر یوں گُھورَاُو نہ رکھتی آج سے میں اپنے بیٹے کو رحمت اللہ ہی کہوں گی جو اس کا اصل نام ہے ۔
اللہ ہمیں معاف فرمائے ہمیں اندھ شواس اور توہم پرستی سے نکال کر دین کی صحیح سمجھ عطاء کرے ۔آمیــــن