اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: سیتامڑھی: مدنی مسافر خانہ مہسول چوک پر علمائے دیوبند کا علمی کارنامہ اور آزادئ ہند میں علماء کا کلیدی کردار کے عنوان پر جلسے کا انعقاد!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday, 3 September 2018

سیتامڑھی: مدنی مسافر خانہ مہسول چوک پر علمائے دیوبند کا علمی کارنامہ اور آزادئ ہند میں علماء کا کلیدی کردار کے عنوان پر جلسے کا انعقاد!

محمد امین الرشید سیتامڑھی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
سیتامڑھی(آئی این اے نیوز 3/ستمبر 2018 مدنی مسافر خانہ مہسول چوک پر علمائے دیوبند کا علمی کارنامہ اور آزادئ ہند میں کلیدی کردار کے عنوان پر مدنی مسافر خانہ میں ایک اہم مجلس منعقد کی گئی، اجلاس کی صدارت عارف بااللہ حضرت مولانا حکیم ظہیر احمد صاحب قاسمی دامت برکاتہم ناظم وبانی جامعہ طیب المدارس پریہار نے کی
جبکہ نظامت کے فرائض حضرت مولانا رضوان القاسمی صاحب نے انجام دیا، مجلس کا آغاز قاری محمد مامون الرشید صاحب دامت برکاتہم استاد مدرسہ طیب المدارس پریہار کی تلاوت سے ہوا، مولانا عظمت صاحب نے عمدہ آواز میں نعت نبی گنگنایا، بعدہ حضرت مولانا شوکت صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مقام اور انکے کارنامے پر روشنی ڈالی اور فرمایا بشارتِ مقامِ امام ابوحنیفہؒ قرآن، حدیث اور علماءِ سلف سے، حافظ ابن کثیر شافعیؒ نے امام اعظم ابوحنیفہؒ کے بارے میں فرمایا ہے وہ امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کوفی ہیں، عراق کے فقیہ ائمہ اسلام میں سے ایک ہیں، عظیم سرداروں میں سے ایک ہیں، ارکان علماء میں سے ہیں، صاحب مذاہب متبوعہ کے چار اماموں میں سے ایک ہیں، طویل حیات پائے، اس لیے انہوں نے صحابہ کا زمانہ پایا اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکها اور حضرات نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے(امام صاحب نے) سات صحابہ سے روایت کی ہے، امام صاحب کی وفات 150 ھجری میں ہوئی۔ [البدایہ والنہایہ ج10 ص 123]
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " تُرْفَعُ زِينَةُ الدُّنْيَا سَنَةَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ وَمِائَةٍ " .
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اٹھ جائے گی زینت دنیا کی 150 سال میں۔
[مسند البزار:1027، مسند أبي يعلى:851، جامع المسانيد والسُّنَن، لابن کثیر:7069، مجمع الزوائد:12091، إتحاف الخيرة المهرة:414+7439، المطالب العالية، لابن حجر العسقلانی:4481]
القرآن: (1) اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے.[سوره محمّد:٣٨]
حدیث میں ہے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ دوسری قوم کون ہے جس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ پرہاتھ رکھ کر فرمایا "اس کی قوم "اور فرمایا" خدا کی قسم اگر ایمان ثریا پر جا پہنچے تو فارس کے لوگ وہاں سے بھی اس کو اتار لائیں گے۔ [جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1208+1209, قرآن کی تفسیر کا بیان: سورت محمد کی تفسیر]
"الحمد للہ صحابہ رضوان اللہ عنہم نے اس بینظیر ایثار اور جوش ایمانی کا ثبوت دیا کہ ان کی جگہ دوسری قوم کو لانے کی نوبت نہ آئی۔ تاہم فارس والوں نے اسلام میں داخل ہو کر علم اور ایمان کا وہ شاندار مظاہرہ کیا اور ایسی زبردست دینی خدمات انجام دیں جنہیں دیکھ کر ہر شخص کو ناچار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے موافق یہ ہی قوم تھی جو بوقت ضرورت عرب کی جگہ پر کر سکتی تھی۔ ہزارہا علماء و آئمہ سے قطع نظر کر کے تنہا امام اعظم ابو حنیفہؒ کا وجود ہی اس پیشین گوئی کے صدق پر کافی شہادت ہے۔ بلکہ اس بشارت عظمیٰ کا کامل اور اولین مصداق امام صاحب ہی ہیں۔
حضرت مولانا عبدالودود صاحب مظاہری دامت برکاتہم پرنسپل مدرسہ رحمانیہ مہسول نے فرمایا کہ مسلمانوں کی موجودہ صورت حال ان کا اپنے رب سے رشتہ کمزور کر لینے کی وجہ سے ہے اس لئے اگر آپ چاہتے ہیں کہ دنیا میں آپ کو عزت کا مقام حاصل ہو اور آپ اللہ کے پسندیدہ بن کر زندگی گزاریں تو آپ کو اپنے ایمان اور عمل صالح کا محاسبہ کرنا ہوگا انہوں نے کہا کہ علماء کی جہاں یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امت کے اندر اعمال صالحہ کی تڑپ پیدا کرنے کی فکر کریں وہیں عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عملی کردار کا محاسبہ کر کے اپنی زندگی میں اصلاح پیدا کرنے کو یقینی بنائیں انہوں نے کہا کہ جب تک ہم اپنی نسلوں میں مکمل دین کو پیدا نہیں کر دیتے اس وقت تک صالح معاشرہ کی تعمیر ممکن نہیں.
حضرت مولانا اظہار الحق صاحب مظاھری دامت برکاتہم العالیہ نائب ناظم الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنہواں نےفرمایا کہ علمائے دیوبند ہمیشہ تعمیری کام کیا ہے، اور مثبت فکر و کردار کے ساتھ میدان عمل میں کار نامے انجام دیے ہیں آپ نے فرمایاکہ تقلید انسان کی فطری ضرورت ہے اور اس سے آزادی بے راہ روی اور بے دینی کے دروازے کو کھول دے گی.
حضرت مولانا قاری شبیر صاحب قاسمی ناظم مدرسہ شکرپور بھروارہ دربھنگہ نے دارالعلوم دیوبند کا قیام اور اس کاپس منظر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہان تمام حالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کے بعد جو ہم بارہویں صدی ہجری میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور آپ کے اہل خاندان کی خدمات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف تو آپ نے رجوع الی القرآن کے مقصد سے آسان تفہیم کے لیے فتح الرحمن نامی فارسی ترجمہ کی خدمت انجام دی اور آپ کے صاحبزادوں میں حضرت شاہ عبدالعزیز نے فارسی میں ایک عظیم تفسیر لکھنی شروع کی جو مکمل نہ ہوسکی اور اس تشنگی کا آج بھی اہل علم میں احساس پایا جاتا ہے۔ پھر ان کے بعد آپ کے برادران حضرت شاہ عبدالقادر وفات ۱۲۳۰ھ اور شاہ رفیع الدین وفات ۱۲۳۳ھ نے بامحاورہ اور تحت اللفظ ترجمے تحریر فرمائے جو بعد کے تفسیری کام کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دینی مدارس کے نصاب کے لیے آپ نے مختلف علوم وفنون پر کتابیں مدون فرمائیں جو آئندہ مدارس کے لیے ایک مشعل ہدایت ثابت ہوئیں۔
      اس کے علاوہ حضرت شاہ ولی اللہ اوران کے ہمنوا علماء کرام نے ایک انقلابی جماعت کی بنیاد ڈالی جس کے تیسرے امام حضرت شاہ عبدالغنی اورآپ کی وفات کے بعد چوتھے امام حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (وفات ۱۳۱۷ھ ۱۸۹۹/)(۸) مقرر ہوئے۔ نیز آپ کے شرکا میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (وفات ۸/۶/۱۳۲۳ھ) اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی خاص طور پر شامل تھے۔ ان حضرات نے ایک طرف عملاً انگریز کے خلاف جہاد کا آغاز کیا جو بہمہ وجوہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوا۔ دوسری طرف حضرت حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی (وفات ۱۲۲۷ھ- ۱۸۸۰/) اور آپ کے رفقاء نے اپنی فراست ایمانی اور دیدہ بصیرت سے اندازہ لگایا تھا کہ ان نازک حالات میں اگر مسلمانوں کو قرآن وحدیث اور دیگر علوم اسلامیہ سے واقف کرانے کا کوئی معقول اورمستحکم بندوبست نہ کیاگیا تو سخت خطرہ ہے کہ مسلمان کہیں نصرانیت کے جال میں نہ پھنس جائیں۔ بس انھیں خیالات کے پیش نظر مورخہ ۱۵/محرم الحرام ۱۲۸۳ھ بمطابق ۱۸۶۷/ بروز جمعرات کو دیوبند کی مبارک سرزمین پر چھتہ کی مسجد میں انار کے درخت کے نیچے ہدایت کا یہ شجرطوبیٰ وجود میں آیا۔اس طرح ابتدا میں یہ مدرسہ عربی اور پھر دارالعلوم کے معروف نام سے موسوم ہوا۔
 اس کی مقبولیت کا اندازہ صرف ان اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۲۸۷ھ سے لے کر ۱۴۲۷ھ تک یعنی تقریباً ۱۴۴ سال میں ایک لاکھ پچھتّر ہزار اٹھارہ فضلاء دارالعلوم سے فارغ ہوکر دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ چکے ہیں۔(۹) اور دین مبین کی والہانہ خدمت کا فریضہ انجام دینے میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کی مساعی جمیلہ کو قبولیت سے نوازے اور دارالعلوم کا چشمہ فیضان تشنگان علوم دینیہ کو سیراب کرتا رہے ۔ آمین۔
حضرت مولانا محمد انوار الحق صاحب قاسمی پھلوریہ نے علمائے دیوبند کی ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا کہ یہی لوگ اصل میں قرآن وسنت کوسمجھ کر لوگوں کے سامنے پیش کرنے والے ہیں.
اخیر میں حضرت مولانا حکیم ظہیر احمد صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ کے رقت آمیز دعاء پر مجلس کا اختتام ہوا، جس میں خصوصیت کے ساتھ امت کے ایک اور نیک ہونے کی دعاء فرمائی
اجلاس کا انعقاد نوجوانان یواکمیٹی مہسول چوک سیتامڑھی نے کیا، اس اجلاس میں شرکت فرمانے والے خصوصی حضرات مفتی فیاض احمد حمید القاسمی ناظم وبانی مدرسہ مدینتہ المعارف مرزاپور، حضرت مولانا خورشید عالم صاحب قاسمی بلہا منورتھ، محمد امین الرشید سیتامڑھی، مولانا ممتاز احمد صاحب قاسمی امام جامع مسجد مہسول چوک، حضرت مولانا بچے صاحب، جناب شمش شاہنواز صاحب ضلع یوا کانگریس کمیٹی، جناب حاجی محمد مختار صاحب، جناب حاجی صغیر احمد صاحب، جناب نغمی انورصاحب، حاجی عبداللہ صاحب، اور قرب و جوار کے جید علمائے کرام وعوام نے شرکت کی،
یوا کمیٹی نے جلسے میں آنے والے تمام حضرات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا.