عاقل حسین
ـــــــــــــــــــــ
مدھوبنی(آئی این اے نیوز 22/ستمبر 2018) ماہ محرم الحرام کی مناسبت علمی وادبی بستی نرائن پور میں ایک روزہ دینی پروگرام کا انعقاد کیا گیا، جس میں علاقائی علماء کے علاوہ ملک کے کئی بڑے علماء کرام نے شرکت کی، جس میں سر فہرست مفتی ابوذر قاسمی، مفتی قمر، شرف الدین عبدالرحمٰن تیمی ،علاءالدین قاسمی، مولانا اکبر قاسمی، مولانا فردوس قاسمی اور مولانا مظہر ندوی کے اسماء قابل ذکر ہیں، اس مناسبت سے تمام علماء کرام نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا.
مسلمانوں کا یہ اسلامی سن بھی اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے ایک خاص امتیازی حیثیت کا حامل ہے، مذاہب عالم میں اس وقت جس قدر سنین مروج ہیں وہ عام طور پر یا تو کسی مشہور انسان کے یوم ولادت کو یاد دلاتے ہیں یا کسی قومی واقعۂ مسرت و شادمانی سے وابستہ ہیں کہ جس سے نسل انسانی کو بظاہر کوئی فائدہ نہیں، مثلاً مسیحی سن کی بنیاد حضرت عیسیٰؑ علیہ السلام کا یوم ولادت ہے، یہودی سن فلسطین پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی تخت نشینی کے ایک پر شوکت واقعے سے وابستہ ہے، بکرمی سن راجہ بکرما جیت کی پیدائش کی یادگار ہے، رومی سن سکندر فاتح اعظم کی پیدائش کو واضح کرتا ہے، لیکن اسلامی سن ہجری عہد نبوت کے ا یسے واقعے سے وابستہ ہے جس میں یہ سبق پنہاں ہے کہ اگر مسلمان اعلائے کلمۃ الحق کے نتیجے میں تمام اطراف سے مصائب و آلام میں گھر جائے، بستی کے تمام لوگ اس کے دشمن اور در پئے آزار ہو جائیں، قریبی رشتہ دار اور خویش و اقارب بھی اس کو ختم کرنے کا عزم کر لیں، اس کے دوست احباب بھی اسی طرح تکالیف میں مبتلا کر دئیے جائیں، شہر کے تمام سربرآوردہ لوگ اس کو قتل کرنے کا منصوبہ باندھ لیں، اس پر عرصۂ حیات ہر طرح سے تنگ کر دیا جائے اور اس کی آواز کو جبراً روکنے کی کوشش کی جائے تو اس وقت وہ مسلمان کیا کرے ؟ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز نہیں کیا کہ کفر و باطل کے ساتھ مصالحت کر لی جائے، تبلیغ حق میں مداہنت اور رواداری سے کام لیا جائے اور اپنے عقائد و نظریات میں لچک پیدا کر کے ان میں گھل مل جائے تاکہ مخالفت کا زور ٹوٹ جائے۔ بلکہ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز کیا ہے کہ ایسی بستی اور شہر پر حجت تمام کر کے وہاں سے ہجرت اختیار کر لی جائے مذکورہ باتیں مفتی ابوذر قاسمی نے کہا.
عشرۂ محرم میں عام دستور رواج ہے کہ شیعی اثرات کے زیر اثر واقعات کربلا کو مخصوص رنگ اور افسانوی و دیو مالائی انداز میں بیان کیا جاتا ہے، شیعی ذاکرین تو اس ضمن میں جو کچھ کرتے ہیں وہ عالم آشکارا ہے، لیکن بدقسمتی سے بہت سے اہل سنت کے واعظان خوش گفتار اور خطیبان سحر بیان بھی گرمیِ محفل اور عوام سے داد و تحسین وصول کرنے لیے اسی تال سر میں ان واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں جو شیعیت کی مخصوص ایجاد اور ان کی انفرادیت کا غماز ہے اس سانحۂ شہادت کا ایک پہلو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تبرا بازی ہے جس کے بغیر شیعوں کی ” محفل ماتم حسین رضی اللہ عنہ ” مکمل نہیں ہوتی مذکورہ خیالات کا اظہار مفتی قمر صاحب نے کیا.
اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا بندوں کی طرف خصوصی اجلال ہوتا ہے، اسلئے ہمیں حکم ہے کہ ہم اس ماہ میں حق تعالٰی کی عظمت کا اظہار اس طور پر کریں جس طرح صاحب وحی جناب نبی اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم فرمایا ہے، اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں بھی یہ مہینہ ان چار مہینوں میں شمار ہوتا تھا جنکے احترام کی وجہ سے مشرکین عرب اپنی خانہ جنگی بند کردیا کرتے تھے اس ماہ کی حرمت و عظمت زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے محرم الحرام ایک ایسا مہینہ ہے کہ رمضان المبارک جیسے بابرکت، مقدس پر عظمت مہینے کے بعد اسی مہینہ کا درجہ ہے اسی مہینہ کی دسویں تاریخ کو ابو البشر حضرت آدم عليہ السّلام کی توبہ شرف قبولیت سے مشرف ہوئی اسی مہینہ میں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان سے محفوظ ہوکر کوہ جودی پر ٹھری، اسی مہینہ میں خلیل الله حضرت ابراہیم علیہ السلام نمرود کے دہکتے شعلوں کو گلزار بنادیا گیا، اسی مہینہ میں حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالے گئے اسی مہینہ کے اندر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور انکی قوم نے فرعون کے ظلم و ستم سے نجات پائے اور فرعون کو دریائے نیل سے غرق کردیا. مذکورہ باتیں شرف الدین عبدالرحمٰن تیمی نے کہا.
اس دینی وعلمی پروگرام کو کامیاب بنانے میں جہاں اہل نرائن پور کے مخلصین کا بھر پور تعاون رہا وہیں بھائی احباب کی جاں توڑ محنت اور مسلسل کوششوں کے نتیجے میں یہ محفل بحسن وخوبی افتتاح سے اختتام کو پہونچی.
اس موقع پر انقلاب ملت کمیٹی کے بہت سارے نوجوان عبدالرحمٰن، رضوان، عبداللہ، سنجے، آفتاب، ڈاکٹر ابوبکر، سلمان، برکت اور وسیم وغیرہ موجود تھے.
ـــــــــــــــــــــ
مدھوبنی(آئی این اے نیوز 22/ستمبر 2018) ماہ محرم الحرام کی مناسبت علمی وادبی بستی نرائن پور میں ایک روزہ دینی پروگرام کا انعقاد کیا گیا، جس میں علاقائی علماء کے علاوہ ملک کے کئی بڑے علماء کرام نے شرکت کی، جس میں سر فہرست مفتی ابوذر قاسمی، مفتی قمر، شرف الدین عبدالرحمٰن تیمی ،علاءالدین قاسمی، مولانا اکبر قاسمی، مولانا فردوس قاسمی اور مولانا مظہر ندوی کے اسماء قابل ذکر ہیں، اس مناسبت سے تمام علماء کرام نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا.
مسلمانوں کا یہ اسلامی سن بھی اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے ایک خاص امتیازی حیثیت کا حامل ہے، مذاہب عالم میں اس وقت جس قدر سنین مروج ہیں وہ عام طور پر یا تو کسی مشہور انسان کے یوم ولادت کو یاد دلاتے ہیں یا کسی قومی واقعۂ مسرت و شادمانی سے وابستہ ہیں کہ جس سے نسل انسانی کو بظاہر کوئی فائدہ نہیں، مثلاً مسیحی سن کی بنیاد حضرت عیسیٰؑ علیہ السلام کا یوم ولادت ہے، یہودی سن فلسطین پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی تخت نشینی کے ایک پر شوکت واقعے سے وابستہ ہے، بکرمی سن راجہ بکرما جیت کی پیدائش کی یادگار ہے، رومی سن سکندر فاتح اعظم کی پیدائش کو واضح کرتا ہے، لیکن اسلامی سن ہجری عہد نبوت کے ا یسے واقعے سے وابستہ ہے جس میں یہ سبق پنہاں ہے کہ اگر مسلمان اعلائے کلمۃ الحق کے نتیجے میں تمام اطراف سے مصائب و آلام میں گھر جائے، بستی کے تمام لوگ اس کے دشمن اور در پئے آزار ہو جائیں، قریبی رشتہ دار اور خویش و اقارب بھی اس کو ختم کرنے کا عزم کر لیں، اس کے دوست احباب بھی اسی طرح تکالیف میں مبتلا کر دئیے جائیں، شہر کے تمام سربرآوردہ لوگ اس کو قتل کرنے کا منصوبہ باندھ لیں، اس پر عرصۂ حیات ہر طرح سے تنگ کر دیا جائے اور اس کی آواز کو جبراً روکنے کی کوشش کی جائے تو اس وقت وہ مسلمان کیا کرے ؟ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز نہیں کیا کہ کفر و باطل کے ساتھ مصالحت کر لی جائے، تبلیغ حق میں مداہنت اور رواداری سے کام لیا جائے اور اپنے عقائد و نظریات میں لچک پیدا کر کے ان میں گھل مل جائے تاکہ مخالفت کا زور ٹوٹ جائے۔ بلکہ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز کیا ہے کہ ایسی بستی اور شہر پر حجت تمام کر کے وہاں سے ہجرت اختیار کر لی جائے مذکورہ باتیں مفتی ابوذر قاسمی نے کہا.
عشرۂ محرم میں عام دستور رواج ہے کہ شیعی اثرات کے زیر اثر واقعات کربلا کو مخصوص رنگ اور افسانوی و دیو مالائی انداز میں بیان کیا جاتا ہے، شیعی ذاکرین تو اس ضمن میں جو کچھ کرتے ہیں وہ عالم آشکارا ہے، لیکن بدقسمتی سے بہت سے اہل سنت کے واعظان خوش گفتار اور خطیبان سحر بیان بھی گرمیِ محفل اور عوام سے داد و تحسین وصول کرنے لیے اسی تال سر میں ان واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں جو شیعیت کی مخصوص ایجاد اور ان کی انفرادیت کا غماز ہے اس سانحۂ شہادت کا ایک پہلو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تبرا بازی ہے جس کے بغیر شیعوں کی ” محفل ماتم حسین رضی اللہ عنہ ” مکمل نہیں ہوتی مذکورہ خیالات کا اظہار مفتی قمر صاحب نے کیا.
اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا بندوں کی طرف خصوصی اجلال ہوتا ہے، اسلئے ہمیں حکم ہے کہ ہم اس ماہ میں حق تعالٰی کی عظمت کا اظہار اس طور پر کریں جس طرح صاحب وحی جناب نبی اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم فرمایا ہے، اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں بھی یہ مہینہ ان چار مہینوں میں شمار ہوتا تھا جنکے احترام کی وجہ سے مشرکین عرب اپنی خانہ جنگی بند کردیا کرتے تھے اس ماہ کی حرمت و عظمت زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے محرم الحرام ایک ایسا مہینہ ہے کہ رمضان المبارک جیسے بابرکت، مقدس پر عظمت مہینے کے بعد اسی مہینہ کا درجہ ہے اسی مہینہ کی دسویں تاریخ کو ابو البشر حضرت آدم عليہ السّلام کی توبہ شرف قبولیت سے مشرف ہوئی اسی مہینہ میں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان سے محفوظ ہوکر کوہ جودی پر ٹھری، اسی مہینہ میں خلیل الله حضرت ابراہیم علیہ السلام نمرود کے دہکتے شعلوں کو گلزار بنادیا گیا، اسی مہینہ میں حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالے گئے اسی مہینہ کے اندر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور انکی قوم نے فرعون کے ظلم و ستم سے نجات پائے اور فرعون کو دریائے نیل سے غرق کردیا. مذکورہ باتیں شرف الدین عبدالرحمٰن تیمی نے کہا.
اس دینی وعلمی پروگرام کو کامیاب بنانے میں جہاں اہل نرائن پور کے مخلصین کا بھر پور تعاون رہا وہیں بھائی احباب کی جاں توڑ محنت اور مسلسل کوششوں کے نتیجے میں یہ محفل بحسن وخوبی افتتاح سے اختتام کو پہونچی.
اس موقع پر انقلاب ملت کمیٹی کے بہت سارے نوجوان عبدالرحمٰن، رضوان، عبداللہ، سنجے، آفتاب، ڈاکٹر ابوبکر، سلمان، برکت اور وسیم وغیرہ موجود تھے.