عبدالرحمن الخبیر قاسمی بستوی
رائےچوٹی ضلع کڈپہ اے پی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
حالیہ دنوں میں آئے دن ارتداد کی خبریں مل رہی ہیں، مسلم لڑکیاں غیر مسلموں کو اپناتی نظر آرہی ہیں اور مسلمانوں کے بجائے غیروں کے ساتھ رہنا پسند کررہی ہیں، ظاہر ہے کہ اس طرح کے واقعات سے نہ صرف یہ کہ پوری ملت ہندیہ شرمسار ہے بلکہ یہ ارتدادی فتنہ مذھب اسلام کے لئے بھی گھناؤنا داغ ہے، ایسے موقع سے ہم نے دیکھا ہے کہ ارتداد کا یہ ٹھیکرا مختلف سروں پہ پھوٹ رہا ہے، کوئی موبائل کو ذمہ دار کہہ رہا ہے تو کوئی مخلوط تعلیم کا شاخسانہ بتلا رہا ہے، کسی کے یہاں یہ سب کچھ والدین کی لاپرواہی کا نتیجہ ہے تو کسی کی نگاہ میں دین سے دوری اس کی بنیادی وجہ ہے، کوئی اسے منصوبہ بند سازش کہہ کے دامن بچا رہا ہے تو کوئی آزاد مزاجی پہ الزام رکھ کے پرسکون ہوگیا ہے، یہ ساری وجوہات اپنی جگہ مسلم ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف وجوہات کا پتہ دے دینے سے مسئلہ کا حل ہوجائے گا؟ کیا مرض کی صرف تعیین سے مریض تندرست ہوجائے گا؟ اور کیا کسی اور کو مورد الزام ٹھہرا کر ارتداد پہ روک لگ جائے گی؟ نہیں ہرگز نہیں، کیونکہ یہ ساری بیماریاں آج ہی پیدا نہیں ہوئیں بلکہ سالہا سال سے ہمارے درمیان مخلوط تعلیم کا رواج ہے، برسوں سے ہماری بچیوں کے ہاتھ میں موبائل ہے، دین بیزاری اور آزاد مزاجی بھی کوئی نئی چیز نہیں اور غیروں کی سازش بھی ایک قدیم تاریخ ہے اس کے باوجود آج سے پہلے اتنی کثرت سے ارتداد کا دور دور تک پتہ نہیں، اکا دکا واقعات کو رھنے دیجئے اور جبر و اکراہ کو بھی پیچھے رکھ چھوڑیئے، پھر دیکھئے کہ کیا اتنی کثرت سے مسلم لڑکیوں نے کبھی بھی اسلام کو خیرآباد کہا ہے؟ اور کیا دوسری قوموں سے ہماری بچیوں نے کبھی بھی اتنی تعداد میں شادیاں رچائی ہیں؟ میرے خیال میں جواب نفی ہی میں آئے گا اور عشق و محبت کے ناجائز تعلقات کے باوجود اپنی بچیوں کو منڈپ کا پھیرا لگاتی ہوئی نہیں پائیں گے.
اس لئے میرا خیال یہ ہے کہ جتنے ویڈیوز آج کل منظرِ عام پہ آرہے ہیں ان میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ مسلم نام کی لڑکیاں ضرور ہیں مگر وہ مسلم نہیں، وضع قطع مسلمانوں جیسی ضرور ہے مگر وہ مسلمان نہیں اور لباس وپوشاک سے وہ مسلم سماج کی ضرور محسوس ہورہی ہیں مگر وہ مسلم گھرانے کی نہیں ہیں بلکہ وہ ان ہی کی لڑکیاں ہیں، ان ہی کے گھر کی پیداوار ہیں اور ان ہی کے سماج میں پلی بڑھی ہیں، صرف مسلمانوں کو مذھبی اوقات بتلانے کے لیے یہ ڈھکوسلہ اپنایا گیا ہے اور مذھب اسلام سے لڑکیوں کے غیر مطمئن ہونے کی فلمیں بنائی گئی ہیں.
ورنہ ہماری لڑکیوں کا حال تو یہ ہے کہ خود اپنے سماج میں شادی ہے، صرف گھر بدل رہا ہے اس کے باوجود رخصتی کے وقت ان کا کلیجہ تھامے نہیں تھمتا اور ہر چیز سے مانوس ہونے کے باوجود ان کی حالت غیر ہوتی رھتی ہے، پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ برضا ورغبت دوسرے سماج میں چلی جائیں؟ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ عشق و محبت میں بہہ کر خوشی خوشی نامانوس سماج کو قبول کرلیں؟
تاہم ایسا بھی نہیں کہ سوفیصد یہی بات ہے بلکہ لڑکیاں آخر ہوتی تو ہیں ناقصات العقل ہی نا، اور عشق نہ دیکھے ذات پات کا مقولہ بھی ہے اس لئے کچھ تو ایسی ضرور ہوتی ہیں جو اصلاً ہماری ہیں مگر غیروں کو قبول کررہی ہیں اور واقعی وہ مسلم ہیں مگر غیر مسلم سے شادی رچا رہی ہیں اس لیے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اور اس کی روک تھام کیلئے ممکن صورت کیا ہوسکتی ہے؟
تو اوپر کے مذکورہ اسباب کے علاوہ تاخیر سے شادی کا رجحان اور لڑکیوں کی نفسیات کو نہ پڑھنا بھی ایک بنیادی وجہ ہے، بلوغت کے بعد ان کی نفسیات کو پڑھتے رہنا ماں باپ کی ذمہ داری ہے اور ان کے جنسی جذبات کی رعایت کرنا والدین کا کام ہے، مگر کبھی تو والدین اس تعلق سے بالکل لاپرواہ ہوتے ہیں اور یہ فیصلہ کئے رہتے ہیں کہ اتنے سال بعد ہی شادی کرنی ہے اسی طرح کبھی والدین کی وجاہت و انا سے شادیاں ٹلتی رہتی ہیں، ظاہر ہے کہ ایسے میں ماں باپ کو کیا فرق پڑتا؟ فرق تو پڑتا ہے اس بچی کو جوکہ اپنی ڈولی اٹھنے کا انتظار کررہی ہے.
علاوہ ازیں کبھی ماں باپ کی غربت سے شادیوں میں تاخیر ہوتی ہے، اگر شادی میں تاخیر کی وجہ غربت ہے اور مطالبہ ورسم کے پورا کرنے کی سکت ماں باپ میں نہیں ہے تو بھی بچیاں اپنے آپ کو مسوس مسوس کر رہ جاتی ہیں لہذا اگر ان کے تقاضوں کے مطابق وقت پہ شادیاں نہیں ہوتیں اور وہ اپنی فطری تسکین کے لیے غلط قدم اٹھا دیتی ہیں تو ایسے وقت قصور یا تو ماں باپ کا ہوگا یا سماج و معاشرہ کا.
گویا ارتداد کو اگر روکنا ہے تو جہاں ان کی نقل و حرکت پہ نگاہ رکھنی ہوگی وہیں ہم مسلمانوں کو اپنے اپنے گاؤں اور سماج میں ایسی بیٹھک بھی کرنی ہوگی جس میں شادیوں کو سادی بنانے کا فیصلہ کیا جائے ہرطرح کے غیر ضروری اخراجات سے لڑکی والوں کو آزاد رکھا جائے بلکہ غیر شرعی جہیز دینے کو جرم قرار دیا جائے اسی طرح لڑکے والوں کو بھی پابند بنایا جائے کہ آپ کی دعوت ولیمہ بھی بالکل سادی ہونی ہے، اور کسی بھی قسم کا مطالبہ یا خواہش کا اظہار نہیں ہونا ہے اگر گاؤں اور علاقے کی پنچایت جس طرح اور چیزوں میں سختی سے کام لیتی ہے شادی کے معاملے میں بھی سخت فیصلہ کر ڈالے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ لڑکیوں کی شادی میں تاخیر ہو اور وہ کوئی غلط قدم اٹھالیں.
ضلع غازی پور یوپی کے بعض علاقوں میں ایسا دیکھنے کو ملا ہے کہ دعوت ولیمہ میں صرف چاول اور دالچہ ہوتا ہے اور اگر کوئی معقول عذر نہیں ہے تو گاؤں کے ہر امیر و غریب گھر سے کسی نہ کسی فرد کا کھانے میں شریک ہونا لازم ہے ورنہ پنچ کی طرف سے اس پر جرمانہ عائد ہوتا ہے اسی طرح لڑکی والوں کے لیے بھی ایک حد متعین کردی گئی ہے کہ اتنا ہی خرچ کر سکتے ہیں اس سے زیادہ پر جرمانہ ہے، میں نے دیکھا اور مقامی لوگوں نے بھی بتایا کہ شروع میں تھوڑی دشواری محسوس ہوئی تھی مگر اب تو ساری شادیاں آسان ہوچکی ہیں اور سارے لوگ ماشاءاللہ پابند ہوگئے ہیں.
الغرض ارتداد کا ٹھیکرا اِس کے یا اُس کے سر پھوڑنے سے کام نہیں چلتا، کام تو چلے گا اس وقت جبکہ ہمارا سماج کوئی سخت فیصلہ کرلے اور شادیوں کو انتہائی آسان بنالے، پھر آپ دیکھیں گے کہ غیروں کے منصوبے بھی ناکام ہوں گے اور معاشرہ بھی خوش گوار ہوجائے گا.
رائےچوٹی ضلع کڈپہ اے پی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
حالیہ دنوں میں آئے دن ارتداد کی خبریں مل رہی ہیں، مسلم لڑکیاں غیر مسلموں کو اپناتی نظر آرہی ہیں اور مسلمانوں کے بجائے غیروں کے ساتھ رہنا پسند کررہی ہیں، ظاہر ہے کہ اس طرح کے واقعات سے نہ صرف یہ کہ پوری ملت ہندیہ شرمسار ہے بلکہ یہ ارتدادی فتنہ مذھب اسلام کے لئے بھی گھناؤنا داغ ہے، ایسے موقع سے ہم نے دیکھا ہے کہ ارتداد کا یہ ٹھیکرا مختلف سروں پہ پھوٹ رہا ہے، کوئی موبائل کو ذمہ دار کہہ رہا ہے تو کوئی مخلوط تعلیم کا شاخسانہ بتلا رہا ہے، کسی کے یہاں یہ سب کچھ والدین کی لاپرواہی کا نتیجہ ہے تو کسی کی نگاہ میں دین سے دوری اس کی بنیادی وجہ ہے، کوئی اسے منصوبہ بند سازش کہہ کے دامن بچا رہا ہے تو کوئی آزاد مزاجی پہ الزام رکھ کے پرسکون ہوگیا ہے، یہ ساری وجوہات اپنی جگہ مسلم ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف وجوہات کا پتہ دے دینے سے مسئلہ کا حل ہوجائے گا؟ کیا مرض کی صرف تعیین سے مریض تندرست ہوجائے گا؟ اور کیا کسی اور کو مورد الزام ٹھہرا کر ارتداد پہ روک لگ جائے گی؟ نہیں ہرگز نہیں، کیونکہ یہ ساری بیماریاں آج ہی پیدا نہیں ہوئیں بلکہ سالہا سال سے ہمارے درمیان مخلوط تعلیم کا رواج ہے، برسوں سے ہماری بچیوں کے ہاتھ میں موبائل ہے، دین بیزاری اور آزاد مزاجی بھی کوئی نئی چیز نہیں اور غیروں کی سازش بھی ایک قدیم تاریخ ہے اس کے باوجود آج سے پہلے اتنی کثرت سے ارتداد کا دور دور تک پتہ نہیں، اکا دکا واقعات کو رھنے دیجئے اور جبر و اکراہ کو بھی پیچھے رکھ چھوڑیئے، پھر دیکھئے کہ کیا اتنی کثرت سے مسلم لڑکیوں نے کبھی بھی اسلام کو خیرآباد کہا ہے؟ اور کیا دوسری قوموں سے ہماری بچیوں نے کبھی بھی اتنی تعداد میں شادیاں رچائی ہیں؟ میرے خیال میں جواب نفی ہی میں آئے گا اور عشق و محبت کے ناجائز تعلقات کے باوجود اپنی بچیوں کو منڈپ کا پھیرا لگاتی ہوئی نہیں پائیں گے.
اس لئے میرا خیال یہ ہے کہ جتنے ویڈیوز آج کل منظرِ عام پہ آرہے ہیں ان میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ مسلم نام کی لڑکیاں ضرور ہیں مگر وہ مسلم نہیں، وضع قطع مسلمانوں جیسی ضرور ہے مگر وہ مسلمان نہیں اور لباس وپوشاک سے وہ مسلم سماج کی ضرور محسوس ہورہی ہیں مگر وہ مسلم گھرانے کی نہیں ہیں بلکہ وہ ان ہی کی لڑکیاں ہیں، ان ہی کے گھر کی پیداوار ہیں اور ان ہی کے سماج میں پلی بڑھی ہیں، صرف مسلمانوں کو مذھبی اوقات بتلانے کے لیے یہ ڈھکوسلہ اپنایا گیا ہے اور مذھب اسلام سے لڑکیوں کے غیر مطمئن ہونے کی فلمیں بنائی گئی ہیں.
ورنہ ہماری لڑکیوں کا حال تو یہ ہے کہ خود اپنے سماج میں شادی ہے، صرف گھر بدل رہا ہے اس کے باوجود رخصتی کے وقت ان کا کلیجہ تھامے نہیں تھمتا اور ہر چیز سے مانوس ہونے کے باوجود ان کی حالت غیر ہوتی رھتی ہے، پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ برضا ورغبت دوسرے سماج میں چلی جائیں؟ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ عشق و محبت میں بہہ کر خوشی خوشی نامانوس سماج کو قبول کرلیں؟
تاہم ایسا بھی نہیں کہ سوفیصد یہی بات ہے بلکہ لڑکیاں آخر ہوتی تو ہیں ناقصات العقل ہی نا، اور عشق نہ دیکھے ذات پات کا مقولہ بھی ہے اس لئے کچھ تو ایسی ضرور ہوتی ہیں جو اصلاً ہماری ہیں مگر غیروں کو قبول کررہی ہیں اور واقعی وہ مسلم ہیں مگر غیر مسلم سے شادی رچا رہی ہیں اس لیے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اور اس کی روک تھام کیلئے ممکن صورت کیا ہوسکتی ہے؟
تو اوپر کے مذکورہ اسباب کے علاوہ تاخیر سے شادی کا رجحان اور لڑکیوں کی نفسیات کو نہ پڑھنا بھی ایک بنیادی وجہ ہے، بلوغت کے بعد ان کی نفسیات کو پڑھتے رہنا ماں باپ کی ذمہ داری ہے اور ان کے جنسی جذبات کی رعایت کرنا والدین کا کام ہے، مگر کبھی تو والدین اس تعلق سے بالکل لاپرواہ ہوتے ہیں اور یہ فیصلہ کئے رہتے ہیں کہ اتنے سال بعد ہی شادی کرنی ہے اسی طرح کبھی والدین کی وجاہت و انا سے شادیاں ٹلتی رہتی ہیں، ظاہر ہے کہ ایسے میں ماں باپ کو کیا فرق پڑتا؟ فرق تو پڑتا ہے اس بچی کو جوکہ اپنی ڈولی اٹھنے کا انتظار کررہی ہے.
علاوہ ازیں کبھی ماں باپ کی غربت سے شادیوں میں تاخیر ہوتی ہے، اگر شادی میں تاخیر کی وجہ غربت ہے اور مطالبہ ورسم کے پورا کرنے کی سکت ماں باپ میں نہیں ہے تو بھی بچیاں اپنے آپ کو مسوس مسوس کر رہ جاتی ہیں لہذا اگر ان کے تقاضوں کے مطابق وقت پہ شادیاں نہیں ہوتیں اور وہ اپنی فطری تسکین کے لیے غلط قدم اٹھا دیتی ہیں تو ایسے وقت قصور یا تو ماں باپ کا ہوگا یا سماج و معاشرہ کا.
گویا ارتداد کو اگر روکنا ہے تو جہاں ان کی نقل و حرکت پہ نگاہ رکھنی ہوگی وہیں ہم مسلمانوں کو اپنے اپنے گاؤں اور سماج میں ایسی بیٹھک بھی کرنی ہوگی جس میں شادیوں کو سادی بنانے کا فیصلہ کیا جائے ہرطرح کے غیر ضروری اخراجات سے لڑکی والوں کو آزاد رکھا جائے بلکہ غیر شرعی جہیز دینے کو جرم قرار دیا جائے اسی طرح لڑکے والوں کو بھی پابند بنایا جائے کہ آپ کی دعوت ولیمہ بھی بالکل سادی ہونی ہے، اور کسی بھی قسم کا مطالبہ یا خواہش کا اظہار نہیں ہونا ہے اگر گاؤں اور علاقے کی پنچایت جس طرح اور چیزوں میں سختی سے کام لیتی ہے شادی کے معاملے میں بھی سخت فیصلہ کر ڈالے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ لڑکیوں کی شادی میں تاخیر ہو اور وہ کوئی غلط قدم اٹھالیں.
ضلع غازی پور یوپی کے بعض علاقوں میں ایسا دیکھنے کو ملا ہے کہ دعوت ولیمہ میں صرف چاول اور دالچہ ہوتا ہے اور اگر کوئی معقول عذر نہیں ہے تو گاؤں کے ہر امیر و غریب گھر سے کسی نہ کسی فرد کا کھانے میں شریک ہونا لازم ہے ورنہ پنچ کی طرف سے اس پر جرمانہ عائد ہوتا ہے اسی طرح لڑکی والوں کے لیے بھی ایک حد متعین کردی گئی ہے کہ اتنا ہی خرچ کر سکتے ہیں اس سے زیادہ پر جرمانہ ہے، میں نے دیکھا اور مقامی لوگوں نے بھی بتایا کہ شروع میں تھوڑی دشواری محسوس ہوئی تھی مگر اب تو ساری شادیاں آسان ہوچکی ہیں اور سارے لوگ ماشاءاللہ پابند ہوگئے ہیں.
الغرض ارتداد کا ٹھیکرا اِس کے یا اُس کے سر پھوڑنے سے کام نہیں چلتا، کام تو چلے گا اس وقت جبکہ ہمارا سماج کوئی سخت فیصلہ کرلے اور شادیوں کو انتہائی آسان بنالے، پھر آپ دیکھیں گے کہ غیروں کے منصوبے بھی ناکام ہوں گے اور معاشرہ بھی خوش گوار ہوجائے گا.