تحریر: عاصم طاہر اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
مسلمانوں کی زندگی میں مساجد کا مقام و مرتبہ انتہائی بلند اور اثر انگیز ہےکعبتہ اللہ، بیت اللہ، جنت کا باغ وغیرہ جیسے الفاط کے ساتھ یاد کیا جاتاہے زندگی کے تمام شعبۂ جات کو مسجد کی مرکزیت سے جوڑنے کی روایات حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے ثابت ہے،
دور زوال کاایک المیہ یہ بھی ہے کہ مساجد مرثیہ خواں ہیں نمازیوں کے لیے دیگر معاملات کے مراکز اوصاف حجازی سے ٹوٹتے و بکھرتے رہے جنہیں آج تک دوام نہیں ہے عبادت کی تشریحات اب نمازوں اور مساجد کو خوبصورت بنانے تک ہی رہ گئیں ورنہ اس کا مفہوم تو زندگی کی ہرجنبش وحرکت پر محیط ہے
عہدِوسطیٰ میں مسلمانوں کے زیر نگیں جو علاقے آئے وہاں پوری شریعت کا نفاذ تو نہ ہوسکا البتہ مساجد و محلات کی تعمیرات باعث افتخار بنیں جب سیاسی زوال موجِ خوں بن کر سروں سے گزرا تو چودہ طبق روشن ہوگئے مساجد کہیں تالے، کہیں اصطبل ، کہیں کلب کہیں کلیسا اور کہیں مندروں کے مظاہربن گئیں ترکی، اسپین ، فرانس ، پرتگال، مشرقی یورپ، تاشقند، سمر قند ، بخارا اور ہندوستان کی مثالیں تاریخی حوالوں سے پیش کی جاسکتی ہیں
بابری مسجد ان ہی حالات کی ماری ایک ایسی عبادت گاہ ہے جس کا جرم یہ ہے کہ اس کو ایک مسلمان بادشاہ سے وابستہ کیا گیاہے جس کا جرم یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی شناخت کی علامت بن گئی،
یہ وہی مسجد ہے جسے میر باقی نے ظہیر الدین بابر کے حکم پر یوپی کے ضلع فیض آباد کے مقام ایودھیا میں 1528ء میں تعمیر کرایاتھا واضح رہے یہ تعمیر ایک غیر آباد بنجر ٹیلے پر کی گئی تھی، بابر کی طرف نسبت سے یہ بابری مسجد کہلاتی ہے یہ اسلامی فن تعمیر کی شاہکار اور نایاب مسجد تھی، جس پر تین گنبد تھے، درمیانی گنبد قدرے بڑا اور طرفین میں دونوں چھوٹے گنبد تھے، جن کی تعمیر میں چھوٹی اینٹوں کو استعمال کرکے اس پر چونے سے پلستر کیا گیا تھا، مسجد کی تعمیر پتھروں سے کی گئی تھی، چھت قدرے بلند، ہوا اور روشنی کے لیے بڑی جالی دار، خوبصورت کھڑکیاں اور صحن میں ایک کنواں تھا، مسجد حسن، دل کشی میں اپنی مثال آپ تھی،خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کی جانے والی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی کونے میں باآسانی سنا جاسکتاتھا،
جنونی اور جوشیلے افراد کے قافلے ملک کے کونے کونے سے رواں دواں تھے ان کا مطلب، مقصد، اور منزلِ مقصود ایک تھی یہ مذہبی جذبات سے مغلوب تھے اور ایسے دل آزار نعرے لگا رہے تھے جن سے پُرامن اقلیت کے دلوں میں ٹھیس اُٹھتی اور پُرامن فضا مکدر ہونے والی تھی،
یہ 6 دسمبر کی تاریخ اور سال 1992ء تھا، جب بھارت کے طول و عرض سے ہندو انتہا پسند مشہور اور تاریخی بابری مسجد کو ڈھانے ایودھیا کی طرف مارچ کر رہے تھے اکثریت کے پاس چھپے ہتھیار بھی تھے تین لاکھ جنونی ہندو جب ایودھیا میں واقع بابری مسجد پہنچے، تو اس کے میناروں پر چڑھ کر انہیں یکے بعد دیگرے گرادیا اور پھر مسجد کو ڈھانے کی غرض سے اسے کافی نقصان پہنچایا یہ لوگ عرصہ دراز سے ان لمحوں کے منتظر تھے یہ لوگ مسلمانوں کو ننگی گالیاں دے رہے تھے اور ’’رام کی جے‘‘ اور ’’مسلمانوں کا قبرستان، ہندوستان، ہندوستان‘‘ کے نعرے لگارہے تھے، انہوں نے جب مسجد پہنچ کر اس پر قبضہ کیا، تو اپنے ساتھ لائے ہوئے مورتیوں کو اس میں دفن کر دیا بھارتی پولیس خاموش کھڑی دور سے یہ تماشا دیکھ رہی تھی تاریخ کو جھٹلایا گیا اور پُرامن اور نہتی اقلیت یعنی مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کو شہید کرکے اس کی جگہ رام مندر کی بنیاد رکھ دی گئی یہ سب کچھ اس ملک میں ہوا جو ہر وقت سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتا اور جمہوریت کے نعرے لگاتا نہیں تھکتا،
لیکن 6دسمبر کا واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اگر اکثریت کے دباؤ کو قبول نہیں کیا گیا تو وہ مذھب کے نام پر آئین اور رواداری کی دھجیاں اڑانے سے چوکیں گے نہیں
بھارت کے سیکولر مستقبل یا یوں کہیں کہ ہندوستان کے وجود کو بچانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ پھر کوئی رام کا نام بدنام نہ کرے اور نہ ہی ہم ایسا کرنے دینے کی کوئی گنجائش ہی چھوڑیں
کیونکہ کیفی اعظمی کے بقول
رام بنواس سے جب لوٹ کے گھر میں آئے
یاد جنگل بہت آیا جو نگر میں آئے
رقص دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہو گا
چھ دسمبر کو شری رام نے سوچا ہوگا
اتنے دیوانے کہاں سے میرے گھر میں آئے
جگمگاتے تھے جہاں رام کے قدموں کے نشاں
پیار کی کہکشاں لیتی تھی انگڑائی جہاں
موڑ نفرت کے اسی راہ گذر میں آئے
دھرم کیا ان کا ہے،کیا ذات ہے یہ جانتا کون؟
گھر نہ جلتا تو انہیں رات میں پہچانتا کون؟
جلتی مشعل لئے جو لوگ نظر میں آئے
شاکاہاری ہے میرے دوست تمہارا خنجر
تم نے بابر کی جانب پھینکے
تھے سارے پتھر
ہے میرے سر کہ خطا زخم جو سر میں آئے
پاؤں سریو میں ابھی رام نے دھوئے بھی نہ تھے
کہ نظر آئے وہاں خون کے گہرے دھبے
پاؤں دھوئے بغیر سریو کے کنارے سے اٹھے
رام یہ کہتے ہوئے اپنے دوارے سے اٹھے
راجدھانی کہ فضا آئی نہیں راس مجھے
چھ دسمبر کو ملا دوسرا بنواس مجھے
بابری مسجد کا مسئلہ ابھی بھی سنگین ہے، مسجد سے دست برداری کسی بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہمیں یقین ہے کہ عدلیہ شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی نہ کہ آستھا واندھی عقیدت پر ہم مسجد کی حفاظت نہ کرسکے اس پر اللہ تعالی سے استغفار، معافی اور مغفرت طلب کرتے ہیں اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ اب ہم تیرے گھر کی تعمیر کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے، یہ اللہ کا گھر اور تمام مسلمانوں کا قیمتی اثاثہ ہے یہ کسی ایک مسلک یافرقے کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے مفاد پرستوں کو چھوڑ کر باقی تمام امت سے دست بستہ التجاء ہے کہ اس کے حل کے لیے پر امن قانون اور فطرتِ دین کے دائرے میں رہ کر جہدِ مسلسل جاری رکھیں ان شاءاللہ ایک دن پھر اذانیں گونجے گیں، تکبیریں کڑکے گیں، اور اللہ اکبر کی صدائیں آئیں گی. ان شاءاللہ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
مسلمانوں کی زندگی میں مساجد کا مقام و مرتبہ انتہائی بلند اور اثر انگیز ہےکعبتہ اللہ، بیت اللہ، جنت کا باغ وغیرہ جیسے الفاط کے ساتھ یاد کیا جاتاہے زندگی کے تمام شعبۂ جات کو مسجد کی مرکزیت سے جوڑنے کی روایات حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے ثابت ہے،
دور زوال کاایک المیہ یہ بھی ہے کہ مساجد مرثیہ خواں ہیں نمازیوں کے لیے دیگر معاملات کے مراکز اوصاف حجازی سے ٹوٹتے و بکھرتے رہے جنہیں آج تک دوام نہیں ہے عبادت کی تشریحات اب نمازوں اور مساجد کو خوبصورت بنانے تک ہی رہ گئیں ورنہ اس کا مفہوم تو زندگی کی ہرجنبش وحرکت پر محیط ہے
عہدِوسطیٰ میں مسلمانوں کے زیر نگیں جو علاقے آئے وہاں پوری شریعت کا نفاذ تو نہ ہوسکا البتہ مساجد و محلات کی تعمیرات باعث افتخار بنیں جب سیاسی زوال موجِ خوں بن کر سروں سے گزرا تو چودہ طبق روشن ہوگئے مساجد کہیں تالے، کہیں اصطبل ، کہیں کلب کہیں کلیسا اور کہیں مندروں کے مظاہربن گئیں ترکی، اسپین ، فرانس ، پرتگال، مشرقی یورپ، تاشقند، سمر قند ، بخارا اور ہندوستان کی مثالیں تاریخی حوالوں سے پیش کی جاسکتی ہیں
بابری مسجد ان ہی حالات کی ماری ایک ایسی عبادت گاہ ہے جس کا جرم یہ ہے کہ اس کو ایک مسلمان بادشاہ سے وابستہ کیا گیاہے جس کا جرم یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی شناخت کی علامت بن گئی،
یہ وہی مسجد ہے جسے میر باقی نے ظہیر الدین بابر کے حکم پر یوپی کے ضلع فیض آباد کے مقام ایودھیا میں 1528ء میں تعمیر کرایاتھا واضح رہے یہ تعمیر ایک غیر آباد بنجر ٹیلے پر کی گئی تھی، بابر کی طرف نسبت سے یہ بابری مسجد کہلاتی ہے یہ اسلامی فن تعمیر کی شاہکار اور نایاب مسجد تھی، جس پر تین گنبد تھے، درمیانی گنبد قدرے بڑا اور طرفین میں دونوں چھوٹے گنبد تھے، جن کی تعمیر میں چھوٹی اینٹوں کو استعمال کرکے اس پر چونے سے پلستر کیا گیا تھا، مسجد کی تعمیر پتھروں سے کی گئی تھی، چھت قدرے بلند، ہوا اور روشنی کے لیے بڑی جالی دار، خوبصورت کھڑکیاں اور صحن میں ایک کنواں تھا، مسجد حسن، دل کشی میں اپنی مثال آپ تھی،خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کی جانے والی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی کونے میں باآسانی سنا جاسکتاتھا،
جنونی اور جوشیلے افراد کے قافلے ملک کے کونے کونے سے رواں دواں تھے ان کا مطلب، مقصد، اور منزلِ مقصود ایک تھی یہ مذہبی جذبات سے مغلوب تھے اور ایسے دل آزار نعرے لگا رہے تھے جن سے پُرامن اقلیت کے دلوں میں ٹھیس اُٹھتی اور پُرامن فضا مکدر ہونے والی تھی،
یہ 6 دسمبر کی تاریخ اور سال 1992ء تھا، جب بھارت کے طول و عرض سے ہندو انتہا پسند مشہور اور تاریخی بابری مسجد کو ڈھانے ایودھیا کی طرف مارچ کر رہے تھے اکثریت کے پاس چھپے ہتھیار بھی تھے تین لاکھ جنونی ہندو جب ایودھیا میں واقع بابری مسجد پہنچے، تو اس کے میناروں پر چڑھ کر انہیں یکے بعد دیگرے گرادیا اور پھر مسجد کو ڈھانے کی غرض سے اسے کافی نقصان پہنچایا یہ لوگ عرصہ دراز سے ان لمحوں کے منتظر تھے یہ لوگ مسلمانوں کو ننگی گالیاں دے رہے تھے اور ’’رام کی جے‘‘ اور ’’مسلمانوں کا قبرستان، ہندوستان، ہندوستان‘‘ کے نعرے لگارہے تھے، انہوں نے جب مسجد پہنچ کر اس پر قبضہ کیا، تو اپنے ساتھ لائے ہوئے مورتیوں کو اس میں دفن کر دیا بھارتی پولیس خاموش کھڑی دور سے یہ تماشا دیکھ رہی تھی تاریخ کو جھٹلایا گیا اور پُرامن اور نہتی اقلیت یعنی مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کو شہید کرکے اس کی جگہ رام مندر کی بنیاد رکھ دی گئی یہ سب کچھ اس ملک میں ہوا جو ہر وقت سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتا اور جمہوریت کے نعرے لگاتا نہیں تھکتا،
لیکن 6دسمبر کا واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اگر اکثریت کے دباؤ کو قبول نہیں کیا گیا تو وہ مذھب کے نام پر آئین اور رواداری کی دھجیاں اڑانے سے چوکیں گے نہیں
بھارت کے سیکولر مستقبل یا یوں کہیں کہ ہندوستان کے وجود کو بچانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ پھر کوئی رام کا نام بدنام نہ کرے اور نہ ہی ہم ایسا کرنے دینے کی کوئی گنجائش ہی چھوڑیں
کیونکہ کیفی اعظمی کے بقول
رام بنواس سے جب لوٹ کے گھر میں آئے
یاد جنگل بہت آیا جو نگر میں آئے
رقص دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہو گا
چھ دسمبر کو شری رام نے سوچا ہوگا
اتنے دیوانے کہاں سے میرے گھر میں آئے
جگمگاتے تھے جہاں رام کے قدموں کے نشاں
پیار کی کہکشاں لیتی تھی انگڑائی جہاں
موڑ نفرت کے اسی راہ گذر میں آئے
دھرم کیا ان کا ہے،کیا ذات ہے یہ جانتا کون؟
گھر نہ جلتا تو انہیں رات میں پہچانتا کون؟
جلتی مشعل لئے جو لوگ نظر میں آئے
شاکاہاری ہے میرے دوست تمہارا خنجر
تم نے بابر کی جانب پھینکے
تھے سارے پتھر
ہے میرے سر کہ خطا زخم جو سر میں آئے
پاؤں سریو میں ابھی رام نے دھوئے بھی نہ تھے
کہ نظر آئے وہاں خون کے گہرے دھبے
پاؤں دھوئے بغیر سریو کے کنارے سے اٹھے
رام یہ کہتے ہوئے اپنے دوارے سے اٹھے
راجدھانی کہ فضا آئی نہیں راس مجھے
چھ دسمبر کو ملا دوسرا بنواس مجھے
بابری مسجد کا مسئلہ ابھی بھی سنگین ہے، مسجد سے دست برداری کسی بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہمیں یقین ہے کہ عدلیہ شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی نہ کہ آستھا واندھی عقیدت پر ہم مسجد کی حفاظت نہ کرسکے اس پر اللہ تعالی سے استغفار، معافی اور مغفرت طلب کرتے ہیں اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ اب ہم تیرے گھر کی تعمیر کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے، یہ اللہ کا گھر اور تمام مسلمانوں کا قیمتی اثاثہ ہے یہ کسی ایک مسلک یافرقے کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے مفاد پرستوں کو چھوڑ کر باقی تمام امت سے دست بستہ التجاء ہے کہ اس کے حل کے لیے پر امن قانون اور فطرتِ دین کے دائرے میں رہ کر جہدِ مسلسل جاری رکھیں ان شاءاللہ ایک دن پھر اذانیں گونجے گیں، تکبیریں کڑکے گیں، اور اللہ اکبر کی صدائیں آئیں گی. ان شاءاللہ،