خیرآباد/مئو(آئی این اے نیوز 2/دسمبر 2018) ہندوستان کی بہت سی تنظیمیں آج بھی مسلمانوں کیلئے ریزرویشن کی مانگ کر رہی ہیں اور ان تنظیموں کے لیڈران کا تعلق ایک مخصوص طبقہ سے ہے جو مسلمانوں میں 15 فیصد ہیں، جبکہ اس ملک میں مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جسکی تعداد 85 فیصد ہے جو پسماندہ یعنی بیک ورڈ کہلاتا ہے اور اس کو 27 فیصد ریزرویشن میں شامل کیا گیا،
اس سلسلے میں آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ کے قومی نائب صدر حاجی نثار احمد انصاری صاحب نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل تک کچھ مسلم لیڈران مسلمانوں میں پسماندہ مسلم ماننے کو تیار نہیں تھے اور آج وہ دلت مسلمان ماننے کا ناٹک کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کل بھی انکی نیت درست نہیں تھی اور آج بھی درست نہیں ہے، اگر نیت درست ہوتی تو سارے مسلمانوں کیلئے ریزرویشن مانگنے کے بجائے وہ ان مسلمانوں کے لئے ریزرویشن کی مانگ کرتے جو پیشے کی بنیاد پر دوسرے مذہب کے لوگوں کو دلت زمرے میں شامل کر کے دیا جارہا ہے، لیکن دفعہ3 /341 کے تحت پابندی لگا کر دلت مسلمانوں کو اس سے محروم رکھا گیا ہے، اگر وہ پابندی ہٹالی جائے تو مسلمانوں کی وہ برادریاں جنہیں حلال خور، نٹ، دھوبی وغیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے وہ بھی ملک کی محفوظ نشستوں پر انتخابات میں حصہ لے سکیں گی، اور اسمبلی و پارلیمنٹ میں پہنچنے کا راستہ کھل جائے گا، انہوں نے آگے کہا کہ کیا یہ مذکورہ برادری کے مسلمان نہیں ہیں؟ علاوہ ازیں ایسا مطالبہ کیا جاتا ہے جو کبھی پورا ہوگا ہی نہیں، ہاں جو تھوڑا بہت ریزرویشن کا فائدہ مل رہا ہے وہ بھی ختم ہو سکتا ہے اور نام نہاد مسلم لیڈران یہی چاہتے بھی ہیں اور ہم اسی لئے کہتے ہیں کہ انکی نیت کل بھی درست نہیں تھی اور آج بھی درست نہیں ہے.
حاجی نثار انصاری صاحب نے کہا کہ سارے مسلمانوں کیلئے ریزرویشن مانگنا یا سارے مسلمانوں کی حالت کو دلتوں سے بدتر بتانا بے حیائی اور مکاری ہے اور اگر مسلمانوں کا لیڈر بننے کا شوق ہے تو پہلے خود اپنی تنظیموں کی جو عاملہ کمیٹی ہے اس میں پسماندہ مسلمانوں کو حصہ دو، بعد میں حکومت سے ریزرویشن کا مطالبہ کرنا، اتر پردیش کے بنکروں کی حالت کچھ دنوں قبل کتنی خراب تھی خون فروخت کیا جارہا تھا جبکہ اترپردیش کے بنکر اکثریت سے مسلمان ہیں تو پھر مسلم تنظیموں نے بنکروں کے فلاح و بہبود کیلئے لڑائی کیوں نہیں لڑی، آخر تم کون سے مسلمانوں کی بات کرتے ہو معلوم ہوا کہ یہ مسلمان ہوکر بھی مسلمان کو خوشحال دیکھنا نہیں چاہتے.
گفتگو کے آخر میں دونوں رہنماؤں نے کہا کہ پسماندہ مسلمانوں کو بھی سیاست کے میدان میں دل کا استعمال نہ کرکے دماغ کا استعمال کرنا ہوگا کیونکہ دل سے محبت کی جاتی ہے اور محبت کا انجام چھپا نہیں ہے، جذباتی نعروں سے پرہیز کرنا ہوگا اور اس بات کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ جمہوریت میں سروں کی قربانی دینے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ سروں کی گنتی کرانے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن وہ گنتی اپنے سماج کیلئے کرانی ہوگی ورنہ اپنے آپ کو مہذب کہلانے والے لوگ پھر سروں کی تعداد اور جم غفیر کو سکوں کے طور بہکا لیں گے جیسے ابتک بہکاتے آئے ہیں.
اس سلسلے میں آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ کے قومی نائب صدر حاجی نثار احمد انصاری صاحب نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل تک کچھ مسلم لیڈران مسلمانوں میں پسماندہ مسلم ماننے کو تیار نہیں تھے اور آج وہ دلت مسلمان ماننے کا ناٹک کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کل بھی انکی نیت درست نہیں تھی اور آج بھی درست نہیں ہے، اگر نیت درست ہوتی تو سارے مسلمانوں کیلئے ریزرویشن مانگنے کے بجائے وہ ان مسلمانوں کے لئے ریزرویشن کی مانگ کرتے جو پیشے کی بنیاد پر دوسرے مذہب کے لوگوں کو دلت زمرے میں شامل کر کے دیا جارہا ہے، لیکن دفعہ3 /341 کے تحت پابندی لگا کر دلت مسلمانوں کو اس سے محروم رکھا گیا ہے، اگر وہ پابندی ہٹالی جائے تو مسلمانوں کی وہ برادریاں جنہیں حلال خور، نٹ، دھوبی وغیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے وہ بھی ملک کی محفوظ نشستوں پر انتخابات میں حصہ لے سکیں گی، اور اسمبلی و پارلیمنٹ میں پہنچنے کا راستہ کھل جائے گا، انہوں نے آگے کہا کہ کیا یہ مذکورہ برادری کے مسلمان نہیں ہیں؟ علاوہ ازیں ایسا مطالبہ کیا جاتا ہے جو کبھی پورا ہوگا ہی نہیں، ہاں جو تھوڑا بہت ریزرویشن کا فائدہ مل رہا ہے وہ بھی ختم ہو سکتا ہے اور نام نہاد مسلم لیڈران یہی چاہتے بھی ہیں اور ہم اسی لئے کہتے ہیں کہ انکی نیت کل بھی درست نہیں تھی اور آج بھی درست نہیں ہے.
حاجی نثار انصاری صاحب نے کہا کہ سارے مسلمانوں کیلئے ریزرویشن مانگنا یا سارے مسلمانوں کی حالت کو دلتوں سے بدتر بتانا بے حیائی اور مکاری ہے اور اگر مسلمانوں کا لیڈر بننے کا شوق ہے تو پہلے خود اپنی تنظیموں کی جو عاملہ کمیٹی ہے اس میں پسماندہ مسلمانوں کو حصہ دو، بعد میں حکومت سے ریزرویشن کا مطالبہ کرنا، اتر پردیش کے بنکروں کی حالت کچھ دنوں قبل کتنی خراب تھی خون فروخت کیا جارہا تھا جبکہ اترپردیش کے بنکر اکثریت سے مسلمان ہیں تو پھر مسلم تنظیموں نے بنکروں کے فلاح و بہبود کیلئے لڑائی کیوں نہیں لڑی، آخر تم کون سے مسلمانوں کی بات کرتے ہو معلوم ہوا کہ یہ مسلمان ہوکر بھی مسلمان کو خوشحال دیکھنا نہیں چاہتے.
گفتگو کے آخر میں دونوں رہنماؤں نے کہا کہ پسماندہ مسلمانوں کو بھی سیاست کے میدان میں دل کا استعمال نہ کرکے دماغ کا استعمال کرنا ہوگا کیونکہ دل سے محبت کی جاتی ہے اور محبت کا انجام چھپا نہیں ہے، جذباتی نعروں سے پرہیز کرنا ہوگا اور اس بات کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ جمہوریت میں سروں کی قربانی دینے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ سروں کی گنتی کرانے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن وہ گنتی اپنے سماج کیلئے کرانی ہوگی ورنہ اپنے آپ کو مہذب کہلانے والے لوگ پھر سروں کی تعداد اور جم غفیر کو سکوں کے طور بہکا لیں گے جیسے ابتک بہکاتے آئے ہیں.