کشمیر میں فوج کے بہیمانہ مظالم :
جنرل سکریٹری: کاروانِ امن و انصاف
ksamikhann@gmail.com
ـــــــــــــــــــــــــ
کیا آپ جانتےہیں کشمیر کیا ہے اور کہاں ؟ ہوسکتا ہے آپ کسی جنت نشاں وادی کی سیر کررہے ہوں اور اس جغرافیائی حسن کو ہی کشمیر کا کُل سمجھتے ہوں، لیکن حقیقت یہ ہیکہ " جہاں ایک جنازے کو قبر تک پہنچانے کے لیے کئی جنازوں کی ضرورت پڑتی ہو، اس سرزمین کو " کشمیر " کہتے ہیں "_
یقینًا کشمیر کبھی شریعت عشق و حسن کی تشریح ہوا کرتاتھا لیکن بدقسمتی سے کشمیر کی رعنائیاں اور اس کی دلکشی ہندوپاک کے سیاسی جھگڑے میں جھلس رہی ہے، وہاں کے اصل باشندوں کے ساتھ زندگی اور آزادی کے نام پر ایسا بھدا مذاق ہورہاہے کہ اس کا تصور شخصی عزت کو کچل ڈالتا ہے، وہاں سیاسی مسافروں اور کرائے کے سیاحوں کو تو کامل تحفظ حاصل ہیں لیکن وہاں کے اصل رہائشی موت کے انتظار میں زندگی گذارتے ہیں، کشمیر اب ایک اذیت گاہ بن چکا ہے جہاں معصوم بچوں کی آنکھیں پھوڑ دی جاتی ہیں، لاشوں کے محل سے جاری خون کی ندیاں جھیلوں کا حسن چُرا رہی ہیں، بینائیاں سلب اور اعضاء تلف کیے جارہےہیں، معصوم کلیوں کو پو پھٹنے سے پہلے ہی مَسلا جارہاہے، انسانیت شرمسار اور حیوانات رقصاں ہے، اور یہ سب کوئی اور نہیں ہمارے ملک ہندوستان کی بہادر فوج کررہی ہے، اور یہ وہی فوج ہے جو کبھی بھی سنگھی دہشتگردوں، کرنی سینا کے مسلح غنڈوں اور اجودھیا کے فسادی بھکتوں کے مقابل کبھی نظر نہیں آئی، لیکن یہی فوج کشمیر میں نہتے مسلمانوں پر جری ہوجاتی ہے اور صرف جری ہی نہیں ہوتی بلکہ بے غیرتی، بے شرمی اور سفاکیت کی انتہاؤں پر پہنچ جاتی ہے، اور یہی وہ رویہ ہے فوج کا اور یہی وہ پالیسی ہے حکومت ہند کی جو وہاں کے بچوں کے ہاتھ میں کتابوں اور کھلونوں کی جگہ ہتھیار اور پتھر تھما رہی ہے۔
ابھی کشمیر میں ایک ۲ سال کی معصوم بچی کی آنکھ فوج نے پھوڑ دی تھی، یہ زخم ابھی مندمل نہیں ہوا تھاکہ کل پلوامہ، کشمیر میں ہجوم پر اندھادھند فائرنگ کرکے سات لوگوں کو مار ڈالا پچاس سے زائد زخمی ہیں، کشمیر میں فوج کی یہ بربریت صاف طورپر ثابت کررہی ہے کہ تشدد پسند کون ہے؟ لیکن سوال یہ ہیکہ سب خاموش کیوں ہیں؟کیا کشمیری مسلمان، انسان نہیں؟ یا ان کا درد محسوس کرنا سیکولرزم کے تمغوں اور جمہوریت کی ڈھکوسلہ باز آزادی اور حقوق کی علمبردار، یوروپ میں کُتوں کی اموات پر چیخنے والی نئی دنیا کے فیشن کے خلاف ہے؟
بعض انتہائی لبرل اور انتہائی مصلحتی حلقوں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں جو لوگ احتجاج کرتے ہیں ان کو جان سے مارنا جائز ہے اس لیے کہ وہ حکومت وقت سے بغاوت کررہے ہیں!
ایسے متعصب خونخواروں سے ہم پوچھنا چاہتےہیں کہ اگر جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے اپنی بات رکھنا جرم ہے، آزادانہ مظاہرے جرم ہیں تو یہ بتاؤ کہ " جاٹوں " کے پرتشدد آندولن پر آپ خاموش کیوں تھے؟ لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا پر گولیاں کیوں نہیں برسائی؟ کرنی سینا کے غنڈوں پر آپکی توپیں کیوں زنگ آلود ہوگئیں؟ ہندو ہوا واہنی اور ہندوراشٹر کے دہشتگردوں کی اجودھیا سے لےکر ادے پور تک کی فسادی ہنگامہ آرائی پر آپکے یہ خون کے پیاسے اور نیشنلزم کے جھوٹے قلم کیوں بےضمیری کی موت مرجاتے ہیں؟ ایکطرف سر تا سر تشدد اور خونریزی ہوتی ہے، آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، دوسری طرف کچھ لوگ اپنی بات رکھنے کی کوشش کرتےہیں، فرق اتنا ہوتاہے کہ دوسری طرف کے لوگ کشمیری مسلمان ہوتےہیں تو انہیں گولیوں اور ہتھیاروں کی نوک پر رکھ لیا جاتاہے، اس کے بعد یہ سیکولر دنیا، یہ لبرلزم اور آزادی و مساوات کی علمبردار دنیا، علم و ہنر اور فکرونظر کی دہائی دینے والی دنیا، امن و انسانیت کی پوجا کرنے والی دنیا، اپنا بدترین دوغلا اور کریہہ چہرہ پیش کرتی ہے، یہ جرائم یہ مظالم دیش بھنگی ہوجاتے ہیں، قلم سرنگوں اور زبانیں اندرونی غبار میں خون آلود ہوجاتی ہیں، مسلمانوں کے عالمی سطح کے مسائل اور شعائر کے سلسلے میں پوری دنیا کا یہی دشمنانہ رویہ ہوتا ہے، ان سب کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ، آپ اور ہم جو کچھ کرتے ہیں، جو کچھ کہتےہیں اور جو معیار طے کرکے زندگی کا اسٹینڈ چن رہےہیں وہ سب تاریخ میں درج ہورہاہے آپکی موت کے بعد آپکی نسلیں اس متعصبانہ دنیا کی متعفن تاریخ ضرور پڑھیں گی جس میں آپکا بھی نام درج ہوگا_
مسلمانوں کو یہ بات جوکہ کشمیری قضیے کی دستاویزی حقیقت ہے، سمجھ لینا چاہیے، کشمیر کا مسئلہ جو حل نہیں ہوپارہا ہے اس کے لیے دونوں ممالک ذمہ دار ہیں، اب تک کشمیری مسئلے کے حل کے لیے جو بھی کوششیں ہوئی ہیں انہیں اٹھا کر دیکھ لیجیے، دونوں طرف کی حکومتوں کا سیاسی ایجنڈا Solution پر غالب نظر آتاہے، اور اسی سیاسی ایجنڈے نے کشمیریوں کی زندگی کو وحشیت کی کھائی میں دھکیل دیاہے، قلم و قرطاس کے دھنی پڑھے لکھے لوگوں کی بے ضمیری اور فریب زدہ چہروں نے انہیں پتھر باز بنادیا ہے، جنت نشان کشمیر کی جہنم نمائی کے لیے ابن الوقت نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھا ہے_
یہ تاریخ کا وہ موڑ ہے جب پوری دنیا، میں ظالموں کا بول بالا ہے، چین سے لیکر فلسطین اور برما سے لے کر کشمیر تک ظلم و ستم کے دہانے اہل اسلام پر کھول دیے گئے ہیں، کوئی مرد آہن لوہا لینے والا نظر نہیں آتا، بکھرتی قومیت کی شیرازہ بندی کرنے والا کوئی مدبر نظر نہیں آتا_
ائے کاش! آزاد دنیا کے مسلمان دیگر مظلوم اور محصور مؤمنین سے عبرت لیں، اور اپنے زبان و قلم کی آزادی کو حق گوئی، اور مظلوموں کی داد رسی کے لیے بروئے کار لائیں، گردش ایام لوٹتے ہیں اور بےضمیری کی سزا ضرور دیتےہیں، واقعی یہ بے حسی کی انتہائی گھٹیا صورتحال ہے کہ مسلمان عالمی ایمانی جسد واحد سے بھی منقطع ہوچکاہے، اپنے مظلوموں اور محتاجوں کی اسے کوئی پرواہ نہیں، چہ جائیکہ واقفیت کی خواہش کریں، چاروں طرف سے اٹوٹ یلغار میں سسکتے ہوئے مظلوموں کے لیے کیا، کریں؟ کچھ نہیں سوجھتا، جو پاور میں ہیں انہیں مصلحت دامن گیر ہے، کم از کم پکارنے کی اجازت ہے تو پکار لیتے ہیں
" آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے؟ " اور یہ پکار ہے دراصل پورے ملک سے کہ آج وہ کشمیریوں کے ساتھ ملک گیر سطح پر کھڑے ہوجائیں، قبل اس کے کہ نفرت و ستم کی ہوائیں محبتوں پر آندھیاں ہوجائیں_
کشمیریوں کے ساتھ تاریخی سیاسی کھلواڑ کے پردے میں ظلم و ستم کے یہ مناظر ان کھلاڑیوں کے چین و سکون کو غارت کرنے کے لیے کافی ہیں.