کشمیر حالیہ تناظر میں
حافظ شاداب محمدی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
”کل کی بات ہے اللہ کی قسم رب گواہ ہے میں نئ بازار بھدوہی کے بازار میں چند حاجات وضروریات کے سامان خرید رہا تھا، اچانک ایک جوان بچی قریب آئی اور یوں گویا ہوئی بھائی "میں کشمیر سے آئی ہوں، وہاں ہمارے والد، گھر بار سب ختم ہوگئے حتی کہ کوئی ظلم، جبر واکراہ باقی نہیں جو کیا نہ گیا ہو"، میں اس بچی کو چپ رہنے کا اشارہ کیا کیوں کہ میں سرِبازار تھا پر وہ بولتی گئی میں ان کی ساری بات نقل نہیں کرسکتا پر اس تناظر میں دلی کیفیت میں نے لکھ دی ہے،
اس کی باتیں سن کر پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی، دل مغموم ہوگیا، آنکھ نم ہوگئی، سر شرمندگی سے جھک گیا اور دل نے رو دیا جو جیب میں تھا، پھر پوچھا کیا وہاں آپ کے حق کے میں یا حق کیلئے کوئی کچھ نہیں کرتا؟جواب ملا "نہیں معلوم".
حق بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
کشمیر لہولہان ہے، یہ درد بھری داستان ہے، ظلم و جور کی چکی میں پس رہا انسان ہے اور اب نا بچا کسی کا کوئی ارمان، ہر چارسو پھیلی یہ آہ وفغاں کس بات کا اعلان ہے؟.
کہاں گئی غیرت وحمیت؟ وہ اگتا سورج کو کیوں گہن لگ گیا؟ وہ اپنے آپ کو طاقتور شمار کروانے والے کہاں مر گئے؟ کیوں یہ جبر و تشدد دکھ نہیں رہا ہے؟ مسیحائے قوم، مسلمان کا ہمدرد، اتحاد کا نعرہ دینے والے کیوں کان بہرے ہوگئے؟ دکھ، تکلیف، غم والم، مصیبت و ملال اور حزن و افسردگی کیلئے کیا صرف اہل وادی ہی تخلیق میں آئی ہے؟ کیوں ہر مہ وسال ایک طوفان آتا ہے اور کشمیری کا پرخچہ اڑا کر چلا جاتا ہے، ہر موسم اہل وادی کیلئے سوائے خون وجنگ اور قتل وغارت کے علاوہ کچھ نہیں.
ذرا دیکھئے!
درندگی، حیوانیت، سفاکی اور اتلافِ جان ومال کا بول بالا ہے، جس کو ہم نے جنت مانا اور جانا ہے اس جنت کی کلیاں ہماری پاؤں کی دھول ہے اور مالیانِ جنت حقیر اور ذلت وتوہین کا ایک سرچشمہ ہے نعوذباللہ.
مستزاد کوئی زبان کھولنے کو تیار نہیں، کون یہ جرم مول لے کہ اہل کشمیر کی حمایت میں بولے، بےشرمی وبدنیتی کا راج ہے، دیانت وامانت اور حق گوئی قابل مذمت ہے، زبان پہ لگام ہے اور سچائی آقاؤں کے تلوے چاٹ رہی ہے.
کشمیر ہندوستان میں ہے کشمیری کیوں نہیں؟
اس سوال کا جواب پاسبان اقتدار کو دینا چاہئے، کون ہے جو اہل وادی کی عزت تارتار کر رہا ہے، کسی ماں سے بیٹا، کسی سے شوہر، کسی سے بھائی چھینا جا رہا ہےاور تو اور ہر کسی کا سب کچھ داؤ پر ہے.
کسی کی ہمدردی کسی کو بیٹا واپس نہیں کرسکتا، کسی کی زبان کسی کا سہاگ نہیں لا سکتا پر کیا دلاسہ کے بھی اہل وادی حقدار نہیں؟ کب تلک یہ دل سوز رواج روا ہونگے؟ کب تلک یہ آنکھیں امن وسکون کو ترسےگی؟ یہ خون میں لت پت چھوٹے اور معصوم بچے کیا کوئی ان کا گناہ اور جرم بتلائے گا؟ وہ ماں جس کی لاٹھی توڑ دی اور پر کاٹ لیا اس غم سے کیسے نکلےگی؟
ہزاروں ایسے سوالات ہے جنکے جوابات بنے نا بنے ہیں!
یہ جنت نما کشمیر ہزاروں غموں کے درمیان ہچکولے کھارہی ہے، اس شہزادی کو کسی بد نگاہ کی بد نظری نے آگھیرا ہے، جب جو چاہتا ہے مسل رہا ہے، لوٹ رہا ہے اور ہنس رہا ہے.
ایک درد بھرنے کو آتا ہے کہ دوسرا منہ کھولے انتظار کر رہا ہوتا ہے.
ہائے بدنصیبی!! قومِ مسلم کہ ہمارا کوئی ہمدرد وغمگسار نہیں، جو میرا بنا وہ ہمیں ہی حزن و ملال کے عمیق کنویں میں بے یارومدد گار دھکیل دیا.
وہ افراد جو اپنی ماں، بہن، بیٹیوں کے لئے آسمان وزمین ایک کر سکتے ہیں وہ لب کیوں خاموش ہیں، کہاں گئے عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی جو مسلمان کا چولا پہن کر حیوانیت سوز کارنامے پر اپنی زبان وبیان پر لگام لگائے بیٹھی ہیں، کون سی کرسی کی تلاش میں ہے، کیا لاشوں پر رکھی کرسیاں آپ کو زیب دیگی؟ کیا آپ رب کو منہ نہیں دکھاؤگے؟ کون سی بندش اور قید و بند ہے؟ کیا کشمیر میں رہنا گناہ ہے، کیا مسلمان ہونا جرم ہے، اگر ہاں تو انتظار کرو اے مفسدو؟ اللہ ضرور انصاف کرے گا.
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔