محمد سالم سریانوی
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
(گزشتہ یوم جمہوریہ کے موقع پر موقع سے مناسبت سے لکھی گئی ایک تحریر دوبارہ قدرے ترمیم کے ساتھ پیش ہے)
کل صبح آزاد ہندوستان کا ۷۰ واں ’’یوم جمہوریہ‘‘ منایا جائے گا، جس میں یہاں کے اکابر اور مجاہدین آزادی کی قربانیوں ، مجاہدوں اور کارناموں کو اجاگر کیا جائے گا، اور انھیںخراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ مبارک باد دی جائے گی۔
’’یوم جموریہ‘‘ در حقیقت ہندوستانی تاریخ کا انتہائی اہم اور تابناک دن ہے، جس میں ہمارے ملک عزیز ہندوستان میں ’’سیکولر وجمہوری قوانین‘‘ کا نفاذ ہوا، ویسے تو اس ملک کی آزادی کا باقاعدہ اعلان۱۵/ اگست ۱۹۴۷ء کو ہوا، لیکن اس اعلان سے پہلے ہی سے ’’قوانین وضوابط‘‘کی تیاری، بحث ومباحثہ اور ان کو حتمی شکل دینے کا کام جاری تھا، جس کومرتب شکل میں پیش کرنے اور بروئے نفاذ لانے کے لیے تقریبا تین سال کا عرصہ لگ گیا، جب اس کا ڈھانچہ مکمل ہوگیا تو آئین ساز اسمبلی نے۲۶/ نومبر ۱۹۴۹ء کو باقاعدہ اسے منظوری دی، اور اس کے نفاذ کے لیے ۲۶/ جنوری ۱۹۵۰ء کی تاریخ طے کی گئی، چناں چہ اس تاریخ کو ’’یوم جمہوریہ‘‘ کااعلان ہوا اور اس ملک میں ’’جمہوریت‘‘کا نفاذ عمل میں آیا اور ہندوستان کو ’’جمہوری ملک‘‘ قرار دیا گیا۔ آئین ہند کی تمہید میںنفاذ کے تعلق سے درج ذیل عبارت موجود ہے: ’’اپنی آئین ساز اسمبلی میں آج چھبیس نومبر ۱۹۴۹ء کو یہ آئین ذریعہ ہذا اختیار کرتے ہیں، وضع کرتے ہیں اور اپنے اوپر نافذ کرتے ہیں۔‘‘ (بھارت کا آئین ص:۳۵، مطبوعہ: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی)
اسی صفحہ پر شروع میں حقوق وآئین کے تعلق سے یہ بھی اجمالی طور پر تحریر ہے : ’’ہم بھارت کے عوام متانت وسنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقتدر سماج وادی غیر مذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں اور اس کے تمام شہریوں کے لیے حاصل کریں:
انصاف: سماجی، معاشی اور سیاسی۔آزادیٔ خیال، اظہار، عقیدہ دین اور عبادت۔مساوات بہ اعتبار حیثیت اور موقع۔ اور ان سب میں اخوت کو ترقی دیں، جس سے فرد کی عظمت اور قوم کے اتحاد اور سالمیت کا تیقن ہو۔‘‘ (حوالۂ سابقہ)
آگے تفصیلی طور پر حقوق وآئین کا تذکرہ موجود ہے، جس میں بنیادی طور پر ’’شہریت، آزادی، انصاف، مساوات اور دینی ومذہبی آزادی واظہار رائے وغیرہ‘‘ کو بالتفصیل د فعات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے، اور بڑی وضاحت کے ساتھ اس کی حقیقت، تعریف اور توضیح کی گئی ہے ۔
ہمارا ملک جمہوری ممالک میں سر فہرست مانا جاتا ہے، اور اس ملک کے آئین میں سب سے زیادہ دفعات پائی جاتی ہیں، لیکن کیا اس کے آئین اور دفعات وقوانین پر عمل ہوتا ہے، یا صرف یہ قانون ہے، بس! اس سے زیادہ اس کی حقیقت نہیں!
افسوس صد افسوس! ہمارا ملک جن جمہوری اقدار پر وجود میں آیا تھا، ان کو تہس نہس کردیا گیا، جو قانون کی بالا دستی مسلم تھی، وہ خود اس سے تہی دامن اور بھیک مانگنے پر مجبور ہے، جہاں بنیادی حقوق میں شہریت وآزادی کو نمایاں مقام دیا گیا تھا وہاں شہریت وآزادی پر قدغن لگایا جارہا ہے، جہاں ہر طرح سے مذہبی آزادی تھی وہاں ایک خاص نظریہ کو تمام جمہوری ڈھانچوں مسلط کردیا گیا ہے، جہاں اظہار رائے کی مکمل آزادی اور اجازت تھی وہاں عوام کوایک منظم اور طے شدہ اظہار رائے کا پابند کیا جارہا ہے!
یہ اور اس جیسے نہ معلوم کتنے حقوق اور آئین ہیں جن کو صراحۃ ہمارے ملک میں روند ا جارہاہے اور ان کو ردی کی ٹوکری کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا، تو کیا ایسی صورت حال میں یہاں کی’’ جمہوریت‘‘ سالم اور بحال رہ سکتی ہے؟ اس وقت ملک کی جو صورت حال ہے وہ ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے؛ بل کہ ہر فرد بشر اس سے بخوبی واقف ہے، جہاں امن وامان، عد ل وانصاف ، پاسداریٔ حقوق وغیرہ کالعدم کے درجہ میں ہے، اور اس سے بھی بڑی دل خراش حالت یہ ہے کہ جمہوری اقدار وروایات کے خلاف آئین ونظریات رکھنے، پھیلانے اور جبرا نافذ کرنے والے ’’آئین ہند‘‘ کی بات کرتے ہیں، اور دوسروں کو ہدایات جاری کرتے ہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘
موجودہ صورت حال پوری ہندی عوام کے لیے خطرناک ہے، اس لیے ہمیں اور پوری عوام کو بیدار ہونا ہوگا، دستوروآئین کو بچانا ہوگا، جمہوری روایات واقدار کی بحالی اور بالا دستی زندہ کرنا ہوگا، مخصوص نظریات کو نیست ونابود کرنا ہوگا، تب جاکر صحیح اور واقعی معنوں میں ہم ’’جمہوری‘‘ کہلائیں گے اور ’’جشن یوم جمہوریہ‘‘ منانے کے حقدار ہوں گے۔
( ۱۹/ جمادی الاولی ۱۴۴۰ھ مطابق۲۵/جنوری۲۰۱۹ء جمعہ)
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
(گزشتہ یوم جمہوریہ کے موقع پر موقع سے مناسبت سے لکھی گئی ایک تحریر دوبارہ قدرے ترمیم کے ساتھ پیش ہے)
کل صبح آزاد ہندوستان کا ۷۰ واں ’’یوم جمہوریہ‘‘ منایا جائے گا، جس میں یہاں کے اکابر اور مجاہدین آزادی کی قربانیوں ، مجاہدوں اور کارناموں کو اجاگر کیا جائے گا، اور انھیںخراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ مبارک باد دی جائے گی۔
’’یوم جموریہ‘‘ در حقیقت ہندوستانی تاریخ کا انتہائی اہم اور تابناک دن ہے، جس میں ہمارے ملک عزیز ہندوستان میں ’’سیکولر وجمہوری قوانین‘‘ کا نفاذ ہوا، ویسے تو اس ملک کی آزادی کا باقاعدہ اعلان۱۵/ اگست ۱۹۴۷ء کو ہوا، لیکن اس اعلان سے پہلے ہی سے ’’قوانین وضوابط‘‘کی تیاری، بحث ومباحثہ اور ان کو حتمی شکل دینے کا کام جاری تھا، جس کومرتب شکل میں پیش کرنے اور بروئے نفاذ لانے کے لیے تقریبا تین سال کا عرصہ لگ گیا، جب اس کا ڈھانچہ مکمل ہوگیا تو آئین ساز اسمبلی نے۲۶/ نومبر ۱۹۴۹ء کو باقاعدہ اسے منظوری دی، اور اس کے نفاذ کے لیے ۲۶/ جنوری ۱۹۵۰ء کی تاریخ طے کی گئی، چناں چہ اس تاریخ کو ’’یوم جمہوریہ‘‘ کااعلان ہوا اور اس ملک میں ’’جمہوریت‘‘کا نفاذ عمل میں آیا اور ہندوستان کو ’’جمہوری ملک‘‘ قرار دیا گیا۔ آئین ہند کی تمہید میںنفاذ کے تعلق سے درج ذیل عبارت موجود ہے: ’’اپنی آئین ساز اسمبلی میں آج چھبیس نومبر ۱۹۴۹ء کو یہ آئین ذریعہ ہذا اختیار کرتے ہیں، وضع کرتے ہیں اور اپنے اوپر نافذ کرتے ہیں۔‘‘ (بھارت کا آئین ص:۳۵، مطبوعہ: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی)
اسی صفحہ پر شروع میں حقوق وآئین کے تعلق سے یہ بھی اجمالی طور پر تحریر ہے : ’’ہم بھارت کے عوام متانت وسنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقتدر سماج وادی غیر مذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں اور اس کے تمام شہریوں کے لیے حاصل کریں:
انصاف: سماجی، معاشی اور سیاسی۔آزادیٔ خیال، اظہار، عقیدہ دین اور عبادت۔مساوات بہ اعتبار حیثیت اور موقع۔ اور ان سب میں اخوت کو ترقی دیں، جس سے فرد کی عظمت اور قوم کے اتحاد اور سالمیت کا تیقن ہو۔‘‘ (حوالۂ سابقہ)
آگے تفصیلی طور پر حقوق وآئین کا تذکرہ موجود ہے، جس میں بنیادی طور پر ’’شہریت، آزادی، انصاف، مساوات اور دینی ومذہبی آزادی واظہار رائے وغیرہ‘‘ کو بالتفصیل د فعات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے، اور بڑی وضاحت کے ساتھ اس کی حقیقت، تعریف اور توضیح کی گئی ہے ۔
ہمارا ملک جمہوری ممالک میں سر فہرست مانا جاتا ہے، اور اس ملک کے آئین میں سب سے زیادہ دفعات پائی جاتی ہیں، لیکن کیا اس کے آئین اور دفعات وقوانین پر عمل ہوتا ہے، یا صرف یہ قانون ہے، بس! اس سے زیادہ اس کی حقیقت نہیں!
افسوس صد افسوس! ہمارا ملک جن جمہوری اقدار پر وجود میں آیا تھا، ان کو تہس نہس کردیا گیا، جو قانون کی بالا دستی مسلم تھی، وہ خود اس سے تہی دامن اور بھیک مانگنے پر مجبور ہے، جہاں بنیادی حقوق میں شہریت وآزادی کو نمایاں مقام دیا گیا تھا وہاں شہریت وآزادی پر قدغن لگایا جارہا ہے، جہاں ہر طرح سے مذہبی آزادی تھی وہاں ایک خاص نظریہ کو تمام جمہوری ڈھانچوں مسلط کردیا گیا ہے، جہاں اظہار رائے کی مکمل آزادی اور اجازت تھی وہاں عوام کوایک منظم اور طے شدہ اظہار رائے کا پابند کیا جارہا ہے!
یہ اور اس جیسے نہ معلوم کتنے حقوق اور آئین ہیں جن کو صراحۃ ہمارے ملک میں روند ا جارہاہے اور ان کو ردی کی ٹوکری کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا، تو کیا ایسی صورت حال میں یہاں کی’’ جمہوریت‘‘ سالم اور بحال رہ سکتی ہے؟ اس وقت ملک کی جو صورت حال ہے وہ ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے؛ بل کہ ہر فرد بشر اس سے بخوبی واقف ہے، جہاں امن وامان، عد ل وانصاف ، پاسداریٔ حقوق وغیرہ کالعدم کے درجہ میں ہے، اور اس سے بھی بڑی دل خراش حالت یہ ہے کہ جمہوری اقدار وروایات کے خلاف آئین ونظریات رکھنے، پھیلانے اور جبرا نافذ کرنے والے ’’آئین ہند‘‘ کی بات کرتے ہیں، اور دوسروں کو ہدایات جاری کرتے ہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘
موجودہ صورت حال پوری ہندی عوام کے لیے خطرناک ہے، اس لیے ہمیں اور پوری عوام کو بیدار ہونا ہوگا، دستوروآئین کو بچانا ہوگا، جمہوری روایات واقدار کی بحالی اور بالا دستی زندہ کرنا ہوگا، مخصوص نظریات کو نیست ونابود کرنا ہوگا، تب جاکر صحیح اور واقعی معنوں میں ہم ’’جمہوری‘‘ کہلائیں گے اور ’’جشن یوم جمہوریہ‘‘ منانے کے حقدار ہوں گے۔
( ۱۹/ جمادی الاولی ۱۴۴۰ھ مطابق۲۵/جنوری۲۰۱۹ء جمعہ)