شاعر بسمل اعظمی
جشنِ جمہور
بیڑیاں پائے شکستہ میں تھیں کل آج بھی ہیں
اہلِ افلاس کی پیشانی پہ بل آج بھی ہیں
کل تھے جو برسرِ پیکار عمل آج بھی ہیں
مُسکراتے ہوئے سب اہل دول آج بھی ہیں
اب بھی بوسیدہ ہیں مفلس کی ردائیں لوگو
جشنِ جمہور ابھی کیسے منائیں لوگو
آج بھی پردہء افلاس اٹھایا نہ گیا
وہ منارہ جو تعصب کا تھا ڈھایہ نہ گیا
نظم برہم کو کسی طرح سجایا نہ گیا
کتنا بے جرم و خطا خون بہایا نہ گیا
خون آلودہ ہیں ملت کی قبائیں لوگو
جشنِ جمہور ابھی کیسے منائیں لوگو
آج بھی مفلس و نادار کا دم گھٹتا ہے
ناتواں بے کس و بیمار کا دم گھٹتا ہے
اب بھی مزدور کا فنکار کا دم گھٹتا ہے
کیسے کہہ دیں کسی زردار کا دم گھٹتا ہے
قصہء جور جفا کس کو سنائیں لوگو
جشنِ جمہور ابھی کیسے منائیں لوگو
زر پرستی کی ہوس اب بھی ہے زرداروں میں
عام ہے جور و جفا اب بھی ستم گاروں میں
عصمتیں لوٹتی ہیں اب بھی انہیں بازاروں میں
تھے وفادار جو کل آج ہیں غداروں میں
دل کے زخموں کو کہاں کس کو دکھائیں لوگو
جشنِ جمہور ابھی کیسے منائیں لوگو
بھوک اور فاکہ کشی کل سے زیادہ ہے ابھی
ظلم کا ہاتھ بہر طور کشادہ ہے ابھی
جرم فردا کا یہاں صرف اعادہ ہے ابھی
یعنی قلت کو مٹانے کا ارادہ ہے ابھی
خون ملت سے دیا کیسے جلائیں لوگو
جشنِ جمہور ابھی کیسے منائیں لوگو
نفرت و بغض و عداوت کا چلن آج بھی ہے
زخمی ہے ہر غنچہءگل گوں کا دہن آج بھی ہے
یعنی ہر وصف زیاں حسنِ چمن آج بھی ہے
اور جمہور کے ماتھے پہ شکن آج بھی ہے
کس قدر ہوگئیں مسموم فضائیں لوگو
جشنِ جمہور ابھی کیسے منائیں لوگو