عطاء الرحمان بلہروی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم ہردلعزیز استاد مشہور عالم دین عظیم مفکر علم وعمل کے پیکر زبان وادب کے میدان کی نہایت قدآورشخصیت عربی زبان کے بے مثال اورمایہ ناز ادیب نیک سیرت وخوش خو حضرت مولانا سید واضح رشید حسنی ندوی ؒ کے اچانک انتقال کی المناک وغم انگیز خبر16جنوری کو بجلی بن کر گری اناللہ واناالیہ راجعون اوریہ اندوہ ناک خبر پورے عالم میں نہایت ہی رنج وغم اورافسوس کے ساتھ سنی گئی۔ حضرت مولاناواضح رشید حسنی ندوی ؒ کے انتقال سے نہ صرف ندوۃ العلماء بلکہ پورا عالم اسلام ایک جید عالم دین عظیم مفکر داعی عربی زبان کے مایاناز ادیب باکمال صحافی اورمحسن علم واد ب سے محروم ہوگیا ۔ مولانا 83؍برس کے تھے اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو علم وعمل دین وتقویٰ اخلاق وسلوک اوررواداری کی عظیم نعمتوں سے نواز ہ تھا وہ دین کے سچے علمبردار تھے۔
ان کی زندگی انتہائی سادگی وتواضع فنائیت استغنا بے نفسی اوربے غرضی سے عبارت تھی۔ مولانا کا ایک نمایاں وصف خاموشی تھا بلاضرورت نہیں بولتے تھے۔ وہ عظیم مفکربے لو ث داعی کامیاب معلم بالغ نظراورجیدعالم دین تھے برصغیر ہندو۔پاک میں عربی زبان وادب اورجدید عربی صحافت کی آبرو تھے۔عربی زبان وادب حضرت مولانا کا خاص موضوع تھا۔ آپ عربی ادب کے بے تاج بادشاہ تھے۔رسولؐ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی گزارتے تھے ۔حضرت مرحوم کی پوری زندگی قابل رشک تھی اوران سے تعلق رکھنے والے بندگان خدا کی تعداد بے شمارہے۔ ان کی تعزیت کا سلسلہ ملک اوربیرونی ممالک سے برابرجاری وساری ہے۔ آپ بیک وقت عالم اسلام کے مقبول ومحترم عالم دین قدآورصحافی ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم صحیفہ الرائد کے رئیس التحریر مجلہ البعث الاسلامی کے شریک ادارت رابطہ ادب اسلامی کے جنرل سکریٹری درجنوں عربی واردو کتابوں کے مصنف ومختلف مدرسوں کے بانی وسرپرست تھے۔ آپ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ کے بھانجے اورمرشدالامت حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی کے چھوٹے بھائی تھے ۔مولانا مرحوم نے اپنی پوری زندگی ملت اسلامیہ کیلئے وقف کردی تھی ۔ آپ کی تحریروں وتقریروں سے اس کا اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ آپ قوم وملت کی بے راہ روی اورامت مسلمہ کی دین الٰہی سے غفلت پر بے چین وبے قرار ہوکر اپنی تحریروں سے مسلم قوم کو جگاتے رہتے تھے۔
مولاناکی شہر ت عالم اسلام میں ایک صحافی کی حیثیت سے تھی لیکن حضرت مولانا اس سے بڑھ کر ایک عظیم اسلامی مفکر اوراعلیٰ علمی ذوق کے حامل تھے ۔ یکسوئی کے عادی خلوت پسند گوشہ گیر اورکم گو تھے۔ لیکن گفتگومیں بڑی معنویت ہوتی تھی۔ حضرت مولانا کی مغربی افکار اوراس کی سازشوں عالم اسلام پر اہل مغرب کی فکری یلغار اوراس کیلئے اختیار کیے جانے والے طریقوں پر گہری نظرتھی۔ وہ بہت گہرائی اورگیرائی سے مسائل کا جائزہ لیاکرتے تھے اوراسلامی فکر کی معنویت کو بہت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ کی طرح پیش کرتے تھے۔ ان کی تدریس وتربیت اورانداز بیان بہت موثرہوتاتھا۔ مولانا نے اپنے مضامین سے عالم عربی کا المیہ جدید وسائل کی بے راہ روی مستشرقین کی ریشہ دوانیوں یہود ونصاریٰ کے اسلام اورمسلمانوں کے تئیں منفی رجحانات اورمخرب اخلاق ذرائع ابلاغ سے نسل نوع کو بیدار کرتے ۔مولانااسلامی صحافت سے ہمیشہ وابستہ رہے ۔الرائد کی ادارت کرتے ہوئے انہوں نے اسلامی مضامین اوراسلام کے خلاف لکھی گئی تحریروں کو مدلل جواب دیااوراپنی زندگی میں الرائد کو اسلامی صحافت کی بلندیوں پر پہنچایادیا۔
مولانا صاحب اسلوب ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زاہد خداترس استاد ومربی اورعاجزی وشرافت کے پیکرتھے ۔ان کے یہاں غیرمعمولی توسع اوررواداری کاجذبہ تھاکہ خود کو نقصان پہنچ جائے لیکن دوسرے کو تکلیف نہ ہو۔مولانا کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے ہمیشہ خود کو پیچھے رکھا اوردوسروں کو آگے بڑھایااور ہمت افزائی بھی کی۔ ان کارہن سہن نشست وبرخاست کھانہ پینا لباس بہت سادہ تھا۔تواضع اورسادگی آپ کی پہچان تھی۔ مولانا کی زندگی ایثار وقربانی اورقناعت سے لبریز تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ حضرت مولانا نے گورنمنٹ کی اعلیٰ ملازمت چھوڑ کر رضائے الٰہی کے حصول کیلئے ندوۃ العلماء سے وابستگی اختیار کی اور2006میں حضرت مولانا عبداللہ عباسؒ کی وفات کے بعد معتمد تعلیم کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے۔ جب انہوں نے معتمد تعلیم کی ذمہ داری سنبھالی تو تنخواہ سے بھی دستبردار ہوگئے اوراپنی آخری سانس تک بغیر کسی معاوضہ کے خدمت انجام د یتے رہے ۔مولانا کی شخصیت دینی تعلیم وتدریس کا منبع تھی وہ تعلیمی نظام کی باریکیوں سے خوب واقف تھے۔ اپنی صلاحیت اورتجربہ کی بناء پر مولانا مرحوم نے ندوۃ العلماء میں تعلیمی نظام کو مستحکم کیا۔ طلباء کے ساتھ اساتذہ کی بھی رہنمائی کرتے اورذاتی مفاد کے بجائے بطور مشن تدریسی فرائض انجام دینے کی تاکید وتلقین کرتے ۔مولانا ایک بلند پایہ ناقد تھے اورنقد کی قدروقیمت سے پوری طرح واقف تھے۔ حضرت کی شخصیت بہت عظیم تھی ۔ حضرت سے میری پہلی ملاقات جب ہوئی توملاقات کے بعد طبیعت پر ایک سکینت کی کیفیت طاری ہوگئی اورعجب روحانی لذت کا احساس ہوا جو عرصہ تک قائم رہا۔حضرت مولانا سے زیادہ ملاقات کاشرف حاصل نہیں رہا لیکن جب بھی ملاقات ہوئی انہیں شرافت ،ہمدردی ،انسانیت نوازی اوراخلاق کریمہ وتواضع کے اعلیٰ مقام پر فائز پایااوریہ خصوصیت پورے حسنی خاندان کو اللہ رب العزت کی جانب سے ملی ہے۔ اسی خانوادے کے مرد مجاہد حضرت سید احمدشہید ؒ نے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اوران کے رفقاء نے اخلاص وللاہیت کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔
مولاناواضح رشیدندویؒ انسانی عظمتوں کا مجموعہ تھے اوراپنے شاگردوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ خیروعافیت دریافت کرنے کے بعد قیمتی مشوروں سے بھی نوازا کرتے تھے۔ مولانا اردو اورعربی کے علاوہ انگریزی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ا س لئے تینوں زبانوں کی صحافت پر گہری نظرتھی ۔ عالمی حالات پر ان کا بہت عمیق مطالعہ تھا۔ حضرت کو ان دنوں میں بہت دھندلا دکھائی دیتاتھا اس لئے مطالعہ کاسلسلہ منقطع تھا لیکن وہ عالم اسلام کے احوال وکوائف سے واقف رہتے اوراس پر اپنی رائے دیتے تھے۔ تحریر کو پڑھواکر سنتے تھے اوراپنے مضامین وخطوط املاکرواتے تھے۔استاد ادب دارالعلوم ندوۃ العلماء مولانا محمدوثیق ندوی حضرت کے کاتب خاص تھے آپ کی تحریریں بہت مستند ہوتی تھیں علمی دنیا میں آپ کی حیثیت مسلم تھی اورنبی اکرم کی سیرت کا کافی گہرائی سے مطالعہ تھااوراس پر کافی مضامین لکھے ۔ ابھی جلد ہی محترمی مولانا آفتاب عالم خیرآبادی ندوی مبلغ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے ملاقات ہونے کے بعد خیریت دریافت کی اوردعاؤں اورقیمتی مشوروں سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ دورحاضر میں سیرت رسول کو علمی وفکری انداز میں پیش کرنا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے اورمسلمانوں کی اولین ذمہ داری ہے۔امت مسلمہ کویہ سبق اورپیغام دینے کی ضرورت ہے۔ یہی وقت کی پکار اورحالات کا تقاضہ ہے۔ حضرت مولانا واضح رشید ندوی نے کبھی جوشیلی اورجذباتی تقریر نہیں کی بلکہ انہوں نے تقریر وتحریر میں ہمیشہ میانہ روی اورتوازن قائم رکھا۔ قرآن وحدیث میں مومنین کے جواوصاف بیان کیے گئے ہیں اس کی جھلک ان کی زندگی میں صاف نظرآتی تھی۔ وہ دریا کو کوزے میں بندکردیتے تھے۔مولانا مرحوم صاحب زبان ہونے کے ساتھ زبان کی باریکیوں سے بھی واقف تھے۔ مولانا مرحوم نے نظام تعلیم وتربیت اندیشے، تقاضے اورحل جیسے اہم اورنازک موضوع پر قلم اٹھایااورایک دیانت دار مصنف کی طرح غیرجانب داری کے ساتھ دونوں نظاموں کی خوبیوں اورخامیوں کی نشاندہی کی اوران کے بہتر اورمفید بنانے کے مشورے دیے۔مولانا نے اپنے پیچھے ہزاروں شاگرد چھوڑے ہیں جو ان زندگی کا عظیم سرمایہ ہے۔ پوری ملت اسلامیہ اس دکھ کی گھڑی میں ان کے پسماندگان اوراعزاء کے ساتھ ہیں اورتعزیت پیش کرنے کے ساتھ صبرکی تلقین کرتے ہیں۔ مولانا مرحوم نے ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ وہ اپنی خصوصیات اورخوبیوں نیزکاموں کی وجہ سے ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے ۔ حضرت مولانا سید محمدرابع حسنی ندوی اورمولانا واضح رشیدحسنی ندوی ؒ ایک جان دوقالب تھے ۔امت مسلمہ کو جہاں مولانا واضح رشید ندویؒ کی بلندئ درجات ان کے پسماندگان کیلئے صبر جمیل کی دعائیں کرنا چاہئے وہیں حضرت مولانا سید محمدرابع حسنی ندوی کیلئے اس اندوہ ناک سانحہ سے گزرنے کا حوصلہ اورصحت وعافیت کے ساتھ دراز عمر کی دعا کرنی چاہئے۔ مولانا واضح رشید صاحب کے فرزند ارجمند مخدومی استاد محترم مولاناسید جعفر مسعود حسنی ندوی مدیر تحریر الرائد واستاد حدیث مدرسہ عالیہ عرفانیہ ہیں جو الولدسرلابیہکامکمل نمونہ ہیں اوراپنے والدمحترم کی بولتی ہوئی تصویر ہیں۔اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل وکرم سے مولانا مرحوم کو اپنی ردائے رحمت ومغفرت میں چھپالے اوران کے فیض علم کوجاری رکھتے ہوئے ان کی لغزشوں اورتقصیرات کو نظرانداز فرماتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے اورجملہ اہل تعلق تلامذہ ،اساتذہ ، اصدقاء ،اہل خاندان اورمحبین کو صبرجمیل عطافرمائے اورایصال وثواب کی توفیق سے نوازے ۔عربی شاعر نے کہاتھا ذہب الذین احبھم ،وبقیت مثل السیف فرداکہ میرے سارے دوست احباب چلے گئے لیکن میں تلوار کی طرح بالکل تنہارہ گیا۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل وکرم سے ہم کو اہل علم کی قدر کرنے اوران کی زندگی کی نقل اتارنے کی توفیق عطافرمائے حضرت مولانا واضح رشید ندوی ؒ کے ساتھ سچا خراج عقیدت یہ ہے کہ ہم لوگ ان کے شروع کیے ہوئے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کریں اورصہیونی سازشوں کے خلاف جوان کا طریقہ کار تھا اس کا پرکرنے کی کوشش کریں ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اللہ تعالیٰ اس کو پر کرے اوردارالعلوم ندوۃ العلماء کو ان کا نعم البدل عطاکرے ۔چراغ ودین دانش بجھ گیا ہندی مسلماں کا ۔اندھیرا چھاگیا ہر سو منارہ کھودیا ہم نے ۔وہی بزم ہے وہی دھوم ہے ۔وہی عاشقوں کا ہجوم ہے ۔ہے کمی تو بس اس چاند کی جوتہہ مزار چلاگیا۔وہ سخن سناش وہ دوربیں وہ گدانواز وہ مہ جبیں ۔وہ حسین وہ بحرعلوم دیں مرا تاج دار چلا گیا.
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم ہردلعزیز استاد مشہور عالم دین عظیم مفکر علم وعمل کے پیکر زبان وادب کے میدان کی نہایت قدآورشخصیت عربی زبان کے بے مثال اورمایہ ناز ادیب نیک سیرت وخوش خو حضرت مولانا سید واضح رشید حسنی ندوی ؒ کے اچانک انتقال کی المناک وغم انگیز خبر16جنوری کو بجلی بن کر گری اناللہ واناالیہ راجعون اوریہ اندوہ ناک خبر پورے عالم میں نہایت ہی رنج وغم اورافسوس کے ساتھ سنی گئی۔ حضرت مولاناواضح رشید حسنی ندوی ؒ کے انتقال سے نہ صرف ندوۃ العلماء بلکہ پورا عالم اسلام ایک جید عالم دین عظیم مفکر داعی عربی زبان کے مایاناز ادیب باکمال صحافی اورمحسن علم واد ب سے محروم ہوگیا ۔ مولانا 83؍برس کے تھے اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو علم وعمل دین وتقویٰ اخلاق وسلوک اوررواداری کی عظیم نعمتوں سے نواز ہ تھا وہ دین کے سچے علمبردار تھے۔
ان کی زندگی انتہائی سادگی وتواضع فنائیت استغنا بے نفسی اوربے غرضی سے عبارت تھی۔ مولانا کا ایک نمایاں وصف خاموشی تھا بلاضرورت نہیں بولتے تھے۔ وہ عظیم مفکربے لو ث داعی کامیاب معلم بالغ نظراورجیدعالم دین تھے برصغیر ہندو۔پاک میں عربی زبان وادب اورجدید عربی صحافت کی آبرو تھے۔عربی زبان وادب حضرت مولانا کا خاص موضوع تھا۔ آپ عربی ادب کے بے تاج بادشاہ تھے۔رسولؐ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی گزارتے تھے ۔حضرت مرحوم کی پوری زندگی قابل رشک تھی اوران سے تعلق رکھنے والے بندگان خدا کی تعداد بے شمارہے۔ ان کی تعزیت کا سلسلہ ملک اوربیرونی ممالک سے برابرجاری وساری ہے۔ آپ بیک وقت عالم اسلام کے مقبول ومحترم عالم دین قدآورصحافی ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم صحیفہ الرائد کے رئیس التحریر مجلہ البعث الاسلامی کے شریک ادارت رابطہ ادب اسلامی کے جنرل سکریٹری درجنوں عربی واردو کتابوں کے مصنف ومختلف مدرسوں کے بانی وسرپرست تھے۔ آپ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ کے بھانجے اورمرشدالامت حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی کے چھوٹے بھائی تھے ۔مولانا مرحوم نے اپنی پوری زندگی ملت اسلامیہ کیلئے وقف کردی تھی ۔ آپ کی تحریروں وتقریروں سے اس کا اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ آپ قوم وملت کی بے راہ روی اورامت مسلمہ کی دین الٰہی سے غفلت پر بے چین وبے قرار ہوکر اپنی تحریروں سے مسلم قوم کو جگاتے رہتے تھے۔
مولاناکی شہر ت عالم اسلام میں ایک صحافی کی حیثیت سے تھی لیکن حضرت مولانا اس سے بڑھ کر ایک عظیم اسلامی مفکر اوراعلیٰ علمی ذوق کے حامل تھے ۔ یکسوئی کے عادی خلوت پسند گوشہ گیر اورکم گو تھے۔ لیکن گفتگومیں بڑی معنویت ہوتی تھی۔ حضرت مولانا کی مغربی افکار اوراس کی سازشوں عالم اسلام پر اہل مغرب کی فکری یلغار اوراس کیلئے اختیار کیے جانے والے طریقوں پر گہری نظرتھی۔ وہ بہت گہرائی اورگیرائی سے مسائل کا جائزہ لیاکرتے تھے اوراسلامی فکر کی معنویت کو بہت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ کی طرح پیش کرتے تھے۔ ان کی تدریس وتربیت اورانداز بیان بہت موثرہوتاتھا۔ مولانا نے اپنے مضامین سے عالم عربی کا المیہ جدید وسائل کی بے راہ روی مستشرقین کی ریشہ دوانیوں یہود ونصاریٰ کے اسلام اورمسلمانوں کے تئیں منفی رجحانات اورمخرب اخلاق ذرائع ابلاغ سے نسل نوع کو بیدار کرتے ۔مولانااسلامی صحافت سے ہمیشہ وابستہ رہے ۔الرائد کی ادارت کرتے ہوئے انہوں نے اسلامی مضامین اوراسلام کے خلاف لکھی گئی تحریروں کو مدلل جواب دیااوراپنی زندگی میں الرائد کو اسلامی صحافت کی بلندیوں پر پہنچایادیا۔
مولانا صاحب اسلوب ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زاہد خداترس استاد ومربی اورعاجزی وشرافت کے پیکرتھے ۔ان کے یہاں غیرمعمولی توسع اوررواداری کاجذبہ تھاکہ خود کو نقصان پہنچ جائے لیکن دوسرے کو تکلیف نہ ہو۔مولانا کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے ہمیشہ خود کو پیچھے رکھا اوردوسروں کو آگے بڑھایااور ہمت افزائی بھی کی۔ ان کارہن سہن نشست وبرخاست کھانہ پینا لباس بہت سادہ تھا۔تواضع اورسادگی آپ کی پہچان تھی۔ مولانا کی زندگی ایثار وقربانی اورقناعت سے لبریز تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ حضرت مولانا نے گورنمنٹ کی اعلیٰ ملازمت چھوڑ کر رضائے الٰہی کے حصول کیلئے ندوۃ العلماء سے وابستگی اختیار کی اور2006میں حضرت مولانا عبداللہ عباسؒ کی وفات کے بعد معتمد تعلیم کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے۔ جب انہوں نے معتمد تعلیم کی ذمہ داری سنبھالی تو تنخواہ سے بھی دستبردار ہوگئے اوراپنی آخری سانس تک بغیر کسی معاوضہ کے خدمت انجام د یتے رہے ۔مولانا کی شخصیت دینی تعلیم وتدریس کا منبع تھی وہ تعلیمی نظام کی باریکیوں سے خوب واقف تھے۔ اپنی صلاحیت اورتجربہ کی بناء پر مولانا مرحوم نے ندوۃ العلماء میں تعلیمی نظام کو مستحکم کیا۔ طلباء کے ساتھ اساتذہ کی بھی رہنمائی کرتے اورذاتی مفاد کے بجائے بطور مشن تدریسی فرائض انجام دینے کی تاکید وتلقین کرتے ۔مولانا ایک بلند پایہ ناقد تھے اورنقد کی قدروقیمت سے پوری طرح واقف تھے۔ حضرت کی شخصیت بہت عظیم تھی ۔ حضرت سے میری پہلی ملاقات جب ہوئی توملاقات کے بعد طبیعت پر ایک سکینت کی کیفیت طاری ہوگئی اورعجب روحانی لذت کا احساس ہوا جو عرصہ تک قائم رہا۔حضرت مولانا سے زیادہ ملاقات کاشرف حاصل نہیں رہا لیکن جب بھی ملاقات ہوئی انہیں شرافت ،ہمدردی ،انسانیت نوازی اوراخلاق کریمہ وتواضع کے اعلیٰ مقام پر فائز پایااوریہ خصوصیت پورے حسنی خاندان کو اللہ رب العزت کی جانب سے ملی ہے۔ اسی خانوادے کے مرد مجاہد حضرت سید احمدشہید ؒ نے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اوران کے رفقاء نے اخلاص وللاہیت کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔
مولاناواضح رشیدندویؒ انسانی عظمتوں کا مجموعہ تھے اوراپنے شاگردوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ خیروعافیت دریافت کرنے کے بعد قیمتی مشوروں سے بھی نوازا کرتے تھے۔ مولانا اردو اورعربی کے علاوہ انگریزی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ا س لئے تینوں زبانوں کی صحافت پر گہری نظرتھی ۔ عالمی حالات پر ان کا بہت عمیق مطالعہ تھا۔ حضرت کو ان دنوں میں بہت دھندلا دکھائی دیتاتھا اس لئے مطالعہ کاسلسلہ منقطع تھا لیکن وہ عالم اسلام کے احوال وکوائف سے واقف رہتے اوراس پر اپنی رائے دیتے تھے۔ تحریر کو پڑھواکر سنتے تھے اوراپنے مضامین وخطوط املاکرواتے تھے۔استاد ادب دارالعلوم ندوۃ العلماء مولانا محمدوثیق ندوی حضرت کے کاتب خاص تھے آپ کی تحریریں بہت مستند ہوتی تھیں علمی دنیا میں آپ کی حیثیت مسلم تھی اورنبی اکرم کی سیرت کا کافی گہرائی سے مطالعہ تھااوراس پر کافی مضامین لکھے ۔ ابھی جلد ہی محترمی مولانا آفتاب عالم خیرآبادی ندوی مبلغ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے ملاقات ہونے کے بعد خیریت دریافت کی اوردعاؤں اورقیمتی مشوروں سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ دورحاضر میں سیرت رسول کو علمی وفکری انداز میں پیش کرنا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے اورمسلمانوں کی اولین ذمہ داری ہے۔امت مسلمہ کویہ سبق اورپیغام دینے کی ضرورت ہے۔ یہی وقت کی پکار اورحالات کا تقاضہ ہے۔ حضرت مولانا واضح رشید ندوی نے کبھی جوشیلی اورجذباتی تقریر نہیں کی بلکہ انہوں نے تقریر وتحریر میں ہمیشہ میانہ روی اورتوازن قائم رکھا۔ قرآن وحدیث میں مومنین کے جواوصاف بیان کیے گئے ہیں اس کی جھلک ان کی زندگی میں صاف نظرآتی تھی۔ وہ دریا کو کوزے میں بندکردیتے تھے۔مولانا مرحوم صاحب زبان ہونے کے ساتھ زبان کی باریکیوں سے بھی واقف تھے۔ مولانا مرحوم نے نظام تعلیم وتربیت اندیشے، تقاضے اورحل جیسے اہم اورنازک موضوع پر قلم اٹھایااورایک دیانت دار مصنف کی طرح غیرجانب داری کے ساتھ دونوں نظاموں کی خوبیوں اورخامیوں کی نشاندہی کی اوران کے بہتر اورمفید بنانے کے مشورے دیے۔مولانا نے اپنے پیچھے ہزاروں شاگرد چھوڑے ہیں جو ان زندگی کا عظیم سرمایہ ہے۔ پوری ملت اسلامیہ اس دکھ کی گھڑی میں ان کے پسماندگان اوراعزاء کے ساتھ ہیں اورتعزیت پیش کرنے کے ساتھ صبرکی تلقین کرتے ہیں۔ مولانا مرحوم نے ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ وہ اپنی خصوصیات اورخوبیوں نیزکاموں کی وجہ سے ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے ۔ حضرت مولانا سید محمدرابع حسنی ندوی اورمولانا واضح رشیدحسنی ندوی ؒ ایک جان دوقالب تھے ۔امت مسلمہ کو جہاں مولانا واضح رشید ندویؒ کی بلندئ درجات ان کے پسماندگان کیلئے صبر جمیل کی دعائیں کرنا چاہئے وہیں حضرت مولانا سید محمدرابع حسنی ندوی کیلئے اس اندوہ ناک سانحہ سے گزرنے کا حوصلہ اورصحت وعافیت کے ساتھ دراز عمر کی دعا کرنی چاہئے۔ مولانا واضح رشید صاحب کے فرزند ارجمند مخدومی استاد محترم مولاناسید جعفر مسعود حسنی ندوی مدیر تحریر الرائد واستاد حدیث مدرسہ عالیہ عرفانیہ ہیں جو الولدسرلابیہکامکمل نمونہ ہیں اوراپنے والدمحترم کی بولتی ہوئی تصویر ہیں۔اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل وکرم سے مولانا مرحوم کو اپنی ردائے رحمت ومغفرت میں چھپالے اوران کے فیض علم کوجاری رکھتے ہوئے ان کی لغزشوں اورتقصیرات کو نظرانداز فرماتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے اورجملہ اہل تعلق تلامذہ ،اساتذہ ، اصدقاء ،اہل خاندان اورمحبین کو صبرجمیل عطافرمائے اورایصال وثواب کی توفیق سے نوازے ۔عربی شاعر نے کہاتھا ذہب الذین احبھم ،وبقیت مثل السیف فرداکہ میرے سارے دوست احباب چلے گئے لیکن میں تلوار کی طرح بالکل تنہارہ گیا۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل وکرم سے ہم کو اہل علم کی قدر کرنے اوران کی زندگی کی نقل اتارنے کی توفیق عطافرمائے حضرت مولانا واضح رشید ندوی ؒ کے ساتھ سچا خراج عقیدت یہ ہے کہ ہم لوگ ان کے شروع کیے ہوئے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کریں اورصہیونی سازشوں کے خلاف جوان کا طریقہ کار تھا اس کا پرکرنے کی کوشش کریں ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اللہ تعالیٰ اس کو پر کرے اوردارالعلوم ندوۃ العلماء کو ان کا نعم البدل عطاکرے ۔چراغ ودین دانش بجھ گیا ہندی مسلماں کا ۔اندھیرا چھاگیا ہر سو منارہ کھودیا ہم نے ۔وہی بزم ہے وہی دھوم ہے ۔وہی عاشقوں کا ہجوم ہے ۔ہے کمی تو بس اس چاند کی جوتہہ مزار چلاگیا۔وہ سخن سناش وہ دوربیں وہ گدانواز وہ مہ جبیں ۔وہ حسین وہ بحرعلوم دیں مرا تاج دار چلا گیا.