فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
حال ہی میں ایک جلسہ میں الہ آبادی شریک ہوا، اتفاق سے جلسہ کی نظامت کی ذمہ داری میرے ذمہ سونپ دی گئی، حالانکہ اس کے لئے بالکل بھی تیار نہی تھا کیونکہ میں میدان کا آدمی نہی ہوں، لیکن بڑوں کا حکم تھا بندہ حقیر سراپا تقصیر جلسہ کی نظامت کے لئے مجبورا تیارہونا پڑا، لیکن موجودہ دور کی نظامت جس طرح جھوٹ اور کذب بیانی سے کام لی جاتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بابرکت فرمان کی جس طرح دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، ان سب چیزوں کی وجہ سے طبیعت نظامت پر آمادہ نہیں تھی، بہرحال بڑوں کاحکم سے نظامت کے فرائض انجام دینا شروع کیا، قرآن مجید کی عظمت اور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی میں میرے ذہن ودماغ میں جو کچھ تھا مرتب انداز میں پیش کردیا، مقررین حضرات کاموضوع متعین تھا اس لئے ان موضوعات پر بندہ حقیر سراپا کی معلومات میں جو کچھ تھا اسے سامعین باتمکین کے سامنے انڈیل دیا، لیکن مقررین کومدعو کرنے میں بڑی سادگی سے کام لیا، شیخ الکل فی الکل، مجدد زمن، نایاب گوہر، فقیہ النفس، جیسے بڑے بڑے القاب سے ملقب نہ کیا، ماشاءاللہ عوام نے الہ آبادی کی نظامت خوب کیا، لیکن مقررین میں سے کچھ کو میری نظامت منہ سے نہی اتری، وجہ یہ تھی آنحضرت کی الہ آبادی نے حد سے زیادہ تعریف نہ کیا، مبالغہ آرائی سے پاک صاف نظامت کی، جلسہ کے اختتام کے بعد ایک مقرر صاحب میری تلاش میں تھے، قیام گاہ پر کچھ لوگوں کے ساتھ تشریف فرماتھے، جیسے میں وہاں پہنچا لوگوں نے بتایا حضرت والا آپ کویاد فرمارہے ہیں، جوں ہی میں اعلی حضرت کے پاس پہنچا نظامت میں کہی ہوئی کسی بات پر اعتراض داغ دیا، اس وقت کافی مجمع تھا، اب ان کا مقصد کیاتھا اللہ ہی جانے، الہ آبادی کی بھی ہوائی فائر کی عادت نہیں ہر رطب ویابس سنی سنائی باتوں کو بیان کردے اس کا قائل نہیں، مشکل گھڑی میں جواب دیا تب کہیں جاکر عزت بچی ورنہ رسوائی توطے تھی لیکن قرآن میں اللہ فرماتا ہے، وتعز من تشاء وتذل من تشاء، عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے کسی اعلی حضرت کے ہاتھ میں نہیں، جب مشکل مرحلہ سے الہ آبادی گزرا تو اعلی حضرت نے میری نظامت کی تعریف توکی لیکن ایک جملہ بھی ایسا فرمادیا کہ جس سے کنایہ یہ مطلب نکلا کہ تعریف میں مبالغہ آرائی سے کیوں کام نہیں لیاگیا.
افسوس حال ہے ہمارے وارثین انبیاء کہ تعریف کے خواہاں رہتے ہیں مجمع عام میں انکی جم کر تعریف ہو حالانکہ سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، اذا رائیتم المداحین فاحثوافی وجوھہم التراب..جب تم تعریف میں مبالغہ آرائی کرنے والے کوپاوتو ان کے منہ پر مٹی ڈال دو، اس حدیث کو ظاہری معنی پر بھی محمول کیاگیا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان کو کچھ عطاکردو، علامہ خطابی رحمہ اللہ نے فرمایا، کسی کے عمدہ کام کی تعریف کرنے کی اجازت ہے تاکہ دوسرے لوگوں کوترغیب ملے، تعریف میں مبالغہ سے اس لئے منع کیاگیا تاکہ تعریف کرنے والے کومتکبر ومغرور نہ بنا دیا جائے.
لیکن افسوس ہماری موجودہ زمانے کی نظامت تعریف میں مبالغہ آرائی کا اس قدر غلبہ ہوتاجارہاہے کہ جھوٹ کی آمیزش حد سے زیادہ ہوجاتی ہے، جو شرعا درست نہیں، جلسوں کو نظماء کو اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے، نظامت کے چند پیسہ دنیا میں تومل جائیں گے لیکن آخرت تاریک کرنے کے درپہ ہیں، اللہ تعالی ہم سب کو جھوٹی تعریف کرنے سے بچائے....آمین....
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
حال ہی میں ایک جلسہ میں الہ آبادی شریک ہوا، اتفاق سے جلسہ کی نظامت کی ذمہ داری میرے ذمہ سونپ دی گئی، حالانکہ اس کے لئے بالکل بھی تیار نہی تھا کیونکہ میں میدان کا آدمی نہی ہوں، لیکن بڑوں کا حکم تھا بندہ حقیر سراپا تقصیر جلسہ کی نظامت کے لئے مجبورا تیارہونا پڑا، لیکن موجودہ دور کی نظامت جس طرح جھوٹ اور کذب بیانی سے کام لی جاتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بابرکت فرمان کی جس طرح دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، ان سب چیزوں کی وجہ سے طبیعت نظامت پر آمادہ نہیں تھی، بہرحال بڑوں کاحکم سے نظامت کے فرائض انجام دینا شروع کیا، قرآن مجید کی عظمت اور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی میں میرے ذہن ودماغ میں جو کچھ تھا مرتب انداز میں پیش کردیا، مقررین حضرات کاموضوع متعین تھا اس لئے ان موضوعات پر بندہ حقیر سراپا کی معلومات میں جو کچھ تھا اسے سامعین باتمکین کے سامنے انڈیل دیا، لیکن مقررین کومدعو کرنے میں بڑی سادگی سے کام لیا، شیخ الکل فی الکل، مجدد زمن، نایاب گوہر، فقیہ النفس، جیسے بڑے بڑے القاب سے ملقب نہ کیا، ماشاءاللہ عوام نے الہ آبادی کی نظامت خوب کیا، لیکن مقررین میں سے کچھ کو میری نظامت منہ سے نہی اتری، وجہ یہ تھی آنحضرت کی الہ آبادی نے حد سے زیادہ تعریف نہ کیا، مبالغہ آرائی سے پاک صاف نظامت کی، جلسہ کے اختتام کے بعد ایک مقرر صاحب میری تلاش میں تھے، قیام گاہ پر کچھ لوگوں کے ساتھ تشریف فرماتھے، جیسے میں وہاں پہنچا لوگوں نے بتایا حضرت والا آپ کویاد فرمارہے ہیں، جوں ہی میں اعلی حضرت کے پاس پہنچا نظامت میں کہی ہوئی کسی بات پر اعتراض داغ دیا، اس وقت کافی مجمع تھا، اب ان کا مقصد کیاتھا اللہ ہی جانے، الہ آبادی کی بھی ہوائی فائر کی عادت نہیں ہر رطب ویابس سنی سنائی باتوں کو بیان کردے اس کا قائل نہیں، مشکل گھڑی میں جواب دیا تب کہیں جاکر عزت بچی ورنہ رسوائی توطے تھی لیکن قرآن میں اللہ فرماتا ہے، وتعز من تشاء وتذل من تشاء، عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے کسی اعلی حضرت کے ہاتھ میں نہیں، جب مشکل مرحلہ سے الہ آبادی گزرا تو اعلی حضرت نے میری نظامت کی تعریف توکی لیکن ایک جملہ بھی ایسا فرمادیا کہ جس سے کنایہ یہ مطلب نکلا کہ تعریف میں مبالغہ آرائی سے کیوں کام نہیں لیاگیا.
افسوس حال ہے ہمارے وارثین انبیاء کہ تعریف کے خواہاں رہتے ہیں مجمع عام میں انکی جم کر تعریف ہو حالانکہ سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، اذا رائیتم المداحین فاحثوافی وجوھہم التراب..جب تم تعریف میں مبالغہ آرائی کرنے والے کوپاوتو ان کے منہ پر مٹی ڈال دو، اس حدیث کو ظاہری معنی پر بھی محمول کیاگیا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان کو کچھ عطاکردو، علامہ خطابی رحمہ اللہ نے فرمایا، کسی کے عمدہ کام کی تعریف کرنے کی اجازت ہے تاکہ دوسرے لوگوں کوترغیب ملے، تعریف میں مبالغہ سے اس لئے منع کیاگیا تاکہ تعریف کرنے والے کومتکبر ومغرور نہ بنا دیا جائے.
لیکن افسوس ہماری موجودہ زمانے کی نظامت تعریف میں مبالغہ آرائی کا اس قدر غلبہ ہوتاجارہاہے کہ جھوٹ کی آمیزش حد سے زیادہ ہوجاتی ہے، جو شرعا درست نہیں، جلسوں کو نظماء کو اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے، نظامت کے چند پیسہ دنیا میں تومل جائیں گے لیکن آخرت تاریک کرنے کے درپہ ہیں، اللہ تعالی ہم سب کو جھوٹی تعریف کرنے سے بچائے....آمین....