تحریر: احتشام الحق چھتہی ضلع سنت کبیرنگر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج کے ماحول اورحالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد انتہائی قلق اور افسوس سے دو چار ہونا پڑتا ہے، روز بروز جہیز کا مطالبہ عام ہوتا جا رہا ہے اور جو عورت کم جہیز لے جائے اسکو سننے سے لیکر ستانے طلاق دینے یہاں تک کہ جلانے اور مار ڈالنے تک کے واقعات پردۂِ سماعت سے ٹکراتے ہے افسوس صد افسوس ایک پاکیزہ رشتہ جسے ربِّ کائنات نے پاکیزہ اور عظیم مقصد کے لئے جاری کیا جو عہد رسالت اور عہد صحابہ اور عہد اسلاف میں بڑے پاکیزہ اور سادہ طریقہ سے عمل میں آتا رہا آج دین سے دور خاندانوں اور نوجوانوں نے اسے نفع جوئی اور زر طلبی کا کاروبار سمجھ لیا ہے ایسا کیوں ہے .
میں یقین کے ساتھ کہ سکتا ھوں کہ جہیز کی کمی کے باعث جو خاندان اور نوجوان شاکی ہوتے ھیں اور اپنی بے جا توقعات پر پانی پھرتا دیکھ کر اس قدر غیظ و غضب میں مبتلاء ہو جاتے ہیں کہ ظلم و ستم اور جارحیت پر اتر اتے ہیں وہ یاتو دینِ شریعت کے مزاج اور وصول قوانین ہی سے نابلد ہوتے ہیں یا جانتے ہوئے بھی احکام ربانی کی خلاف ورزی کے عادی ہوتے ہیں آج ہمارا معاشرہ قرآن و حدیث سے غافل و لاپرواہ ہوتا چلا جارہا ہے شریعت کا علم نہ ہونے کی وجہ سے جہالت سرپر منڈلا رہی ہے، اور ضلالت و گمراہی کے دل دل میں پھنستے چلے جارہے ہیں خصوصا جہیز یا کسی دنیوی رنجش کی بناء پر قتل مسلم تو ایسا ظالمانہ عمل ھے کہ اسکا مرتکب وہی شخص ہوسکتا ہے جس کی دینی روح موت کے قریب پہچ چکی ہو اس کے متعلق قرآن کریم نے صاف طور پر بتلایا کہ ، جو کائی بھی مومن کو قصدا قتل کرے اسکا بدلہ جہنم ہے جس میں اسے ہمیشہ رہنا ہے، اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ جو اہل ثروت ہیں وہ اپنی دولت کے نام و نمود کی خاطر یا لڑکی اور داماد سے بے پناہ محبت کی نمائش کی خاطر بذات خود اور بلا مطالبہ اتنا جہیز دیدیتے ہیں کہ متوسط طبقہ کی ساری جائداد اور دن کی کڑی دھوپ میں مارے مارے پھر کر کمائی ہوئی مالیت سب صرف کردی جائے تو اسکے مساوی نہ ہوگا ان حضرات کا یہ عمل دیکھ کر دوسرے بھی زیادہ سے زیادہ جہیز دینے کی فکر کرتے ہیں اور اسی کو عزت اور عظمت خیال کرتے ہیں اور نہ دینے میں اپنی بے عزتی اور حقارت محسوس کرتے ھیں بے حسی کا یہ عالم ہے کہ بہت سے دیندار اور خلوص کار لڑکوں اور خاندانوں نے گراں جہیز سے منع کیا پھر بھی لڑکی والوں نے اپنی بساط سے زیادہ ہے تھما ڈلا اور اپنی جھوٹی شان کو برقرار رکھنے کے لئے محنت و مزدوری سے کمائی ہوئی دولت کو پانی کی طرح بہا ڈالا آج کل تو گراں قدر جہیز کا رواج دولت مند اور متوسط قسم کے اچھے خاصے دیندار اور پابند شرع لوگوں میں بھی کثرت سے پایا جاتا ھے اگر کوئی شخص بظاہر خوشحال نظر آتا ہو لیکن حقیقت میں وہ پریشان حال اور تنگدست ہو تو اسلئے اتناجہیز نہ دے سکے جو معاشرہ میں اسکے برابر اور ہم پلہ شمار کئے جانے والوں نے دیا ہے تو اسے بخیل شمار کیا جاتا ہے پڑوسی رشتہ دار اھل قریہ اور محلہ سب اسے سانپ کی طرح ڈسنے لگتے ھیں جس کے نتیجہ میں لڑکی کو بہت سے اذیتوں اور مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے دولت مندوں کیلئے حسب حیثیت لاکھوں روپئے سے زیادہ کا جہیز دینا کوئی مسئلہ نہیں اور انہی کے کردار سے یہ رسم بڑھتی اور پھیلتی جارہی ہے ان کے دامادوں کو دیکھ کر ہر نوجوان آرزومند ہوتا ہے کہ مجھے بھی ایسی لڑکی ملے جو اپنے ساتھ اسی طرح وافر جہیز لائے اور جس کی یہ ارزو پوری نھیں ھو تی وہ اس حدتک بددل اور غم زدہ ہوتا ہے کہ لڑکی پر طعن و تشنیع سی لیکر ضرب و قتل تک پہچ جاتا ہے.
آج ان معصوم دوشیزاؤں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں جبر و تشدد کی خاردار جھاڑیاں ان کی راہ میں حائل ہیں آج بھی ان عورتوں کے ارمانوں کاخون کیا جارہا ہے غریب گھرانے کی لڑکیوں پر خدا کی زمین اپنی وسعت اور کشادگی کے باوجود تنگ ہورہی ہے جس گھر میں لڑکی جوانی کہ دہلیز پر قدم رکھتی ھے اسی وقت سے والدین کی نیدیں حرام ہوجاتی ہے زندگی کا ہر لمحہ سانپ بن کر ڈسنے لگتا ہے ایک طرف لڑکی کی اٹھتی ہوئی جوانی ہوتی ہے تو دوسری طرف جنسی بھیڑیوں کی اٹھتی ہوئی نگاہیں ہوتی ہیں اور تیسری طرف پڑوسیوں کی چہ می گوئیاں والدین اس گلاب کے پھول کو سجانے کےلئے جب کسی لڑکے کی تلاش کرتے ہیں تو جہز کے مطالبات انکے ارادوں کو کو وہیں مسمار کردیتے ہیں.
ان اسباب و حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ محسوس ھوا کہ معاشرہ میں دینی اسلامی روح بیدار کی جائے اسلامی احکام کی اہمیت و عظمت دلوں میں اتاری جائے متاعِ دنیا کی حرص سے دور کیا جائے اس بات کو دل و دماغ میں راسخ کیا جائے کہ مومن کی سرخروئی اور کامیابی اسی میں ہے کہ خدا کی قائم کہ ہوئی حدود کے اندر رہ کر جائز و بہتر طور پر اپنی دنیا بھی خوشحال بنائیں اور آخرت بھی سنوارے ناانصافی اور ظلم و ستم سے بہر حال پرہیز کریں ورنہ اسکا انجام بڑا ھی بھیانک اور خطرناک ہے خالق حقیقی کی سزاسے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے.
عملی طور پر شادی بیاہ کے موقع پر خصوصا دولت مندوں کو سمجھایا جائے کہ خدا نے آپ کو دولت دی ہے آپ اپنی بیٹی اور داماد کو جو چاہیں دےسکتے ہیں لیکن اسکا بھی خیال رکھیں کہ اس سے غریبوں کی دل شکنی نہ ہو آپ کو معلوم ھے کہ بے شمار غریب خاندان کی لڑکیاں اس رسم جہز کی وجہ سے بیٹھی رہ جاتی ھیں اور اپنی ازداواجی زندگی سے اس لئے محروم ھیں کہ انکے پاس لڑکوں کو خوش کرنے اور ناجائز مطالبات پورا کرنے کے اسباب فراہم نہیں ہیں اور لڑکی کے والدین اپنی معاشی اور مالی کمزوری اور غربت وافلاس کے پیشِ نظر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی لڑکیوں کے جذبات کو فوت ہوتے ہوئے دیکھتے ھیں اور اپنی اس لاچار زندگی سے موت کو ترجیح دیکر خود کشی جیسے خطرناک جرم کے ارتکاب کی جسارت کرلیتے ہیں اور اسی وقت سے لڑکی کے ناامیدی کے ایام شروع ہوجاتے ہیں، اور اپنی زندگی اسی ناامیدی میں گزار دیتی کیں ان کا کوئی پرسانِ حال نھیں ھوتا آپ کو اگر دینا ھے تو بعد میں خفیہ طور پر دے لیں لیکن خدارا اپنے جہیز اور دولت کو نمائش کرکے تنگ دست لڑکیوں کی زندگی کو اجیران نہ بنائیں.
مذکورہ بالا چند تجاویز کا حاصل یہ ہے کہ فکرو مزاج میں تبدیلی لائی جائے تصورات و خیالات معاملات و عادات کو اسلامی و ایمانی رنگ میں ڈھالا جائے اور دولت مند طبقہ نادر اور کمزور کے دکھ درد اور اسکے مصائب و مشکلات کا سچے دل سے احساس کرے جبھی جہیز میں افراط و غلو اور اس سے بیدار ہونے والے مفاسد کا سد باب ہوسکتا ہے اور ان دونوں باتوں کو بروئے کار لانے کے لئے شہر شہر گاؤں گاؤں محلہ محلہ ایسی تنظیموں کا وجود ضروری ہے جو سماج میں مؤثر اور مخلص اور درد مند افراد پر مشتمل ہونے کے ساتھ سر گرم عمل بھی ہو اگر یہ تنظیمیں قائم ہوکر دلچسپی سر گرمی اور اخلاص ودل سوزی کے ساتھ برائیوں کے خلاف بر سرِ پیکار رہیں تو انکے ذریعہ دوسرے بھی بہت سے اصلاح و فلاح کے اعمال انجام پا سکتے ہیں.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج کے ماحول اورحالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد انتہائی قلق اور افسوس سے دو چار ہونا پڑتا ہے، روز بروز جہیز کا مطالبہ عام ہوتا جا رہا ہے اور جو عورت کم جہیز لے جائے اسکو سننے سے لیکر ستانے طلاق دینے یہاں تک کہ جلانے اور مار ڈالنے تک کے واقعات پردۂِ سماعت سے ٹکراتے ہے افسوس صد افسوس ایک پاکیزہ رشتہ جسے ربِّ کائنات نے پاکیزہ اور عظیم مقصد کے لئے جاری کیا جو عہد رسالت اور عہد صحابہ اور عہد اسلاف میں بڑے پاکیزہ اور سادہ طریقہ سے عمل میں آتا رہا آج دین سے دور خاندانوں اور نوجوانوں نے اسے نفع جوئی اور زر طلبی کا کاروبار سمجھ لیا ہے ایسا کیوں ہے .
میں یقین کے ساتھ کہ سکتا ھوں کہ جہیز کی کمی کے باعث جو خاندان اور نوجوان شاکی ہوتے ھیں اور اپنی بے جا توقعات پر پانی پھرتا دیکھ کر اس قدر غیظ و غضب میں مبتلاء ہو جاتے ہیں کہ ظلم و ستم اور جارحیت پر اتر اتے ہیں وہ یاتو دینِ شریعت کے مزاج اور وصول قوانین ہی سے نابلد ہوتے ہیں یا جانتے ہوئے بھی احکام ربانی کی خلاف ورزی کے عادی ہوتے ہیں آج ہمارا معاشرہ قرآن و حدیث سے غافل و لاپرواہ ہوتا چلا جارہا ہے شریعت کا علم نہ ہونے کی وجہ سے جہالت سرپر منڈلا رہی ہے، اور ضلالت و گمراہی کے دل دل میں پھنستے چلے جارہے ہیں خصوصا جہیز یا کسی دنیوی رنجش کی بناء پر قتل مسلم تو ایسا ظالمانہ عمل ھے کہ اسکا مرتکب وہی شخص ہوسکتا ہے جس کی دینی روح موت کے قریب پہچ چکی ہو اس کے متعلق قرآن کریم نے صاف طور پر بتلایا کہ ، جو کائی بھی مومن کو قصدا قتل کرے اسکا بدلہ جہنم ہے جس میں اسے ہمیشہ رہنا ہے، اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ جو اہل ثروت ہیں وہ اپنی دولت کے نام و نمود کی خاطر یا لڑکی اور داماد سے بے پناہ محبت کی نمائش کی خاطر بذات خود اور بلا مطالبہ اتنا جہیز دیدیتے ہیں کہ متوسط طبقہ کی ساری جائداد اور دن کی کڑی دھوپ میں مارے مارے پھر کر کمائی ہوئی مالیت سب صرف کردی جائے تو اسکے مساوی نہ ہوگا ان حضرات کا یہ عمل دیکھ کر دوسرے بھی زیادہ سے زیادہ جہیز دینے کی فکر کرتے ہیں اور اسی کو عزت اور عظمت خیال کرتے ہیں اور نہ دینے میں اپنی بے عزتی اور حقارت محسوس کرتے ھیں بے حسی کا یہ عالم ہے کہ بہت سے دیندار اور خلوص کار لڑکوں اور خاندانوں نے گراں جہیز سے منع کیا پھر بھی لڑکی والوں نے اپنی بساط سے زیادہ ہے تھما ڈلا اور اپنی جھوٹی شان کو برقرار رکھنے کے لئے محنت و مزدوری سے کمائی ہوئی دولت کو پانی کی طرح بہا ڈالا آج کل تو گراں قدر جہیز کا رواج دولت مند اور متوسط قسم کے اچھے خاصے دیندار اور پابند شرع لوگوں میں بھی کثرت سے پایا جاتا ھے اگر کوئی شخص بظاہر خوشحال نظر آتا ہو لیکن حقیقت میں وہ پریشان حال اور تنگدست ہو تو اسلئے اتناجہیز نہ دے سکے جو معاشرہ میں اسکے برابر اور ہم پلہ شمار کئے جانے والوں نے دیا ہے تو اسے بخیل شمار کیا جاتا ہے پڑوسی رشتہ دار اھل قریہ اور محلہ سب اسے سانپ کی طرح ڈسنے لگتے ھیں جس کے نتیجہ میں لڑکی کو بہت سے اذیتوں اور مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے دولت مندوں کیلئے حسب حیثیت لاکھوں روپئے سے زیادہ کا جہیز دینا کوئی مسئلہ نہیں اور انہی کے کردار سے یہ رسم بڑھتی اور پھیلتی جارہی ہے ان کے دامادوں کو دیکھ کر ہر نوجوان آرزومند ہوتا ہے کہ مجھے بھی ایسی لڑکی ملے جو اپنے ساتھ اسی طرح وافر جہیز لائے اور جس کی یہ ارزو پوری نھیں ھو تی وہ اس حدتک بددل اور غم زدہ ہوتا ہے کہ لڑکی پر طعن و تشنیع سی لیکر ضرب و قتل تک پہچ جاتا ہے.
آج ان معصوم دوشیزاؤں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں جبر و تشدد کی خاردار جھاڑیاں ان کی راہ میں حائل ہیں آج بھی ان عورتوں کے ارمانوں کاخون کیا جارہا ہے غریب گھرانے کی لڑکیوں پر خدا کی زمین اپنی وسعت اور کشادگی کے باوجود تنگ ہورہی ہے جس گھر میں لڑکی جوانی کہ دہلیز پر قدم رکھتی ھے اسی وقت سے والدین کی نیدیں حرام ہوجاتی ہے زندگی کا ہر لمحہ سانپ بن کر ڈسنے لگتا ہے ایک طرف لڑکی کی اٹھتی ہوئی جوانی ہوتی ہے تو دوسری طرف جنسی بھیڑیوں کی اٹھتی ہوئی نگاہیں ہوتی ہیں اور تیسری طرف پڑوسیوں کی چہ می گوئیاں والدین اس گلاب کے پھول کو سجانے کےلئے جب کسی لڑکے کی تلاش کرتے ہیں تو جہز کے مطالبات انکے ارادوں کو کو وہیں مسمار کردیتے ہیں.
ان اسباب و حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ محسوس ھوا کہ معاشرہ میں دینی اسلامی روح بیدار کی جائے اسلامی احکام کی اہمیت و عظمت دلوں میں اتاری جائے متاعِ دنیا کی حرص سے دور کیا جائے اس بات کو دل و دماغ میں راسخ کیا جائے کہ مومن کی سرخروئی اور کامیابی اسی میں ہے کہ خدا کی قائم کہ ہوئی حدود کے اندر رہ کر جائز و بہتر طور پر اپنی دنیا بھی خوشحال بنائیں اور آخرت بھی سنوارے ناانصافی اور ظلم و ستم سے بہر حال پرہیز کریں ورنہ اسکا انجام بڑا ھی بھیانک اور خطرناک ہے خالق حقیقی کی سزاسے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے.
عملی طور پر شادی بیاہ کے موقع پر خصوصا دولت مندوں کو سمجھایا جائے کہ خدا نے آپ کو دولت دی ہے آپ اپنی بیٹی اور داماد کو جو چاہیں دےسکتے ہیں لیکن اسکا بھی خیال رکھیں کہ اس سے غریبوں کی دل شکنی نہ ہو آپ کو معلوم ھے کہ بے شمار غریب خاندان کی لڑکیاں اس رسم جہز کی وجہ سے بیٹھی رہ جاتی ھیں اور اپنی ازداواجی زندگی سے اس لئے محروم ھیں کہ انکے پاس لڑکوں کو خوش کرنے اور ناجائز مطالبات پورا کرنے کے اسباب فراہم نہیں ہیں اور لڑکی کے والدین اپنی معاشی اور مالی کمزوری اور غربت وافلاس کے پیشِ نظر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی لڑکیوں کے جذبات کو فوت ہوتے ہوئے دیکھتے ھیں اور اپنی اس لاچار زندگی سے موت کو ترجیح دیکر خود کشی جیسے خطرناک جرم کے ارتکاب کی جسارت کرلیتے ہیں اور اسی وقت سے لڑکی کے ناامیدی کے ایام شروع ہوجاتے ہیں، اور اپنی زندگی اسی ناامیدی میں گزار دیتی کیں ان کا کوئی پرسانِ حال نھیں ھوتا آپ کو اگر دینا ھے تو بعد میں خفیہ طور پر دے لیں لیکن خدارا اپنے جہیز اور دولت کو نمائش کرکے تنگ دست لڑکیوں کی زندگی کو اجیران نہ بنائیں.
مذکورہ بالا چند تجاویز کا حاصل یہ ہے کہ فکرو مزاج میں تبدیلی لائی جائے تصورات و خیالات معاملات و عادات کو اسلامی و ایمانی رنگ میں ڈھالا جائے اور دولت مند طبقہ نادر اور کمزور کے دکھ درد اور اسکے مصائب و مشکلات کا سچے دل سے احساس کرے جبھی جہیز میں افراط و غلو اور اس سے بیدار ہونے والے مفاسد کا سد باب ہوسکتا ہے اور ان دونوں باتوں کو بروئے کار لانے کے لئے شہر شہر گاؤں گاؤں محلہ محلہ ایسی تنظیموں کا وجود ضروری ہے جو سماج میں مؤثر اور مخلص اور درد مند افراد پر مشتمل ہونے کے ساتھ سر گرم عمل بھی ہو اگر یہ تنظیمیں قائم ہوکر دلچسپی سر گرمی اور اخلاص ودل سوزی کے ساتھ برائیوں کے خلاف بر سرِ پیکار رہیں تو انکے ذریعہ دوسرے بھی بہت سے اصلاح و فلاح کے اعمال انجام پا سکتے ہیں.