تحریر: مفتی نعیم اختر قاسمی استاذ حدیث و فقہ جامعہ ربانی منورواشریف سمستی پور
ــــــــــــــــــــــــــــــ
کل صبح ہی سے چندر سین پور اور مدہوبنی کی سرزمین ماتم کناں رہی اور دلاسہ دینے کیلئے بہار کے ہر خطے سے علماء حفاظ قراء چندر سین پور کی طرف کف افسوس ملتے ہوئے پوری برق رفتاری کے ساتھ رواں دواں رہے شاید ہی بہار کا کوئی ایسا مدرسہ رہا ہو جہاں کے ذمہ داران اور اساتذہ حضرات اور زعمائے اقوام و ملل کی آمد نہیں ہوئی ہو یہ سلسلہ آٹھ بجے دن سے شروع ہوا اور عصر کی نماز سے قبل انسانوں کا اتنا بڑا سیلاب امنڈ پڑا کہ چندر سین پور کی سرزمین تنگ ہوتی ہوئی نظر آئی.
آخر کیا ہوا اتنی چھوٹی سی بستی میں ؟
اتنی نامی گرامی بزرگ ہستیاں اور قدسی صفات انسانوں کی بھیڑ ہوگئی جی ہاں اسی بستی میں ہندوستان کے بلند پایہ محقق ممتاز صاحب علم و قلم جلیل القدر عالم ربانی فقیہ ملت بیدار مغز منتظم کہنہ مشق مدرس اخلاص و للہیت کے پیکر حضرت شیخ زبیر احمد قاسمی رحمہ اللہ ناظم اشرف العلوم کنہواں بہار کل اپنے خالق حقیقی کے پیارے ہوگئے ان کے جنازے میں شریک ہونے کیلئے اس چھوٹی سی بستی میں ہر چہار جانب سے آنے والے انسانوں کے قافلے کا تانتا لگا ہوا تھا
آپ گونا گوں صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ راسخ فی العلم، عالم ربانی تھے آپ نہ صرف کہنہ مشق مدرس تھے بلکہ آپ بہترین مدبر و مربی تھے آپ مشکل سے مشکل عبارتوں کو چٹکیوں میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے
یہی وجہ ہیکہ عندالناس یہ بات بھی مشہور ہوگئی تھی کہ جس کو آپ سے زانوئے تلمذ کا شرف حاصل ہوگیا اسے طریقہ تدریس حاصل ہوجاتا
یہی بھی مسلّمہ حقیقت ہے کہ آج کے زمانے میں عام طور پر بڑے عالم کے خادم علم سے کورے ہوتے ہیں مگر آپ کی خدمت کی سعادت جس کو حاصل ہوگئی وہ باصلاحیت عالم ہوجاتا تھا اور دارلعلوم میں امتیازی نمبر حاصل کرلیتا تھا آخر ایسا کونسا نسخئہ کیمیا تھا جو ان کے خادموں کو کامیاب بنا دیتی تھی
*جی ہاں* میں بتاتا ہوں طلبہ جب ان کی خدمت کیلئے پہنچتے تو ان کا نام و پتہ اور درجہ پوچھتے اور صرفی و نحوی مشق و تمرین کا سلسلہ شروع کرتے اور پوری کتابوں کی مشق کروا دیتے تھے اور اس سلسلہ میں کوئی سستی اور کاہلی ناقابل برداشت ہوتی تھی بہت سے طلبہ وہ بھی تھے جو چند دن انکی مجلس میں شریک ہوتے اور جزر و توبیخ کی تاب نا لاکر کنارہ کشی اختیار کرلیتے اور جو رہ جاتے اس کو اس فن میں مہارت تامہ حاصل ہوجاتی وہ خادموں سے صرف علمی باتیں کیا کرتے تھے
اس کے علاوہ پورے ہندوستان میں چند صاحب اہتمام کے امانتداری کی قسم کھائی جاسکتی ہے ان میں ایک شیخ زبیر احمد قاسمی رحمہ اللہ بھی ہیں
آپ حق گوئی اور بیباکی کیلیے مشہور تھے آپ حق بات کہنے میں کبھی بھی کسی لومۃ لائم کی پرواہ نہیں کرتے تھے جہاں وہ اپنے ماتحت اساتذہ کے اچھے کارناموں پر داد و تحسین دینے میں دریغ نہیں کرتے تھے وہیں سستی اور کاہلی پر پکڑ کرنے میں دیر نہیں کرتے تھے آپ معیاری طالبعلم اور کامیاب مدرس صرف انہی کو گردانتے تھے جن کا صرف پڑھنا پڑھانا کام ہو وہ دنیا اور مافیہا سے یکسو ہوکر خود بھی اس کام کو کرتے تھے اور دوسروں سے بھی اسی کا تقاضا کرتے تھے جو طلبہ امتحان میں ناکام ہوجاتے اس سے ان کو سخت تکلیف ہوتی اور ناکام طلبہ کو سخت سست کہتے اور پھر کامیاب بنانے کی فکر کرتے اور کسی استاذ کی نگرانی میں رکھ دیتے یہی وجہ ہے کہ جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں کو علمی ادارہ بنادیا پورے بہار میں جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں کو جو علمی انفرادیت حاصل ہے وہ شاید دوسرے ادارے کو حاصل نا ہوئی ہو
آپ کے شاگردوں کی تعداد کا بھی صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے اس لئے کہ آپ کے تدریسی خدمات کی مدت کم و بیش ۶۰ساٹھ سال ہے اور اس طویل عرصے میں تین چار اہم علمی اداروں میں درس نظامی کی اکثر کتابوں کی تدریس کے ساتھ ساتھ کئی سال دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد میں شیخ الحدیث کے منصب عظمی پر بھی فائز رہے اور پھر ۲۴چوبیس سال بہار کا عظیم علمی مرکز جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں کے ناظم اعلی بھی رہے
اور آپکے زمانہ نظامت میں جامعہ کا جشن صد سالہ بھی منعقد ہوا اور ملک کے کونے کونے سے مشہور و معروف علماء کی آمد با سعادت ہوئی اور ان سبھوں نے حضرت ناظم صاحب رحمہ اللہ کے کارناموں سے حد درجہ خوشی و مسرت کا اظہار فرما یا
اور ادھر چند سالوں سے مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں پتھرا کے بھی ناظم اعلی رہے اس کے علاوہ اور بھی کئی علمی ادارے ہیں جسکو آپ کی سرپرستی کا شرف حاصل تھا آپ فقہ اکیڈمی کے رکن اساسی رہے اور مایہ ناز فقہی مقالہ نگار بھی اور بوحنیفہ ثانی حضرت قاضی مجاھدالاسلام صاحب نوراللہ مرقدہ کے دست راست بھی رہ چکے تھے
آپ نے اپنے پیچھے ہزاروں باصلاحیت شاگردوں کی ٹیم چھوڑی ہے جو ان شاءاللہ دین کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کرینگے اور قیامت تک سلسلہ در سلسلہ آپ کے علمی وراثت کی حفاظت کرتے رہینگے اور نامہ اعمال میں صدقہ جاریہ کے طور پر اعمال حسنہ کا اضافہ ہوتا رہیگا
انکی جنازہ کی نماز سے قبل *استاذگرامی حضرت مولانا اظہار صاحب* حضرت ناظم صاحب کے محاسن کو اور اپنی رفاقت کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا اور ان کے لخت جگر نے نماز جنازہ پڑھائی اور ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں ان کو سپرد خاک کیا گیا حق جل مجدہ انکی مغفرت فرمائے اعلی علیین میں جگہ عطا کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے
جامعہ ربانی منورواشریف میں بھی تعزیتی نشست کا انعقاد ہوا اور فقیہ العصر ممتاز مصنف مفتی اختر امام عادل قاسمی مہتمم جامعہ ربانی نے تعزیتی پیغام میں حد درجہ رنج و غم کا اظہار فرمایا اپنے روابط و تعلق کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے *جد امجد حضرت حکیم احمد حسن منوروی نوراللہ مرقدہ* سے حضرت ناظم صاحب کا روحانی تعلق تھا جس کی بناء پر ہم سے حد درجہ محبت رکھتے تھے اور انہوں نے کئی بار اشرف العلوم کنہواں میں مدعو کیا اور بے انتہا اکرام فرمایا دلی دعا ہے کہ اللہ رب العزت انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے آمین.
ــــــــــــــــــــــــــــــ
کل صبح ہی سے چندر سین پور اور مدہوبنی کی سرزمین ماتم کناں رہی اور دلاسہ دینے کیلئے بہار کے ہر خطے سے علماء حفاظ قراء چندر سین پور کی طرف کف افسوس ملتے ہوئے پوری برق رفتاری کے ساتھ رواں دواں رہے شاید ہی بہار کا کوئی ایسا مدرسہ رہا ہو جہاں کے ذمہ داران اور اساتذہ حضرات اور زعمائے اقوام و ملل کی آمد نہیں ہوئی ہو یہ سلسلہ آٹھ بجے دن سے شروع ہوا اور عصر کی نماز سے قبل انسانوں کا اتنا بڑا سیلاب امنڈ پڑا کہ چندر سین پور کی سرزمین تنگ ہوتی ہوئی نظر آئی.
آخر کیا ہوا اتنی چھوٹی سی بستی میں ؟
اتنی نامی گرامی بزرگ ہستیاں اور قدسی صفات انسانوں کی بھیڑ ہوگئی جی ہاں اسی بستی میں ہندوستان کے بلند پایہ محقق ممتاز صاحب علم و قلم جلیل القدر عالم ربانی فقیہ ملت بیدار مغز منتظم کہنہ مشق مدرس اخلاص و للہیت کے پیکر حضرت شیخ زبیر احمد قاسمی رحمہ اللہ ناظم اشرف العلوم کنہواں بہار کل اپنے خالق حقیقی کے پیارے ہوگئے ان کے جنازے میں شریک ہونے کیلئے اس چھوٹی سی بستی میں ہر چہار جانب سے آنے والے انسانوں کے قافلے کا تانتا لگا ہوا تھا
آپ گونا گوں صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ راسخ فی العلم، عالم ربانی تھے آپ نہ صرف کہنہ مشق مدرس تھے بلکہ آپ بہترین مدبر و مربی تھے آپ مشکل سے مشکل عبارتوں کو چٹکیوں میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے
یہی وجہ ہیکہ عندالناس یہ بات بھی مشہور ہوگئی تھی کہ جس کو آپ سے زانوئے تلمذ کا شرف حاصل ہوگیا اسے طریقہ تدریس حاصل ہوجاتا
یہی بھی مسلّمہ حقیقت ہے کہ آج کے زمانے میں عام طور پر بڑے عالم کے خادم علم سے کورے ہوتے ہیں مگر آپ کی خدمت کی سعادت جس کو حاصل ہوگئی وہ باصلاحیت عالم ہوجاتا تھا اور دارلعلوم میں امتیازی نمبر حاصل کرلیتا تھا آخر ایسا کونسا نسخئہ کیمیا تھا جو ان کے خادموں کو کامیاب بنا دیتی تھی
*جی ہاں* میں بتاتا ہوں طلبہ جب ان کی خدمت کیلئے پہنچتے تو ان کا نام و پتہ اور درجہ پوچھتے اور صرفی و نحوی مشق و تمرین کا سلسلہ شروع کرتے اور پوری کتابوں کی مشق کروا دیتے تھے اور اس سلسلہ میں کوئی سستی اور کاہلی ناقابل برداشت ہوتی تھی بہت سے طلبہ وہ بھی تھے جو چند دن انکی مجلس میں شریک ہوتے اور جزر و توبیخ کی تاب نا لاکر کنارہ کشی اختیار کرلیتے اور جو رہ جاتے اس کو اس فن میں مہارت تامہ حاصل ہوجاتی وہ خادموں سے صرف علمی باتیں کیا کرتے تھے
اس کے علاوہ پورے ہندوستان میں چند صاحب اہتمام کے امانتداری کی قسم کھائی جاسکتی ہے ان میں ایک شیخ زبیر احمد قاسمی رحمہ اللہ بھی ہیں
آپ حق گوئی اور بیباکی کیلیے مشہور تھے آپ حق بات کہنے میں کبھی بھی کسی لومۃ لائم کی پرواہ نہیں کرتے تھے جہاں وہ اپنے ماتحت اساتذہ کے اچھے کارناموں پر داد و تحسین دینے میں دریغ نہیں کرتے تھے وہیں سستی اور کاہلی پر پکڑ کرنے میں دیر نہیں کرتے تھے آپ معیاری طالبعلم اور کامیاب مدرس صرف انہی کو گردانتے تھے جن کا صرف پڑھنا پڑھانا کام ہو وہ دنیا اور مافیہا سے یکسو ہوکر خود بھی اس کام کو کرتے تھے اور دوسروں سے بھی اسی کا تقاضا کرتے تھے جو طلبہ امتحان میں ناکام ہوجاتے اس سے ان کو سخت تکلیف ہوتی اور ناکام طلبہ کو سخت سست کہتے اور پھر کامیاب بنانے کی فکر کرتے اور کسی استاذ کی نگرانی میں رکھ دیتے یہی وجہ ہے کہ جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں کو علمی ادارہ بنادیا پورے بہار میں جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں کو جو علمی انفرادیت حاصل ہے وہ شاید دوسرے ادارے کو حاصل نا ہوئی ہو
آپ کے شاگردوں کی تعداد کا بھی صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے اس لئے کہ آپ کے تدریسی خدمات کی مدت کم و بیش ۶۰ساٹھ سال ہے اور اس طویل عرصے میں تین چار اہم علمی اداروں میں درس نظامی کی اکثر کتابوں کی تدریس کے ساتھ ساتھ کئی سال دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد میں شیخ الحدیث کے منصب عظمی پر بھی فائز رہے اور پھر ۲۴چوبیس سال بہار کا عظیم علمی مرکز جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں کے ناظم اعلی بھی رہے
اور آپکے زمانہ نظامت میں جامعہ کا جشن صد سالہ بھی منعقد ہوا اور ملک کے کونے کونے سے مشہور و معروف علماء کی آمد با سعادت ہوئی اور ان سبھوں نے حضرت ناظم صاحب رحمہ اللہ کے کارناموں سے حد درجہ خوشی و مسرت کا اظہار فرما یا
اور ادھر چند سالوں سے مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں پتھرا کے بھی ناظم اعلی رہے اس کے علاوہ اور بھی کئی علمی ادارے ہیں جسکو آپ کی سرپرستی کا شرف حاصل تھا آپ فقہ اکیڈمی کے رکن اساسی رہے اور مایہ ناز فقہی مقالہ نگار بھی اور بوحنیفہ ثانی حضرت قاضی مجاھدالاسلام صاحب نوراللہ مرقدہ کے دست راست بھی رہ چکے تھے
آپ نے اپنے پیچھے ہزاروں باصلاحیت شاگردوں کی ٹیم چھوڑی ہے جو ان شاءاللہ دین کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کرینگے اور قیامت تک سلسلہ در سلسلہ آپ کے علمی وراثت کی حفاظت کرتے رہینگے اور نامہ اعمال میں صدقہ جاریہ کے طور پر اعمال حسنہ کا اضافہ ہوتا رہیگا
انکی جنازہ کی نماز سے قبل *استاذگرامی حضرت مولانا اظہار صاحب* حضرت ناظم صاحب کے محاسن کو اور اپنی رفاقت کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا اور ان کے لخت جگر نے نماز جنازہ پڑھائی اور ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں ان کو سپرد خاک کیا گیا حق جل مجدہ انکی مغفرت فرمائے اعلی علیین میں جگہ عطا کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے
جامعہ ربانی منورواشریف میں بھی تعزیتی نشست کا انعقاد ہوا اور فقیہ العصر ممتاز مصنف مفتی اختر امام عادل قاسمی مہتمم جامعہ ربانی نے تعزیتی پیغام میں حد درجہ رنج و غم کا اظہار فرمایا اپنے روابط و تعلق کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے *جد امجد حضرت حکیم احمد حسن منوروی نوراللہ مرقدہ* سے حضرت ناظم صاحب کا روحانی تعلق تھا جس کی بناء پر ہم سے حد درجہ محبت رکھتے تھے اور انہوں نے کئی بار اشرف العلوم کنہواں میں مدعو کیا اور بے انتہا اکرام فرمایا دلی دعا ہے کہ اللہ رب العزت انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے آمین.