بقلم :- محمد فہیم قاسمی
جامعہ شیخ الہند انجان شہید اعظم گڑھ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کائنات عالم پر پانچ سو سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے، دنیا سے آسمان کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے، جس کے نتیجے میں انسانیت گمراہی اور ضلالت کے تاریک شاہراہ پر گامزن ہے، فسق و فجور شرک و خرافات کی گرم بازاری ایسی کہ خانہ خدا میں سیکڑوں بتوں کو معبود بنا کر پرستش کی جا رہی ہے, تورات و زبور میں تحریف و ردوبدل کی جاچکی ہے, دین ابراہیمی کو فراموش اور بھلا کر شیطانی مکر و فریب, اوہام و خیالات میں جکڑے ہوئے لوگ ہیں, جن کے نزدیک انسانی زندگی کا ختم کرنا چراغ کو پھونک مارنے کے مثل ہے, ہر ایک شراب کا عاشق اور انسانیت سے بیزار ہے، نیکیوں سے متنفر برائیوں سے قریب تر ہے، بچیاں باعث عار اور بت ان کے معبود و حاجت روا ہیں، جنگ ان کا محبوب مشغلہ، زناکاری ان کی عادت، ڈاکہ زنی ان کا شعار ہے،
ان کے درمیان چند نفوس ایسے ہیں، جو گوشہ تنہائی میں آسمان کی طرف نظر اٹھا ئے ہوئے حی القیوم سے کسی ایسے معجزے کے متمنی ہیں، جو آسمان اور دنیا کے منقطع ہوئے سلسلے کو جوڑنے والا ہو، جو ایسا ہو کہ ضلالت و گمراہی کے تاریک راستوں پر گامزن انسانیت کو ہدایت اور روشنی کے راستےکی طرف چلائے، جو زبور و توریت کی عظمتوں کو برقرار رکھتے ہوئے، شیطانی مکر و فریب اور اوہام و خیالات سے آزادی دلا کر پھر ان کو دین حنیف کے سامنے لا کھڑا کرے۔
پھر خدا کی نظر کرم گوشے میں بیٹھے چند نفوس ہی کے لئے نہیں بلکہ پورے عالم کے لئے صبح نو کی تمہید بنتی ہے، اللہ تعالی اپنے محبوب رسول کو اس دنیا اور آسمان کے ٹوٹے ہوئے سلسلے کو جوڑنے کے لیے اتارتا ہے، جو گمراہی اور ضلالت کے تاریک راستوں پر چلنے والے انسانوں کو شرک و بدعت، فسق و فجور، اوہام و خیالات کی دلدل سے نکال کر، انہیں انسانوں کو معیار کی اس بلندی پر پہنچا تا ہے کہ زمین وآسمان ان کی عظمت و شرافت کے گن گانے لگتے ہیں جن و ملک ان کے مرتبے اور عہدے پر رشک کرنے لگتے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ورم زدہ قدم مبارک کو دیکھ کر پوچھتی ہیں کہ میرے آقا! میرے مالک! جب اللہ تعالی نے آپ کو معصوم، سیئات سے پاک اور گناہوں سے محفوظ بنایا ہے اور انسانیت کے لئے رحمت بنایا ہے، تو پھر آپ اتنی تکلیف اور اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جواب میں ارشاد فرماتے ہیں، عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا تمہیں معلوم ہونا چاہیے، میں یتیمی کا داغ لے کر دنیا میں آیا، میں نے پہاڑوں پر بکریوں کی گلہ بانی کی، میں نے تجارت کے لئے شام تک کا سفر کیا اور جب اس رب نے مجھے فضیلت عطا کی، تو میرے اوپر اونٹ کی اوجھ رکھی گئی، راستوں میں کانٹے بچھائے گئے اپنی بستی سے جب الگ ہوا تو میرے پیچھے ان بچوں کو لگا دیا گیا، جو مجھے پتھر مارتے اور پاگل اور دیوانہ کہتے، یہاں تک کہ میری جوتیاں خون سے بھر کر پاؤں سے چمٹ گئیں، مجھے خندق میں گرایا گیا، میرے دانتوں کو شہید کیا گیا، عائشہ(رضی اللہ تعالی عنہا) تم ہی بتاؤ آج جب اس رب نے ان سب کو میرا ہمنوا بنا دیا، ایک تنہا انسان کے اطراف میں انھیں انسانوں کو میرا عاشق بناکر ایک بھیڑ جمع کردی، جس خدا نے میرے نام کو اپنے نام کے ساتھ قیامت تک کے لئے ضم کر دیا، جس نے مجھے ذرے سے آفتاب بنا دیا، کیا میں اس خدا کا شکر ادا نہ کروں۔
جامعہ شیخ الہند انجان شہید اعظم گڑھ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کائنات عالم پر پانچ سو سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے، دنیا سے آسمان کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے، جس کے نتیجے میں انسانیت گمراہی اور ضلالت کے تاریک شاہراہ پر گامزن ہے، فسق و فجور شرک و خرافات کی گرم بازاری ایسی کہ خانہ خدا میں سیکڑوں بتوں کو معبود بنا کر پرستش کی جا رہی ہے, تورات و زبور میں تحریف و ردوبدل کی جاچکی ہے, دین ابراہیمی کو فراموش اور بھلا کر شیطانی مکر و فریب, اوہام و خیالات میں جکڑے ہوئے لوگ ہیں, جن کے نزدیک انسانی زندگی کا ختم کرنا چراغ کو پھونک مارنے کے مثل ہے, ہر ایک شراب کا عاشق اور انسانیت سے بیزار ہے، نیکیوں سے متنفر برائیوں سے قریب تر ہے، بچیاں باعث عار اور بت ان کے معبود و حاجت روا ہیں، جنگ ان کا محبوب مشغلہ، زناکاری ان کی عادت، ڈاکہ زنی ان کا شعار ہے،
ان کے درمیان چند نفوس ایسے ہیں، جو گوشہ تنہائی میں آسمان کی طرف نظر اٹھا ئے ہوئے حی القیوم سے کسی ایسے معجزے کے متمنی ہیں، جو آسمان اور دنیا کے منقطع ہوئے سلسلے کو جوڑنے والا ہو، جو ایسا ہو کہ ضلالت و گمراہی کے تاریک راستوں پر گامزن انسانیت کو ہدایت اور روشنی کے راستےکی طرف چلائے، جو زبور و توریت کی عظمتوں کو برقرار رکھتے ہوئے، شیطانی مکر و فریب اور اوہام و خیالات سے آزادی دلا کر پھر ان کو دین حنیف کے سامنے لا کھڑا کرے۔
پھر خدا کی نظر کرم گوشے میں بیٹھے چند نفوس ہی کے لئے نہیں بلکہ پورے عالم کے لئے صبح نو کی تمہید بنتی ہے، اللہ تعالی اپنے محبوب رسول کو اس دنیا اور آسمان کے ٹوٹے ہوئے سلسلے کو جوڑنے کے لیے اتارتا ہے، جو گمراہی اور ضلالت کے تاریک راستوں پر چلنے والے انسانوں کو شرک و بدعت، فسق و فجور، اوہام و خیالات کی دلدل سے نکال کر، انہیں انسانوں کو معیار کی اس بلندی پر پہنچا تا ہے کہ زمین وآسمان ان کی عظمت و شرافت کے گن گانے لگتے ہیں جن و ملک ان کے مرتبے اور عہدے پر رشک کرنے لگتے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ورم زدہ قدم مبارک کو دیکھ کر پوچھتی ہیں کہ میرے آقا! میرے مالک! جب اللہ تعالی نے آپ کو معصوم، سیئات سے پاک اور گناہوں سے محفوظ بنایا ہے اور انسانیت کے لئے رحمت بنایا ہے، تو پھر آپ اتنی تکلیف اور اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جواب میں ارشاد فرماتے ہیں، عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا تمہیں معلوم ہونا چاہیے، میں یتیمی کا داغ لے کر دنیا میں آیا، میں نے پہاڑوں پر بکریوں کی گلہ بانی کی، میں نے تجارت کے لئے شام تک کا سفر کیا اور جب اس رب نے مجھے فضیلت عطا کی، تو میرے اوپر اونٹ کی اوجھ رکھی گئی، راستوں میں کانٹے بچھائے گئے اپنی بستی سے جب الگ ہوا تو میرے پیچھے ان بچوں کو لگا دیا گیا، جو مجھے پتھر مارتے اور پاگل اور دیوانہ کہتے، یہاں تک کہ میری جوتیاں خون سے بھر کر پاؤں سے چمٹ گئیں، مجھے خندق میں گرایا گیا، میرے دانتوں کو شہید کیا گیا، عائشہ(رضی اللہ تعالی عنہا) تم ہی بتاؤ آج جب اس رب نے ان سب کو میرا ہمنوا بنا دیا، ایک تنہا انسان کے اطراف میں انھیں انسانوں کو میرا عاشق بناکر ایک بھیڑ جمع کردی، جس خدا نے میرے نام کو اپنے نام کے ساتھ قیامت تک کے لئے ضم کر دیا، جس نے مجھے ذرے سے آفتاب بنا دیا، کیا میں اس خدا کا شکر ادا نہ کروں۔