اشرف اصلاحی
اردو عربی فارسی یونیورسٹی لکھنؤ
8090805596
ـــــــــــــــــــــــــــ
مکرمی !
راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی مدنی صاحب کسی کے لئے محتاج تعارف نہیں۔ آپ ایک ایسے نطفہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کے دلوں میں ملک و ملت کا درد بھرا ہوتا ہے، آپ کے والد محترم مرحوم مولانا مجیب اللہ ندوی صاحب ایک عظیم شخصیت کے حامل تھے جو ملک کی آزادی سے لیکر ہر ظلم و جبر کے خلاف ہمیشہ میدان عمل میں رہتے اور قوم کی تحفظ کے ساتھ فلاح و بہبود کے لئے کوشاں رہتے تھے، مولانا عامر رشادی صاحب انہیں کے صاحبزادے ہیں۔
سنجر پور سمیت اعظم گڑھ و آس پاس میں جب 2008 میں ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، نوجوانوں کا آتنکواد کے نام پر انکاؤنٹر کیا جانے لگا اور درجنوں کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کر ہر طرف ڈر و خوف کا ماحول پیدا کیا گیا، گلیوں میں ایس ٹی ایف و اے ٹی ایس سمیت خفیہ ایجنسیوں کے جوتوں کی ٹاپ و سائرن بجاتی سیکڑوں گاڑیاں نظر آنے لگیں،پورے ضلع کو آتنک کے نرسری سے موسوم کر دیا گیا اور حد تو یہ ہے کہ نام نہاد مسیحائ کا دم بھرنے والے خاموش تھے حتی کے ضلع کے مسلم لیڈران بھی سنجر پور و ان نوجوانوں کو اپنا کہنے سے ڈرنے لگے، سب کی زبانیں گنگ تھیں ہر طرف قیامت برپا تھی تو یہی عامر رشادی فرشتہ بن کر اپنے مدرسے و اہل و عیال کی قربانیاں دیتے ہوئے میدان میں آیا اور اعظم گڑھ کی عوام میں ایک نئی روح پھونکی، ان کو ظلم کے خلاف لڑنے کا حوصلہ دیا،سیاسی و سماجی قوت بخشی جس سے ہر طرف علماء کونسل نام کی جے جے کار ہونے لگی، سیاسی پارٹیوں کا ووٹ کھسکنے لگا اور انکو اپنی کرسی بچانے کا ڈر ستانے لگا۔
مولانا رشادی پر جھوٹے مقدمے ضلع کے سبھی تھانوں میں درج کرائے گئے اور بے جے پی ایم پی راماکانت یادو جس کے نام سے اعظم گڑھ کے مسلمان ڈرتے تھے، اس کے ظلم کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا تھا اس نے 2010 میں پھولپور بازار میں قائد ملت پر جان لیوا حملہ کرایا جس میں اللہ کے شکر سے مولانا بال بال بچ گئے مگر افسوس حافظ عبدالرحمن نامی ایک کونسل کارکن شہید ہوگیا، مولانا ڈرے نہیں بلکہ اپنی جوانمردی کے ساتھ عوام کی دعاؤں سے قاتل کا ایم پی جیسے عہدے پر ہونے کے باوجود ایک سال تک جیل کی ہوا کھلوائی، افسوس مسلمانوں کی ہمدرد کہی جانے والی سپا سرکار نے قاتل کو نچلی عدالت سے باعزت بری کرا دیا، اسی سابق ایم پی نے اپنا رعب دوبارہ قائم کرنے اور کونسل کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس کے وجود کو ختم کرانے کے لئے مولانا عامر رشادی صاحب جو جونپور ضلع کے شاہ گنج میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کرنے جا رہے تھے ان پر اعظم گڑھ کے امباری بازار میں اپنے گھر کے پاس ایک دفعہ پھر حملہ کروایا، ریلی میں جا رہے قافلے کے سامنے اس کے غنڈوں نے پک اپ گاڑی کھڑی کر قافلہ کو روک دیا اور لاٹھی ڈنڈے سے لیس پتھراؤ کر فائرنگ بھی کی، مولانا کی گاڑی سمیت درجنوں گاڑیوں کو پوری طرح سے برباد کر دیا اور نصف درجن لوگوں کو لہولہان کر دیا۔ یہ حملہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا ہے۔ مولانا کی سوج بوجھ نے ماحول خراب ہونے سے بچا لیا اور اپنے کارکنان کو حکم دیا کہ ہمیں جوابی کاروائ نہیں کرنا ہے، یہ لوگ ضلع کے خوش گوار ماحول کو مسلم ہندو رنگ دے کر خراب کرنا چاہتے ہیں، ہمیں ان کی اس ناپاک سازش کو ناکام کرنا ہے۔ یہ حملہ اعظم گڑھ سمیت ہندوستان کے مسلمانوں پر حملہ ہے، مسلمانوں کی آواز اٹھانے والے کی آواز دبانے کے لئے حملہ ہے اور اس سازش میں نام نہاد لیڈر سمیت ضلع انتظامیہ بھی کچھ کم نہیں ہے ان پر شکنجہ کسنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائ کرتے نظر آتے ہیں۔
آخر میں ضلع انتظامیہ سے درخواست ہے کہ حملہ آوروں پر جلد از جلد کاروائ کر مولانا کی جان کو خطرہ ہونے کو دیکھتے ہوئے ان کے تحفظ کے لئے سیکورٹی فراہم کی جائے، عوام میں غم و غصہ کی لہر ہے اگر حملہ آوروں پر جلد کاروائی نہیں کی گئی تو کبھی بھی ان کا غصہ پھوٹ سکتا ہے اور اس کی ذمہ دار ضلع انتظامیہ ہوگی۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ مولانا کی حفاظت فرمائے اور مظلوموں کی آواز اٹھانے والے مسیحا کا سایہ تا دیر ہم پر قائم رکھے۔آمین
اردو عربی فارسی یونیورسٹی لکھنؤ
8090805596
ـــــــــــــــــــــــــــ
مکرمی !
راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی مدنی صاحب کسی کے لئے محتاج تعارف نہیں۔ آپ ایک ایسے نطفہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کے دلوں میں ملک و ملت کا درد بھرا ہوتا ہے، آپ کے والد محترم مرحوم مولانا مجیب اللہ ندوی صاحب ایک عظیم شخصیت کے حامل تھے جو ملک کی آزادی سے لیکر ہر ظلم و جبر کے خلاف ہمیشہ میدان عمل میں رہتے اور قوم کی تحفظ کے ساتھ فلاح و بہبود کے لئے کوشاں رہتے تھے، مولانا عامر رشادی صاحب انہیں کے صاحبزادے ہیں۔
سنجر پور سمیت اعظم گڑھ و آس پاس میں جب 2008 میں ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، نوجوانوں کا آتنکواد کے نام پر انکاؤنٹر کیا جانے لگا اور درجنوں کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کر ہر طرف ڈر و خوف کا ماحول پیدا کیا گیا، گلیوں میں ایس ٹی ایف و اے ٹی ایس سمیت خفیہ ایجنسیوں کے جوتوں کی ٹاپ و سائرن بجاتی سیکڑوں گاڑیاں نظر آنے لگیں،پورے ضلع کو آتنک کے نرسری سے موسوم کر دیا گیا اور حد تو یہ ہے کہ نام نہاد مسیحائ کا دم بھرنے والے خاموش تھے حتی کے ضلع کے مسلم لیڈران بھی سنجر پور و ان نوجوانوں کو اپنا کہنے سے ڈرنے لگے، سب کی زبانیں گنگ تھیں ہر طرف قیامت برپا تھی تو یہی عامر رشادی فرشتہ بن کر اپنے مدرسے و اہل و عیال کی قربانیاں دیتے ہوئے میدان میں آیا اور اعظم گڑھ کی عوام میں ایک نئی روح پھونکی، ان کو ظلم کے خلاف لڑنے کا حوصلہ دیا،سیاسی و سماجی قوت بخشی جس سے ہر طرف علماء کونسل نام کی جے جے کار ہونے لگی، سیاسی پارٹیوں کا ووٹ کھسکنے لگا اور انکو اپنی کرسی بچانے کا ڈر ستانے لگا۔
مولانا رشادی پر جھوٹے مقدمے ضلع کے سبھی تھانوں میں درج کرائے گئے اور بے جے پی ایم پی راماکانت یادو جس کے نام سے اعظم گڑھ کے مسلمان ڈرتے تھے، اس کے ظلم کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا تھا اس نے 2010 میں پھولپور بازار میں قائد ملت پر جان لیوا حملہ کرایا جس میں اللہ کے شکر سے مولانا بال بال بچ گئے مگر افسوس حافظ عبدالرحمن نامی ایک کونسل کارکن شہید ہوگیا، مولانا ڈرے نہیں بلکہ اپنی جوانمردی کے ساتھ عوام کی دعاؤں سے قاتل کا ایم پی جیسے عہدے پر ہونے کے باوجود ایک سال تک جیل کی ہوا کھلوائی، افسوس مسلمانوں کی ہمدرد کہی جانے والی سپا سرکار نے قاتل کو نچلی عدالت سے باعزت بری کرا دیا، اسی سابق ایم پی نے اپنا رعب دوبارہ قائم کرنے اور کونسل کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس کے وجود کو ختم کرانے کے لئے مولانا عامر رشادی صاحب جو جونپور ضلع کے شاہ گنج میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کرنے جا رہے تھے ان پر اعظم گڑھ کے امباری بازار میں اپنے گھر کے پاس ایک دفعہ پھر حملہ کروایا، ریلی میں جا رہے قافلے کے سامنے اس کے غنڈوں نے پک اپ گاڑی کھڑی کر قافلہ کو روک دیا اور لاٹھی ڈنڈے سے لیس پتھراؤ کر فائرنگ بھی کی، مولانا کی گاڑی سمیت درجنوں گاڑیوں کو پوری طرح سے برباد کر دیا اور نصف درجن لوگوں کو لہولہان کر دیا۔ یہ حملہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا ہے۔ مولانا کی سوج بوجھ نے ماحول خراب ہونے سے بچا لیا اور اپنے کارکنان کو حکم دیا کہ ہمیں جوابی کاروائ نہیں کرنا ہے، یہ لوگ ضلع کے خوش گوار ماحول کو مسلم ہندو رنگ دے کر خراب کرنا چاہتے ہیں، ہمیں ان کی اس ناپاک سازش کو ناکام کرنا ہے۔ یہ حملہ اعظم گڑھ سمیت ہندوستان کے مسلمانوں پر حملہ ہے، مسلمانوں کی آواز اٹھانے والے کی آواز دبانے کے لئے حملہ ہے اور اس سازش میں نام نہاد لیڈر سمیت ضلع انتظامیہ بھی کچھ کم نہیں ہے ان پر شکنجہ کسنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائ کرتے نظر آتے ہیں۔
آخر میں ضلع انتظامیہ سے درخواست ہے کہ حملہ آوروں پر جلد از جلد کاروائ کر مولانا کی جان کو خطرہ ہونے کو دیکھتے ہوئے ان کے تحفظ کے لئے سیکورٹی فراہم کی جائے، عوام میں غم و غصہ کی لہر ہے اگر حملہ آوروں پر جلد کاروائی نہیں کی گئی تو کبھی بھی ان کا غصہ پھوٹ سکتا ہے اور اس کی ذمہ دار ضلع انتظامیہ ہوگی۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ مولانا کی حفاظت فرمائے اور مظلوموں کی آواز اٹھانے والے مسیحا کا سایہ تا دیر ہم پر قائم رکھے۔آمین